میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
لاوارث کراچی میں مستقل جرائم کا جوابدہ کون ہے؟

لاوارث کراچی میں مستقل جرائم کا جوابدہ کون ہے؟

جرات ڈیسک
منگل, ۲ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

اہل کراچی کے لیے اب یہ کوئی خبر نہیں رہ گئی کہ سال 2023 میں یہاں پرڈاکوؤں اور اسٹریٹ کرملز کا راج رہا۔ یہ رخصت ہوتے سال کا ہی معاملہ نہیں، یہ کئی دہائیوں پر پھیلا ہوا ایک گورکھ دھندا ہے جو چلتا چلا آرہا ہے۔ کراچی کے ہولناک اعداد وشمار ملک میں کسی کا دل بھی نہیں دہلاتے۔ کسی جنگ زدہ علاقے میں بھی اس طرح قتل وغارت گری کے اعداد وشمار سامنے نہیں آتے جو شہر کراچی میں مجموعی طور پر سالانہ ریکارڈ میں اُبھر آتے ہیں۔ اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سال 2023 میں شہر قائد میں ڈاکوؤں اوراسٹریٹ کرملزنے ڈکیتی اورلوٹ مار کی وارداتوں کے دوران مزاحمت پر135 افراد کوقتل کیا اور 1150 سے زائد شہریوں کو زخمی کیا ہے۔اعدادو شمارکے مطابق شہر کے مختلف علاقوں میں ڈکیتی کی وارداتوں کے دوران مزاحمت کے 11 سو سے زائد واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں مسلح ڈکیتوں نے فائرنگ کرکے 135 افراد کو قتل کردیا جبکہ1150 سے زائد افراد کو زخمی کیا ہے۔ڈاکوؤں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والوں میں تاجر، دُکاندار،طالب علم، عالم دین، سرکاری افسران، پولیس اہلکار، محنت کشوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شہری شامل تھے۔مزاحمت پرشہریوں کو قتل کرنے کی وارداتوں میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سال 2022 میں لوٹ مارکی وارداتوں کے دوران مزاحمت پرمسلح ڈکیتوں کی فائرنگ سے 118 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ سال 2022 کے مقابلے میں سال 2023 میں لوٹ مار کی وارداتوں کے دوران مزاحمت پرشہریوں کو قتل کرنے کی وارداتوں میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
سال 2023 کے پہلے ماہ جنوری میں لوٹ مار کی وارداتوں کے دوران مزاحمت پر 15 شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، فروری میں مسلح ڈکیتوں کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے شہریوں کی تعداد 11 رہی، مارچ میں مسلح ڈکیتوں نے مزاحمت پر10 معصوم شہریوں سے جینے کا حق چھین لیا، اپریل میں بے رحم ڈاکووں کے ہاتھوں 12 شہریوں کی زندگی کا چراغ گُل ہوگیا۔علاوہ ازیں مئی میں 15 افراد ڈکیتی کے دوران مزاحمت پرجاں بحق ہوئے، جون میں بھی 10افراد ڈاکوؤں کی گولیوں کا شکار بنے،جولائی میں بھی ڈاکووں کی فائرنگ سے 11 شہری اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے، اگست میں مسلح ڈکیتوں نے 8 شہریوں سے جینے کا حق چھین لیا، ستمبرمیں 14 شہریوں کو مسلح ڈکیتوں نے مزاحمت کرنے پرابدی نیند سلادیا، اکتوبرمیں بھی ڈاکووں کی فائرنگ سے 10 افراد اپنے پیاروں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے، ماہ نومبرمیں 11 شہری دوران ڈکیتی جان سے گئے، دسمبر میں مسلح ڈکیتوں کی فائرنگ سے 8شہری زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔سب سے زیادہ ضلع شرقی میں مسلح ڈاکوؤں کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے۔سال 2023 میں سب سے زیادہ ضلع شرقی میں مسلح ڈاکوؤں کے ہاتھوں میں 35 شہری جاں بحق ہوئے، اسی شہرکے سب سے بڑے ضلع وسطی میں بھی صورتحال بدتر رہی ضلع وسطی میں ڈاکؤوں کے ہاتھوں 26 افراد لقمہ اجل بنے،دوران لوٹ مار قتل کی وارداتوں کی تعداد کے اعتبار سے ضلع غربی کا تیسرا نمبر رہا۔ ضلع غربی 23 افراد چھینا جھپٹی کے دوران قتل کیے گئے۔ ضلع کورنگی میں بھی 18افراد ڈاکوؤں کی گولی کا نشانہ بن کرجان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ضلع ملیر میں مسلح ڈکیتوں کی فائرنگ 15 اورضلع کیماڑی میں 14 شہری جاں بحق ہوئے جبکہ ضلع جنوبی میں بھی ڈاکوؤں نے مزاحمت 2 دو شہریوں کو قتل کیا۔
یہ ہولناک اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کہیں پر کوئی مثالی تو درکنار معمولی کردار بھی ادا نہیں کر رہے۔ گزشتہ چند برسوں سے مختلف جرائم میں خود پولیس کے ملوث ہونے کے بھی متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ کراچی کو اچھی طرح جاننے والے پہلے بھی اس امر سے آگاہ تھے کہ کراچی میں کس طرح مجرموں، اور ڈکیٹوں کی نہ صرف سیاسی پشت پناہی ہوتی ہے بلکہ خود قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان کی سرپرستی کرتے ہیں اور یوں مختلف قسم کے ایسے جتھے کراچی میں مستقل طور پر وجود میں آگئے ہیں جو منظم جرائم کے مضبوط اور وسیع نیٹ ورک چلاتے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں میں یہ معاملہ اس اعتبار سے اور بھی گھمبیر ہو گیا ہے کہ اب خود پولیس براہ راست اپنی وردیوں میں بھی ڈکیٹیاں کرتے ہوئے نہیں گھبراتی۔ بدقسمتی سے شہر کراچی میں اس حوالے سے رینجرز کا کردار بھی کوئی مثالی نہیں رہا۔ کراچی کو کنٹرول کرنے اور کنٹرول میں رکھنے کی ذہنیت نے منظم طور پر ایسے جرائم پیشہ لوگوں کو اب سیاست میں بھی دھکیل دیا ہے۔ اور یوں کراچی کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ کراچی ایک کثیر الّسانی، کثرالثقافتی، کثیر القومی شہر ہے۔ اس نوعیت کے شہر کے معاشرتی تانے بانے اور سماجی ڈھانچے یوں بھی نزاکت کے شکار رہتے ہیں۔ پھر پاکستان کے مخصوص سیاسی حالات اور تمیزبندہ و آقا کے نظام میں مفاداتی گروہوں کی زیادتیاں بھی مایوسی کی مختلف لہروں کو مستقل اُٹھائے رکھتی ہیں۔ ہر طرف سے زیادتی کا شور و شکوہ ایسے میں کوئی غیر منطقی نہیں ہوتا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے کراچی کو کنٹرول میں رکھنے کی ذہنیت نے اس شہر میں ایک بیگانگی پیدا کردی ہے اور اب یہاں جرائم کو بھی ایک معمول سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔ اس سنگین صورت حال کا مطلب اگر کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تو وہ یہ ہے کہ اس طرح عام آدمی قومی مقاصد سے لاتعلق ہونے لگتا ہے۔ ملک سے گرمجوش وابستگی ختم ہونے لگتی ہے۔یہ کیفیت عمومی طور پر ملک بھر میں اور خصوصی طور پر کراچی میں دیکھی جاسکتی ہے۔ کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کسی بھی سطح پر کوئی اعتماد باقی نہیں رہ گیا۔ رینجرز کے مقاصد بھی نامعلوم سیاسی مقاصد میں اداروں کے مخصوص مقاصد کی حفاظت رہ گیا ہے۔ ایک زمانے میں رینجرز کی شہر میں موجودگی پر بھی سوالات اُٹھتے تھے۔ مگر اب یہ شہر کے قانونی ڈھانچے میں ایک مستقل وجود اور شراکت دار کی طرح شامل ہو چکی ہے، پھر کراچی کے مستقل نوعیت کے جرائم کی باز پرس پولیس کے ساتھ ان باقی اداروں سے کیوں نہیں کی جاتی؟ کراچی پولیس میں موجود جرائم پیشہ عناصر کو صرف فارغ کردینا کافی نہیں یا انہیں روایتی قانونی کورس کے حوالے کردینا ذمہ داری کو ختم نہیں کردیتا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ اگر براہ راست یا بالواسطہ جرائم میں شرکت کرتے ہیں تویہ کوئی معمول کا جرم نہیں اس کی سزا عبرت ناک ہو نی چاہئے۔ ایسے سرکاری لوگوں کو ہمیشہ کے لیے عبرت کی ایسی مثال بنانا چاہئے کہ کسی بھی سرکاری منصب پر بیٹھا ہوا شخص اس کی تپش محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے۔ یاد رکھیں ہر گزرتا دن قومی سطح پر تلخ سے تلخ ہوتا جارہا ہے۔ کراچی جسے سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پرہر طرح سے یر غمال بنایا ہوا ہے وہاں اگر عام شہری اپنی زندگی اور مال و متاع سے بھی محرومی کے مستقل خطرے سے دوچار کردیا گیا تو یہ احساس کسی دن ایسے لاوے کی شکل اختیار کر سکتا ہے جو پھٹ بھی سکتا ہے۔ ہمارے ارباب بست وکشاد کو سیاسی مصالح اور سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر شہر کراچی کے لااینڈ آرڈر کو کنٹرول کرنے پر مستقل توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔ نیز پولیس اور رینجرز سمیت تمام اداروں کو اب جوابدہ ٹہرانا چاہئے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں