میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مریم نواز کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب بڑے چیلنجز درپیش ہیں!

مریم نواز کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب بڑے چیلنجز درپیش ہیں!

جرات ڈیسک
منگل, ۲۷ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پنجاب میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم صفدر کی قیادت میں صوبائی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے،مریم صفدر اگلے5 سال کے لیے پنجاب کی وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نامزد ہو چکی ہیں۔ اور اب تخت لاہور کی پہلی ملکہ عالیہ بن کر اپنی تاجپوشی کی تقریب میں شریک ہوں گی، مختلف حلقوں کی طرف سے انہیں پنجاب کی آئرن لیڈی کا خطاب بھی دیا جا رہا ہے اور ان توقعات کا اظہار بھی جاری ہے کہ یہ”کڑی پنجابن“ حکمرانی کے سفر میں برصغیر کی خواتین حکمرانوں کی فہرست میں ایک نئے تاریخی کردار کا اضافہ کرے گی۔ جھانسی کی رانی لکشمی بائی، راجستھان کی رانی پدماوتی، کرناٹک کی سلطانہ چاند بی بی، بھارت کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی، پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور بنگلہ دیش کی سابق اور موجودہ وزرا اعظم خالدہ ضیا اور حسینہ واجد ہمارے خطے کے وہ بڑے کردار ہیں جو برصغیر کی سیاست و حکومت میں خواتین کی بطور آئرن لیڈی افسانوی داستانوں کے امین ہیں، اتر پردیش کی سابق وزیراعلیٰ مایاوتی اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی بھی بلا شبہ اپنے اپنے صوبوں کی آئرن لیڈی کے طور پر اپنا لوہا منوا چکی ہیں اور منوا بھی رہی ہیں، سیاست کے کھیل میں ان خواتین آہن نے یہ تسلیم کروا لیا ہے کہ مشرقی خواتین صرف نرم و نازک تتلیاں نہیں بلکہ بوقت ضرورت چیلنج قبول کرتے ہوئے شہد کی مکھیاں بن کر بھی دکھا سکتی ہیں کہ جو نہ صرف شہد پیدا کرتی ہیں بلکہ کسی حملے کی صورت میں اپنے پروں کی طاقت سے پلٹنے جھپٹنے کے ساتھ ساتھ ڈنگ مارنے کی فطری صلاحیتوں سے بھی ”مسلح“ ہوتی ہیں۔ مریم صفدر کو اسی داستان کا اگلا باب قرار دیا جا رہا ہے، اگرچہ مریم صفدر کو چارسو سے ہر طرح کی مدد اور سپورٹ حاصل ہوگی لیکن اس کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے مریم کو کئی طرح کے بڑے چیلنج درپیش ہوں گے، اور یہ عہدہ ان کی فطری صلاحیتوں کا امتحان بھی ثابت ہوسکتاہے،انھیں یہ دکھانا ہوگا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی گورننس میں وہ کیا بہتری لاتی ہیں؟ اور عوام کی خدمت کی کونسی روایات رقم کر کے وہ تخت لاہور پر ”مریم راج“ کو ملک گیر سیاسی سفر کیلئے بطور ”لانچنگ پیڈ“ کے طورپر استعمال کرتی ہیں؟ یہ بات واضح ہے کہ وفاق سمیت 3 صوبوں میں مخلوط اتحادی حکومتیں قائم کرنے پر اتفاقِ رائے ہو جانے کے بعد پنجاب کی خاتون وزیراعلیٰ کو یہ ایڈوانٹیج حاصل ہو گا کہ وفاق میں ان کی اپنی جماعت کا وزیراعظم ہو گا جو ان کا چچا بھی ہے، دوسری طرف گھر میں نواز شریف کی صورت میں ایک چراغ سحری بھی موجود ہوگا۔ وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ کا طویل تجربے رکھنے والے والداور چچا کی صورت میں یہ جہاندیدہ اتالیق مریم صفدر کیلئے کسی بڑی نعمت سے کم نہیں ہوں گے،اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ن لیگ کے پاس پنجاب میں نہ صرف سیاسی حوالے سے انتہائی تجربہ کار ٹیم موجود ہے بلکہ انتظامی حوالے سے بھی بااعتماد بیوروکریٹس اور پولیس افسران کا ایک بڑا لشکر موجودہے، اس لیئے اگر یہ کہا جائے کہ مریم صفدر ہر طرح کے کیل کانٹے سے لیس ہو کر تخت لاہور پر بیٹھ رہی ہیں تو بیجا نہ ہو گا، بھاری بھرکم سیاسی و انتظامی طاقت و تجربہ مریم کا ایک ایسا اثاثہ ہو گاکہ پچھلے 75 برسوں کے دوران جس سے کوئی وزیر اعلیٰ پنجاب فیض یاب نہیں تھا، اس لیے یہ توقع بیجا نہیں کہ اپنے ثمرات اور اثرات کے حوالے سے تخت لاہور کی خاتون آہن وزیراعلیٰ ایک ایسی سیاسی و انتظامی اننگز کھیل سکتی ہیں جس کی ماضی میں کوئی مثال نہ ہو۔
مریم راج کو درپیش چیلنجز کی طویل فہرست پر نظر دوڑائیں تو انہیں سب سے پہلا چیلنج اپنے گھر سے ہی درپیش ہو گا کیونکہ بطور وزیراعلیٰ ان کی کارکردگی کا موازنہ پنجاب کی حالیہ تاریخ کے کامیاب وزرائے اعلیٰ سے کیا جائے گا، اور اس محاذ پر سب سے پہلا مقابلہ ان کے والد میاں محمد نواز شریف ہوں گے اور دوسرا ”حریف” چچا جان شہباز شریف‘ حمزہ شہباز کا بطور وزیراعلیٰ دورانیہ اگر چہ ”بچہ سقہ” ٹائپ رہا، لیکن وہ اپنے والد شہباز شریف کے وزیراعلیٰ پنجاب دور حکومت میں بیوروکریسی اور ن لیگی ایم پی ایز کے اجلاسوں کی صدارت ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ کے طور پر کیا کرتے تھے، اس لئے جب مریم صفدرکی حکومتی کارکردگی کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے گا تو چوہدری پرویز الٰہی واحد مثال ہوں گے جو مخالف کیمپ سے تعلق رکھتے ہیں باقی تینوں کردار یعنی نواز شریف، شہباز شریف اور حمزہ شہباز ان کے اپنے گھر سے ہیں۔ اگرچہ مریم صفدر مسلم لیگ کے بڑے بڑے جلسوں میں اپنے جلوے بکھیرتی اور شعلہ بیانی کے جادو جگاتی رہی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنی کوئی سیاسی پہچان قائم نہیں کرسکی ہیں اس لئے سیاسی حوالے سے بھی ان کو پنجاب میں بہت محنت کرنا ہو گی، اس سلسلے میں رول ماڈل خود ان کے اپنے گھر میں موجود ہے، صوبے کے عوام اور ضلعی و تحصیل سطح کے سیاسی گھرانوں کے دل میں کس طرح گھر کرنا ہے اور کس طرح ن لیگ کو ایک بار پھر گراس روٹ لیول کی سب سے پرجوش اور پرعزم سیاسی قوت بنانا ہے اس کی منصوبہ بندی یقینا ان کے ذہن میں ہوگی،اس لئے یہ امید کرنا غلط نہیں ہوگا کہ ان صلاحیتوں پر پنجاب کی اس پہلی ملکہ کو پورا عبور حاصل ہو گا،زندگی نے وفا کی اور قسمت نے یاوری کی تو تخت لاہور پر جلوہ افروز ہونے سے شروع ہونے والا جاتی امرا کی رانی کا یہ سفر تخت اسلام آباد کی منزل کے حصول میں ایک بڑا سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک طرف جہاں بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی نامزدگی کے ناقدین کااپنی کارکردگی سے منہ بند کرنااور اپنے انتخاب کو درست ثابت کرنا ان کی اولین کوشش ہونی چاہئے اور دوسری طرف انھیں پنجاب کی پارلیمانی تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ایک پارلیمانی تاریخ بنانے پر بھی توجہ دیناہوگی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ بطور وزیراعلیٰ پنجاب نامزدگی پر کچھ اختلافات پارٹی کے اندر سے بھی ابھرے ہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر شہباز شریف مرکز میں وزیراعظم بنتے تو مریم کو وزارت اعلی کے عہدے پر فائز نہیں کیاجانا چاہئے تھا۔ اس سے تاثر گہرا ہوتا ہے کہ عہدے اپنے ہی خاندان میں بانٹے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کو مریم کی بجائے کسی تجربہ کار اور پرانے سیاسی ورکر کو وزیراعلیٰ بنانا چاہیے تھا۔مریم کی حمایت میں کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے مشکل وقت میں پارٹی میں جان ڈالے رکھی، خصوصاً نوجوانوں کو متحرک کیا اور پھر جیل بھی کاٹی پھر ان کی شخصیت میں خود اعتمادی بھی ہے۔ گلیمر ہے وہ خوبصورت ہیں خوش لباس ہیں بولتی بھی اچھا ہیں ان کی شخصیت میں وہ چیز موجود ہے جو لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کرتی ہے لیکن یہ کوئی منفرد خوبی نہیں ہے مسلم لیگ ن میں ان خوبیوں کے حامل درجنوں ورکر اور رہنما موجود ہیں،مریم کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کرکے دراصل نواز شریف نے اس خیال کو تقویت بخشی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے کسی بھی فرد پرخواہ وہ پارٹی کیلئے کتنا ہی مخلص رہاہو اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔تاہم یہ بات طے ہے کہ نواز شریف کی بیٹی کی حیثیت سے جہاں انھیں متعدد فوائد حاصل ہوں گے وہیں ان کو اس کا نقصان یہ ہوگا کہ ایک تو وہ نواز شریف کی بیٹی ہونے کی وجہ سے حزب اختلاف ہی نہیں بلکہ خود پارٹی کے ایک حلقے کی تنقید کی زد میں رہیں گی اور دوسری وجہ اگر ان کی کارکردگی بہتر نہ ہوئی تو ان پر تنقید زیادہ ہوگی۔ بطور وزیراعلیٰ ان کی کارکردگی سخت قسم کی ا سکروٹنی کی زد میں رہے گی،اور انھیں مستقل ایک پریشر اور ایک دباؤکا سامنا رہے گا جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ ان کی کارکردگی بہتر ہوگی اور وہ پارٹی کی سطح سے اٹھ کر صرف لاہور کے لیے نہیں پورے پنجاب کے لیے پالیسیز بنا نے پر مجبور ہوں گی۔ پنجاب کبھی نون لیگ کا گڑھ ہوا کرتا تھا لیکن پی ٹی آئی نے نون لیگ کے ووٹ بینک کو درہم برہم کیا ہے۔ یہاں پر جس طرح نون لیگ کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان کے بڑے بڑے برج بھی پنجاب میں گرے ہیں، اس سے مریم نواز کے پیش نظر یہ بھی ہوگا کہ وہ نون لیگ کا ووٹ بینک بڑھائیں۔ شہباز شریف ایک دہائی تک پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی کرسی سنبھالے رہے ہیں۔انہوں نے کام بھی کیے اور اچھے منیجرکی شہرت بھی حاصل کی۔ لیکن ظاہر ہے کہ آئیڈیل کام نہیں ہوا بے۔ مسائل کے کوہ ہمالیہ موجود ہیں دیکھیں کہ مریم صفدر بطور وزیراعلیٰ کس طرح ان کو ہے ہمالیہ کو سر کرتی ہیں۔بطور وزیراعلیٰ پنجاب کے جہاں انھیں بہت سارے دوسرے چیلنجز کا سامنا ہوگا وہاں ایک چیلنج ان کے لیے یہ بھی ہوگا کہ اپنی شخصیت اور اپنے مزاج میں سیاسی حریفوں کے لیے تلخیوں کو کم کریں۔ اپنے الفاظ کو شائستہ بنانے پر توجہ دیں یہ نہیں کہ ڈھکے چھپے الفاظ میں سیاسی مخالفین پر طنز کے نشتر چلاتی رہیں۔ شہباز شریف نے 10 سال تک بطور وزیر اعلیٰ پنجاب حکمرانی کی لیکن مریم ذہن میں رکھیں کہ وہ دور اس دور سے مختلف تھا۔ اس وقت انہیں بڑی مزاحمت کا سامنا ہے اب میدان کھلا نہیں ہے۔ جبکہ شہباز شریف کے دور میں مرکز میں بھی ان کی حکومت تھی اس بار مرکز میں ایک مخلوط حکومت بنے گی تو معاملات وہاں بھی پوری طرح نون لیگ کے کنٹرول میں نہیں ہوں گے۔ ایسے میں ایک مشکل سیاسی فضا بنے گی۔ جس میں عوام کو ڈیلیور کر کے، اور سیاسی طور پر اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرکے ہی دل جیتے جا سکتے ہیں دوسرا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔مریم اپنے راج ” کو صوبے کی خواتین کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا بناسکتی ہیں اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں تویہ وہ خوشبو ہو گی جس کے ”جھونکے“ دوسرے صوبوں میں بھی پہنچیں گے اور پورے ملک کی خواتین کو مستقبل کے ملک گیر مریم راج کی طرف مائل کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں