میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کے ساتھ سرحد سیل کرنے کی بھارتی دھمکی۔۔۔فائدہ پاکستان کو ہوگا

پاکستان کے ساتھ سرحد سیل کرنے کی بھارتی دھمکی۔۔۔فائدہ پاکستان کو ہوگا

ویب ڈیسک
جمعرات, ۳۰ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے 2018 ءتک پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد مکمل طورپر بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ مدھیہ پردیش میں بی ایس ایف اکیڈمی میں نئے بھرتی ہونے والے اہلکاروں کی پاسنگ آﺅٹ پریڈ سے خطاب اور بعد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ہم نے سرحدی سیکورٹی مضبوط بنانے کے لیے نیا لائحہ عمل وضع کیا ہے جس کے تحت جتنا جلد ممکن ہو سکے اپنے ہمسایہ ملکوں، پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ بین الاقوامی سرحدیں سیل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیںاور پاکستان کے ساتھ 2018ءتک سرحد سیل کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی سطح پر وزارت داخلہ، سیکورٹی فورسزکی سطح پر بی ایس ایف اور ریاستی سطح پر چیف سیکرٹریز وقتاً فوقتاً اس منصوبے کی نگرانی کریں گے ‘ مشکل علاقوں میں سرحدکی بندش کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ سرحدکی بندش کا فیصلہ بڑھتی ہوئی دراندازی کے پیش نظرکیا گیا ہے جبکہ یہ دہشت گردی اور پناہ گزینوں کے مسئلے کے خلاف بھارت کا بڑا قدم ہوسکتا ہے۔
جنگی جنون میں مبتلا بھارت کے رہنما پاکستان کے خلاف دہشتگردوں کی پشت پناہی اور دراندازی کا پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں ۔ بھارتی رہنماﺅں نے پاکستان کو دہشتگرد ریاست قرار دلانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ پاکستان پر دہشتگردوں کی پشت پناہی کا الزام ،کشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی حمایت کے سبب لگایا جاتا ہے۔ بھارت مقبوضہ وادی میں اپنی آزادی کی خاطر لڑنیوالوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے جبکہ پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد حریت کو جائز اور اقوام متحدہ کے منشورکے مطابق درست سمجھتا ہے۔ بھارت اس بناپر پاکستان کو دہشت گردوں کا پشت پناہ قرار دیتا ہے۔ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور عالمی برادری کے سامنے رکھنے کو اپنی پالیسی بنایا ہے جو بھارت کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ بھارتی رہنمامقبوضہ وادی میں حریت پسندوں کے سفاک بھارتی فوجیوں کے ساتھ برسر پیکار ہونے کو بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس سے قبل بھارت کی اعلیٰ سیاسی قیادت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے ملوث ہونے کے لغو الزامات لگا کر اس کا بدلہ بلوچستان میں چکانے کے اعلانات بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ بھارتی رہنماﺅں کے ان الزامات کے برعکس پاکستان نے کبھی کشمیر میں دراندازی کی کوشش نہیں کی اور ہمیشہ بھارت کے اس طرح کے لغو الزامات کی تردید کرتارہاہے ،جبکہ بھارت کے اعلیٰ حکام بلوچستان اور گلگت بلتستان میںدہشت گردانہ حملوںکا جواب دینے کاباقاعدہ اعلان کرتے رہے ہیں۔ ایسے اعترافات اور دعووں کے بعد بھی بھارت کے پاکستان میں مداخلت اور دہشتگردی میں ملوث ہونے میں کیا ثبوتوں کی کوئی ضرورت رہ جاتی ہے۔
اس صورت حال میں بھارت کا رویہ چور مچائے شور جیسا ہے، اس کے ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کے الزامات بے بنیاد ثابت ہو چکے ہیں۔ مگر وہ پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کی فطرت سے باز آنے پر تیار نہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس پرحملے کا الزام باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پاکستان پر لگا دیا گیا۔بھارتی ایجنسیوں کی تحقیقات میں بھارت کی یہ سازش بے نقاب ہو گئی مگر بھارت سمجھوتہ ایکسپریس کے ملزموں کو کٹہرے میں لانے کے بجائے ڈھٹائی اور بے شرمی سے نہ صرف ایسے واقعات کے الزامات پاکستان پر لگا رہا ہے بلکہ ایسے ڈرامے بھی خود ہی رچا رہا ہے۔ ایسی ڈرامہ بازی کا مقصد جہاں پاکستان کو بدنام کرنا ہے وہیں مقبوضہ وادی میں اپنی7 لاکھ سے زائد فوج کی نہتے کشمیریوں پر بربریت سے دنیا کی توجہ ہٹائے رکھنا بھی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس میں برملا کہا جاتا ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ پامالی مقبوضہ کشمیر میں ہوتی ہے۔ جہاں چادر چار دیواری کا تحفظ ناپید ہے۔ خواتین کی بے حرمتی معمول ہے۔ زیر حراست نوجوانوں کو تشدد کر کے شہید کردیا جاتا ہے، کشمیریوں کی اجتماعی قبریں، بھارتی سفاک فوج کی انسانیت سوزی اور ظلم و جبر کی بھیانک مثال ہیں۔
بھارت کنٹرول لائن پر باڑھ لگاچکا ہے جہاں سے پرندے کا گزرنا بھی ناممکن ہے۔ چپے چپے پر مسلح فوج تعینات ہے۔ پھر بھی پاکستان پر دراندازی کا الزام لگا دیا جاتا ہے، باڑھ کی موجودگی میں دراندازی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر مکار بھارتی قیادت دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے پاکستان پر جھوٹے الزامات لگا کر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی ہے، کنٹرول لائن پر باڑھ کا کوئی جواز نہیںہے۔ کنٹرول لائن ایک عارضی حد بندی ہے۔ جسے کسی صورت مستقل حد بندی اور بین الاقوامی سرحد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عارضی حد بندی پر عالمی قوانین کے تحت دیوار یا باڑ ھ نہیں بنائی جا سکتی۔
بھارت کنٹرول لائن پر غیر قانونی باڑ لگانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ 29 سو کلومیٹر کی بین الاقوامی سرحد بھی سیل کرنا چاہتا ہے۔ اس نے کئی مقامات پر لیزر وال لگا دی ہے۔ جدید الارم سسٹم سے لیس لیزر وال کسی چیز کے گزرنے کی صورت میں تیز سائرن بجاتی ہے۔ یہ دیوار پٹھان کوٹ حملوں کے بعد لگائی گئی۔ دنیا کو دکھانے کے لیے بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) نے نہ صرف سرحدی علاقوں میں سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد بڑھا دی ہے بلکہ کشتیوں کے ذریعے پٹرولنگ کا عمل بھی تیز کر دیا ہے۔
چند ماہ قبل بھارت نے پاکستان کے ساتھ سرحد پر نگرانی سخت کرنے کے لیے پانچ سطحی حفاظتی جامع منیجمنٹ نظام کی منظوری دی تھی۔بھارتی اخبار ”ٹائمز آف انڈیا“ کی رپورٹ کے مطابق اس نظام کے تحت 2900 کلو میٹر طویل سرحد پر نگرانی بڑھانے کے لیے جدید آلات کی مدد لی جائے گی جن میں سی سی ٹی وی کیمرے ،نائٹ ویڑن اور زیر زمین نگرانی کے آلات لیزر باڑھ اور میدان جنگ میں استعمال ہونے والے راڈار شامل ہیں۔ اس سسٹم کو بارڈر مینیجمنٹ سسٹم(سی آئی بی ایم ایس) کا نام دیا گیا ہے جب یہ سسٹم نصب کرلیا جائیگا تو سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر یہ وارننگ دیگا،اس سسٹم کااہم آلہ لیزر بیرئیر ہیں جن سے سیکورٹی فورسز کو ایسے علاقوں میں معاونت مل سکے گی جہاں باڑھ نہیں لگی ہوئی اور یہ علاقہ تقریباً130 غیر باڑھ شدہ سیکشن پر مشتمل ہے جن میں پہاڑ وغیرہ شامل ہیں۔
بھارت کو اپنی سرحدوں کی حفاظت کے اقدامات سے کوئی نہیں روک سکتا، یہ کسی بھی ملک کا بنیادی استحقاق ہے، بھارت گو اپنا یہ حق بدنیتی کی بناپر پاکستان کو اپنے لیے خطرہ باور کرا کے بدنام کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس سے بہرحال پاکستان کو فائدہ ہی ہو سکتا ہے کیونکہ اس نظام کی وجہ سے بھارتی جاسوس، ایجنٹ اور دہشتگرد، اس راستے سے پاکستان میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔
سرحدیں سیل کرنے کے حوالے سے بھی بھارت کا دوہرا معیار ہے۔ پاکستان کے ساتھ وہ خود تو بارڈر سیل کر رہا ہے جبکہ پاکستان جب اپنا یہی استحقاق افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر استعمال کرتا ہے تو بھارت پاکستان میں مداخلت اور دہشتگردی کی اپنی راہ رکتے دیکھ کر افغانستان کوپاکستان کے خلا ف بھڑکانے کی کوشش کرتاہے۔
ہماری فوجی قیادت کو مکار بھارتی قیادت کے ان حربوں کومد نظر رکھنا چاہیے اور بھارتی مداخلت کا پاکستان میں داخلہ روکنے کے لیے ہر ممکن ٹیکنالوجی استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرناچاہئے،اور بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں کی کوششوں سے فوری طورپر اقوام متحدہ کو آگاہ رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ بھارت کسی بھی مرحلے پر خود کو مظلوم ثابت نہ کرسکے اور اس کا کریہہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے آشکارا ہوجائے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں