میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بیساکھیو ں پر قائم حکومت اور آئی ایم ایف

بیساکھیو ں پر قائم حکومت اور آئی ایم ایف

جرات ڈیسک
جمعرات, ۷ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

اطلاعات کے مطابق وزارت توانائی کی طرف سے تجویز کردہ گردشی قرضوں میں کمی اور ٹیرف میں کمی کے منصوبوں کو آئی ایم ایف نے مسترد کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف ان منصوبوں کی حمایت کرنے کو تیار نہیں۔اس کے علاوہ خبروں کے مطابق آئی ایم ایف نے خوراک، دواؤں،اسٹیشنر ی کی مصنو عات پر18فیصد جی ایس ٹی عائد کرنے کا بھی مطالبہ کیاہے اورٹیرف میں کمی کے کسی منسوبے پر غور کرنے کی ممانعت کی ہے،ان ہدایات پر عمل کی صورت میں ظاہر ہے کہ خوراک، دواؤں،اسٹیشنر ی کی مصنو عات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگا، جس سے اس ملک کے 98 فیصد عوام کی چیخیں نکلنا شروع ہو جائیں گی جو کمزور بیساکھیوں پر قائم موجودہ اقلیتی حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہوگا۔ یہ حکومت فارم 47 کی مرہون منت ہے، یہ حکومت چوری شدہ مینڈیٹ پر بن رہی ہے اور چوں چوں کے مربے کا مجموعہ ہے۔ ہم 80 ہزار ارب روپے کے اندرونی و بیرونی قرضے لے چکے ہیں، کیا ایک ایٹمی قوت کا حامل پاکستان اس بوجھ کو برقرار رکھ سکتا ہے؟ پاکستان اس وقت بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے، لہٰذا وہ اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ پارلیمان میدانِ جنگ کا منظر پیش کرے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے مینڈیٹ چوری کے جو الزامات لگائے جا رہے ہیں ان میں کوئی صداقت ہے یا نہیں اس کا فیصلہ متعلقہ فورمزکو بلا تاخیر کرنا چاہئے کہ ایوان میں روز روز کی ہنگامہ آرائی کا سلسلہ ختم ہو، حقدار کو حق مل سکے اور الیکشن کمیشن اور مبینہ طور پر بعض مہربانوں کی نظر کرم کی بنیاد پر اسمبلیوں میں گھس آنے والے گھس بیٹھیوں کو اسمبلی سے باہر نکالا جا سکے۔ فی الوقت ایوان کا حال یہ ہے کہ عوام کی طاقت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ حکمرانوں کی باڈی لینگویج سے پتہ چلتا ہے جیسے بادل ناخواستہ حکمران بنا دیے گئے ہوں۔ شہباز شریف دوسری بار وزیر اعظم بنے ہیں۔ انھیں 201 ووٹ ملے ہیں اور یہ تعداد اپوزیشن کو ملنے والے ووٹوں کے مقابلے میں دگنی سے زیادہ ہے۔اس طرح عددی اعتبار سے شہباز شریف ایک مضبوط وزیراعظم ہیں کیونکہ ان کے مخالف عمر ایوب خان نے ان سے آدھے سے بھی کم ووٹ حاصل کیے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور اختر مینگل نے کسی کو ووٹ نہیں دیا۔ لیکن قومی اسمبلی کے آدھے سے کم تعداد میں اپوزیشن ارکان حکومتی ارکان کی تعداد ڈبل ہونے کے باوجود ان پر بھاری نظر آتے ہیں اور شاید اسے اخلاقی برتری کہتے ہیں۔ مانگے تانگے کی سواریاں ایسی ہی ہوتی ہیں اور آخر کار اپنے ہی بازو کام آتے ہیں لیکن پتہ نہیں حکمرانی کا تاج سر سجانے والے شہباز شریف کو یہ صورت حال نظر نہیں آرہی۔ غالباًوہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی اور ان کی اتحادی جماعت کے ارکان مل کربھی اپوزیشن کو ٹھوس جواب دے کر خاموش نہیں کرارہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ ناراض ناراض اور بجھے بجھے سے دکھائی دیتے ہیں اور کوئی زیادہ متحرک کردار ادا نہیں کر رہے۔ بقول ن لیگ کے رہنما جاوید لطیف کے، مرکزی حکومت زبردستی ان کے سر تھوپی گئی ہے۔ ایک طرف بوجھل دل سے اقتدار حاصل کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب حالت یہ ہے کہ ردعمل سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ جس طرح عوام نے 8/فروری کو ردعمل کا اظہار کیا ہے اسی طرح اسمبلیوں میں اپوزیشن کے ارکان ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر رکن میں بارود بھرا ہوا ہے۔ سو جس کو ذرا سا موقع ملتا ہے وہ برملا اظہار کرتا ہے اور لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر سوشل میڈیا پر اپوزیشن رہنماؤں کی تقریریں سن رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی سب سے توانا آواز مولانا فضل الرحمن تھے لیکن جب سے انھوں نے تحریک انصاف کے مینڈیٹ کے حق میں آواز اٹھائی ہے، عوام نے ان کو سر پر بٹھا لیا ہے۔ اسی طرح محمود خان اچکزئی پر کیا کیا الزام نہیں لگائے جاتے رہے انھوں نے جتنا نواز شریف کی سیاست کے لیے سہولت کاری فراہم کی ہے شاید ہی کوئی دوسرا اتنی خدمت کر سکتا۔ لیکن انھیں کبھی اتنی پزیرائی نہیں ملی جتنا قومی اسمبلی میں ان کی ایک تقریر نے انھیں ہیرو کا درجہ دے دیا ہے۔ اور سنی اتحاد کونسل نے انھیں آصف علی زرداری کے مقابلے میں صدارتی امیدوار نامزد کر دیا ہے۔
نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں میثاق معیشت اور میثاق مفاہمت کی بات کی لیکن ساتھ ہی 9مئی کے ذمہ دارون کو سزائیں دلانے کا بھی اعادہ کیا۔ 9مئی کے ذمہ دارون کو سزائیں دینے یا نہ دینے کا فیصلہ تو اب ہمارے ملک کی عدالتیں ہی کرسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف اس سانحہ کی ابتدا ہی واقعہ کی عدالتی تحقیقات کراکے مجرموں کا تعین کرنے کا مطالبہ کررہی ہے،تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہناہے کہ بلاشبہ 9مئی کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے تحریک انصاف خود اس کی حامی ہے لیکن بے گناہوں کومحض عمران خان کے حق میں نعرے لگانے کے جرم میں رگڑا نہ لگائیں۔ پہلے عدالتی کارروائی کروائیں پھر جو بھی ذمہ دار پائے جائیں انھیں کیفر کردار تک پہنچائیں لیکن اس کی آڑ میں سیاسی مخالفین کو نہ کچلا جائے۔ نگران دور میں جو کچھ ہوتا رہا اس کی ذمہ داری کہیں اور جاتی تھی لیکن اب جو کچھ ہو گا اس کی ذمہ داری براہ راست شہباز حکومت پر ہو گی۔ بظاہر شہباز شریف کی جانب سے اپوزیشن کو مفاہمت کی دعوت دی جا رہی ہے لیکن واقعات کا تسلسل بدستور جاری ہے۔ جمہوری دور میں آج بھی پرامن احتجاج کی اجازت نہیں۔ اسی طریقے سے گرفتاریاں ہو رہی ہیں خوف کے پہرے اسی طرح برقرار ہیں۔ ایسے میں بہتری کیسے آسکتی ہے اور کس طرح مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن کے پاس نگران دور تک اظہار کا کوئی ذریعہ نہ تھا لیکن اب منتخب نمائندے ہر ایشو پر اسمبلیوں میں آواز اٹھارہے ہیں اور اٹھاتے رہیں گے اور اس کی ذمہ داری حکومت کو لینی پڑے گی۔ اس صورت حال میں حکومت کے پاس مفاہمت کا ماحوال پیدا کرنے کیلئے اپوزیشن کو کوئی جائز مقام دینا پڑے گا ورنہ ہر روز دما دم مست قلندر ہوتارہے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ جو ہو چکا ملبہ نگرانوں پر ڈالیں اور خود اچھا بچہ بننے کی کوشش کا آغاز کرتے ہوئے مخصوص نشستوں پر مفاہمت کی بنیاد رکھیں۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ اسمبلیوں کے ماحول میں بہتری لائے بغیرحکومت نہیں چل سکے گی کیونکہ عوام پہلے ہی بھرے بیٹھے ہیں اور تحریک انصاف نے اپنی سیاست میں لچک پیدا کر کے سیاسی قوتوں کو ساتھ جوڑنا شروع کر دیا ہے۔ اس طرح ایک نئی تحریک کا آغاز ہو رہا ہے۔ ملک دوراہے سے چوراہے پر آچکا ہے۔ اب بھی اگر حکمت کی بجائے طاقت سے کام لیا گیا تو معاملات کہیں اور نکل سکتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں شہباز شریف نے اپنی تقریر کے دوران ملک کو درپیش صورتحال کے حوالے سے جو حقائق پیش کیے ہیں،ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کیا پالیسیاں اختیار کرسکتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری معیشت قرض کے سہارے چل رہی ہے لیکن ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کون سی جونکیں ہیں جو معیشت کو چمٹی ہیں اور قومی خزانے میں موجود وسائل کو چوس رہی ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ نو منتخب وزیراعظم کی بیان کردہ تمام تر مشکلات کے باوجود وطنِ عزیز میں اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے سالانہ بنیادوں پر ساڑھے 17رب ڈالر کی مراعات و سہولتیں دی جارہی ہیں اور یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ کسی مضبوط معیشت کے لیے بھی اس کا بوجھ اٹھانا ممکن نہیں ہے۔ اگر شہباز شریف اور ان کے اتحادی واقعی ملک اور عوام کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ اس بوجھ کو کم کرنے کی کوشش کریں اور اس کا آغاز خود اپنی ذات اور خاندان سے کریں۔ اگرچہ ٹیرف میں کمی کے منصوبے پر کوئی ابہام نہیں، تاہم وزارت پیٹرولیم کی جانب سے گردشی قرضوں میں کمی کے منصوبے پر متضاد اطلاعات تھیں، آئی ایم ایف ڈو مور کا مطالبہ کرتا ہے جتنا کردو کم ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ایسی اصلاحات کی جائیں جن سے بجلی کے بلوں کی مکمل ریکوری یقینی بنائی جائے ساتھ ساتھ کسی قسم کی سبسڈی یا رعایت کسی کو نہ دی جائے۔ ملک میں توانائی کا بحران کبھی حل ہوتا دکھائی کیوں نہیں دیتا۔ کیا وجہ ہے کہ لوگ بجلی چوری کرتے ہیں اور انھیں کوئی پکڑتا نہیں۔ لائن لاسز بھی ایک عجیب مسئلہ ہے۔ اگر ٹرانسمیشن لائنیں کام صحیح نہیں کررہی ہیں تو ان سے مکمل چھٹکارا پانے میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے۔ صنعتکاروں کی چیخیں نکل رہی ہیں وہ کارخانے بند کرکے بیرون ملک منتقل ہونے کا سوچ رہے ہیں کیوں کہ ان کے لیے اس مہنگائی میں مہنگی بجلی اور گیس خرید کر کارخانے چلانا نا ممکن ہوگیا ہے۔ اب یہ صنعتکار تو ملک سے باہر جا سکتے ہیں لیکن ہمارا مزدور کہاں جائے؟اس لئے نئی حکومت کو چاہئے کہ اپنی مشکلات پس پشت ڈال کرا بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی لے کر آئیں۔ چوری کو روکیں اور اپنی نااہلی کا ملبہ عوام پر نہ ڈالیں۔ آئی ایم ایف سے درخواست کرے کہ مزید بجلی اور گیس مہنگی کرنے پر زور نہ دے جبکہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے لیے ایک ماہ بہت ہے۔ اس سے زیادہ وقت اگر حکومت لیتی ہے تو پھر آئی ایم ایف سے کسی رحم کی توقع نہ رکھے۔کیوں کہ جو حکومت اپنے کرنے والے کام نہیں کر سکتی وہ حکومت نہیں مافیا ہے اورپاکستان کے عوام مزید مافیا کو برداشت کرنے کی قوت سے محروم ہوچکے ہیں۔ بجلی اور گیس کا مسئلہ آنے والے دنوں میں ایک عذاب سے کم نہیں ہوگا۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر اگر وقت پر کام مکمل کرلیا جاتا تو آج کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور مل رہا ہوتا، ایسے میں حکومت کو اب متبادل توانائی کے ذرائع اور دیگر طریقوں سے بجلی اور گیس کی دستیابی پر جلد از جلد کوئی حل دینا ہوگا۔ ساتھ ہی بجلی کے محکمے کنڈا سسٹم پر جو بھتہ خوری کرتے ہیں وہ بند ہوجانی چاہئے۔ 17/ ارب ڈالر کی سالانہ سبسڈی لینے والا مراعات یافتہ طبقہ بھی قوم پر رحم کرے اور حکمراں بھی اس طبقے کی چوکیداری کرنا بند کریں۔ نئی منتخب وفاقی حکومت نے جن مشکل معاشی حالات میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے، انہوں نے فی الواقع اس ذمہ داری کو کانٹوں بھرا بستر بنادیا ہے۔اس وقت حکومت کیلئے سب سے پہلا چیلنج آئی ایم ایف سے مزید قرض کا ایک اور معاہدہ کرنا ہے۔ اس کیلئے کیسے کیسے کوہ گراں عبور کرنا ہوں گے اس کا اندازہ عالمی مالیاتی ادارے کے اس مطالبے سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان مطالبات میں خوراک، دوا، پٹرولیم مصنوعات اور اسٹیشنری سمیت متعدد اشیاء پر 18فیصد جی ایس ٹی نافذ کرنے کو کہا گیا ہے، پانچویں شیڈول کے مکمل خاتمے کے علاوہ چھٹے شیڈول کے تحت پابندی سے چھوٹ اور کم شرحیں ختم کی جائیں۔ ماہرین کے مطابق اگرآئی ایم نے ان تمام تجاویز کو مان لیا تو گندم، چاول، دالیں، اسٹیشنری، پی او ایل مصنوعات اور کئی دیگر اشیاکی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی اور ملک کی بھاری اکثریت ناقابل برداشت مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت کے مالی وسائل بڑھانے کیلئے متبادل راہیں تلاش کی جائیں۔ یہ کام مشکل ہوسکتا ہے لیکن ناممکن نہیں۔بجلی چوری، گیس چوری اور ٹیکس چوری کا مکمل خاتمہ عوام پر مزید بوجھ ڈالے بغیر خطیر مالی وسائل کی فراہمی کا یقینی ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ نقصان میں چلنے والے تمام سرکاری اداروں کی مکمل یا جزوی نجکاری بھی جلداز جلد کرکے قومی خزانے کے وسائل بچائے جانے چاہئیں۔ ٹیکس ادائیگی کو آسان بنانے اور بیوروکریسی کے کرپٹ عناصر کی ملی بھگت کے ذریعے ٹیکس چوری روکنے کیلئے پورا نظام جلد ازجلد ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ڈیجیٹل کیا جانا چاہیے۔وسیع تر مشاورت کے ذریعے اس حوالے سے موثر حکمت عملی وضع کی جانی چاہیے تاکہ عوام کی زندگی کو مزید مشکل بنائے بغیر معاشی بہتری کی راہیں کشادہ ہوسکیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں