میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سپریم کورٹ ججز کے استعفے اور اندیشے

سپریم کورٹ ججز کے استعفے اور اندیشے

جرات ڈیسک
هفته, ۱۳ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

سپریم کورٹ میں یکے بعد دیگرے دو جج صاحبان کے پراسرار استعفوں نے ملک کے سیاسی وانتخابی کے بعد اب عدالتی منظر نامے کو بھی دھند آلود کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس (ر)مظاہر علی اکبر نقوی کے استعفیٰ کی بازگشت ابھی فضا میں تھی اور اس کے محرکات پر مختلف تبصرے جاری تھے کہ اچانک سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الحسن کا استعفیٰ سامنے آگیا۔ اُن کا استعفیٰ اس لیے چونکا دینے والا زیادہ تھا کہ اُن کے خلاف جسٹس (ر) مظاہر علی اکبر نقوی کی طرح کوئی سپریم جوڈیشل کونسل میں کوئی شکایت بھی نہیں تھی۔پھر وہ اکتوبر میں ملک کے ممکنہ چیف جسٹس ہونے والے تھے، پھر ایسا کیا اور کیوں ہوا کہ وہ اپنے شاندار کیریئر کے نقطہئ عروج پر استعفیٰ دے کر چلے گئے۔ جسٹس اعجاز الحسن کے متعلق جو واحد چیز استعفے سے پہلے زیرگردش تھی، وہ صرف یہ کہ وہ جسٹس (ر) مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے خوش نہیں تھے۔جسٹس (ر) اعجاز الحسن کے استعفیٰ کے محرکات ابھی تک اٹکلوں اور تجزیوں میں ڈھونڈے اور بوجھے جا رہے ہیں مگر سپریم کورٹ کے جسٹس (ر)مظاہر علی اکبر نقوی نے ایک ایسے موقع پر استعفیٰ دیا جب اُن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی ہو رہی تھی، اُنہوں نے اس پوری کارروائی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ہی ایک اپیل داخل کی، جیسے کہ اس سے پہلے خوف معزز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے خلاف ہونے والی کارروائی میں کرچکے تھے، مگر سپریم کورٹ سے اُنہیں ایک مختلف نتیجہ ملا۔ سپریم کورٹ کے اندر معزز جج صاحبان میں ایک واضح تقسیم پیدا ہو چکی ہے۔ ایک طرف تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کا ایک اکٹھ (جس نے عمران خان کی حکومت کو مشکوک ماحول اور غیبی حمایت کے بعد تحریک عدم اعتماد کے ذریعے چلتا کردیا تھا) مخصوص ججز کی حمایت اور مخصوص کی مخالفت کررہا ہے، دوسری طرف کچھ ایسے ججز ہیں جنہیں پاناما کیس کے بعد پاکستان میں پیدا ہونے والے سیاسی حالات میں بعض فیصلوں کے بعد متنازع بنا کر ایک ایسے کھیل کے شریک کے طور پر دیکھا گیا جس سے پاکستان کے سیاسی حالات اُتھل پتھل ہوئے۔ اب ایک بار پھر پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں برعکس حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ جس کے متعلق پشاور ہائیکورٹ کے ڈویژنل بینچ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے ”لاڈلے“ کی اصطلاح استعمال کرنے پر یہ ریمارکس دیے تھے کہ ”پاکستان میں ہر سال دوسال بعد لاڈلے بدلتے رہتے ہیں“۔ درحقیقت سلیکٹڈ اور لاڈلوں کی اس اُلٹ پھیر میں عدالتی فیصلوں کی بھی اب ایک پھیر بدل کا نیا منظرنامہ پیدا ہو گیا ہے۔ یوں پاکستان کی سیاست، عدالت کی سطح پر بھی فیصلوں کی ادلا بدلی کے ایک دور سے گزر رہی ہے، اس کا اثر ایسے ججز پر بھی پڑ رہا ہے جو ماضی میں مخصوص فیصلوں کے حوالے سے گرمجوشی دکھاتے رہے ہیں۔ اب سیاسی منظرنامے میں تبدیلی کے بعد وہ اپنے اُن فیصلوں کے حوالے سے تنقید کی زد میں ہے۔سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے خلاف کچھ عرصہ قبل بنایا گیا عدالتی محاذ نئے چیف جسٹس کے بعد اُسی طرح سرگرم ہے۔ اس افسوس ناک منظرنامے کو دیکھ کر عوام میں عدالتوں کا وقار بُری طرح مجروح ہو رہا ہے۔
جسٹس(ر) مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی ابھی تک رکی نہیں ہے۔ اگرچہ قواعد کی روشنی میں ایک عام تاثر یہ تھا کہ جسٹس(ر) مظاہر علی اکبر نقوی نے یہ استعفیٰ ہی اس لیے دیا ہے کہ وہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے بچتے ہوئے اپنی پنشن اور مراعات کا تحفظ کرنا چاہتے تھے۔ یہ تاثر ذرائع ابلاغ کے اُن مخصوص حصوں کی جانب سے مسلسل دیا گیا جو نئے حالات کے پیدا کرنے میں موجودہ موثر سیاسی اور دیگر قوتوں کے آلہ کار کے طور پر کام کرتے رہے۔ مگر ایک روز بعد اُن ہی حلقوں کی جانب سے اُٹھائے گئے شور کو اچانک سپریم جوڈیشل کونسل کی جاری کارروائی کی منطق بنا لیا گیا کہ ایک شخص کچھ بھی کر لے اور عدالتوں کے وقار سے کھیل کر صرف استعفے سے اپنے خلاف کارروائی سے کیسے بچ سکتا ہے، یوں جسٹس(ر) مظاہر علی اکبر نقوی کے خلا ف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو مزید دو دلائل سے بھی جاری رکھنے کی سبیل نکال لی گئی ہے کہ اول تو اُنہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے دوران استعفیٰ دیا ہے، کارروائی شروع ہونے سے پہلے نہیں۔ دوسری دلیل پہلے سے زیادہ خوش نما ہے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جسٹس (ر)مظاہر علی اکبر نقوی کسی دباؤ کے شکار ہو کر استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے ہوں۔ان خوش نما دلائل کے پیچھے اُس سیاسی غیض وغضب کا بھی متوازی مظاہرہ دیکھا جا رہا ہے جو نون لیگ کی جانب سے ان ججز کے خلاف پریس کانفرنسوں اورسیاسی بیانات میں اُبل اور اُچھل رہا ہے۔ بہت زیادہ خوش گمانی رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کی انصاف کی جستجو اور دوسری طرف سیاسی انتقام میں کوئی تال میل کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے۔ ہمیں اسے ایک اتفاق ہی سمجھنا چاہئے کہ سپریم کورٹ جس انصاف کی جستجو کررہا ہے وہ اتفاقاً کسی کے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا بھی کر رہا ہے۔ اور یہ بھی ایک اتفاق ہی ہے کہ آئندہ کے سیاسی منظرنامے کے لیے بھی یہ انصاف کی فضاء ساز گار ہے۔ ان سب چیزوں کو معزز عدالت کے ناقابل سوال احترام کے پیش نظر ایک ساتھ دیکھنے کے بجائے اسے اتفاق کی منطق سے الگ الگ دیکھنا چاہئے۔
سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان کے ان استعفوں کے بعد نون لیگ کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ان ججز کو بغیر حساب کے صرف ریٹائر ہونے پر نہیں چھوڑا جا سکتا بلکہ انہیں حساب دینا پڑے گا۔ انتخابات کے بعد ممکنہ اگلی حکومت میں یہ حساب ممکن طور پر ہو بھی سکتا ہے کیونکہ نون لیگ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثاراورسابق چیف جسٹس عمر عطابندیال کے علاوہ دو دیگر سابق چیف جسٹس صاحبان کو بھی اپنے نشانے پر لے رکھا ہے۔ اور نون لیگ کا ماضی حکومت میں آنے کے بعد اگلے پچھلے”حساب“اور”انصاف“ کرنے کے حوالے سے نہایت ”شاندار“ بھی ہے۔مگر یہاں معاملہ نون لیگ کے ”جذبہئ انصاف“ کے آئینہ دار حساب نما انتقام کا نہیں ہے۔ اصل سوال معزز عدالت کی ساکھ اور اس سے جڑے موجود تنازعات کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جسٹس (ر) اعجاز الحسن کے استعفیٰ کے بعد اب سپریم کورٹ کے اندر جاری کشاکش اور تقسیم ختم ہو گئی ہے؟کیا کوئی مزید استعفے بھی ابھی متوقع ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہیں کہ ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ مسلسل یہ ابلاغ کر رہا ہے کہ ابھی مزید استعفے بھی آنے والے ہیں۔ سوچنا چاہئے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب ملک میں انتخابات کے لیے وقت ایک ماہ سے بھی کم رہ گیا ہے۔ پاکستان میں نئی حکومت کے ممکنہ نقشے کے ساتھ ملک میں جاری محاذ آرائی میں کسی کمی کے آنے کا کوئی موہوم امکان بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے میں سپریم کورٹ کی سطح پر اس نوع کے واقعات کا سامنے آنا مزید مایوسی کو جنم دیتا ہے۔ یہ صورتِ حال اس لیے بھی زیادہ خطر ناک ہے کہ ہمارے اندر بحران پیداکرنے کی تو لامحدود صلاحیت ہے مگر اس کے حل ڈھونڈنے کے حوالے سے ہماری صلاحیت بہت محدود اور ناکافی ہے۔ تاریخ تو یہی بتاتی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ سے مختلف ثابت ہو کر ان حالات میں کوئی مختلف نتائج پیدا کر پاتے ہیں یا نہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں