میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عوام دوست بجٹ کی قیاس آرائیاں۔آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا !!

عوام دوست بجٹ کی قیاس آرائیاں۔آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا !!

ویب ڈیسک
منگل, ۱۶ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

اگلے سال کے بجٹ میں ٹیکسوں میں کمی کیے جانے کاامکان ہے،سگریٹ بھی سستی ہوجائے گی،ریونیو سے متعلق امور پر وزیر اعظم کے مشیرکا دعویٰ
نواز شریف کی حکومت ڈانواںڈول ہے، کسی بھی وقت اس کی رخصتی کابگل بج سکتاہے اور نئے انتخابات کی بساط بچھ سکتی ہے اس لیے ایسی کوشش ممکن ہے،ناقدین
ایچ اے نقوی
نئے بجٹ کے اعلان میں اب بمشکل 10 دن رہ گئے ہیں لیکن بجٹ کے بارے میں قیاس آرائیوں کاسلسلہ جاری ہے ، عام طورپر یہ خیال کیاجارہاہے کہ چونکہ نواز شریف کی حکومت ڈانواںڈول ہے اور کسی بھی وقت اس کی رخصتی کابگل بج سکتاہے اور نئے انتخابات کی بساط بچھ سکتی ہے اس لیے نئے سال کا بجٹ روایتی بجٹ کے برعکس نسبتا ً عوام دوست بنانے کی کوشش کی گئی ہوگی اور اس بجٹ کے نتیجے میں عوام کو بہت زیادہ زیر بار نہیں ہونا پڑے گا۔یہ بھی قیاس آرائیاں ہیں کہ اگلے سال کے بجٹ میں بعض ٹیکسوں کی شرح میں کمی کردی جائے گی جبکہ بعض اشیاپر سیلز ٹیکس کی شرح میں بھی کمی کیے جانے کی توقعات ظاہر کی جارہی ہیں ،ایک طرف یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں اور دوسری طرف ریونیو سے متعلق امور پر وزیر اعظم کے خصوصی معاون ہارون اختر خان نے ایک مقامی انگریزی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ حیرت انگیز انکشاف کیاہے کہ اگلے سال کے بجٹ میں سگریٹ پر ڈیوٹی اور ٹیکسوں میں کمی کیے جانے کاامکان ہے۔
ہارون اختر خان کایہ انکشاف حیرت انگیز اس اعتبار سے ہے کہ حکومت ہمیشہ سگریٹ اور اس جیسی دوسری اشیا پر بھاری ٹیکس عاید کرتی رہی ہے اور خاص طورپر سگریٹ پر ٹیکسوں میں اضافے کے بارے میں حکومت کاایک ہی مو¿قف ہے کہ چونکہ سگریٹ انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے اس لیے سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے اس پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس عاید کیاجانا ضروری ہے ،کیونکہ سگریٹ پر بھاری ٹیکسوں کے نتیجے میں اس کی قیمت میں اضافہ ہوگا اور عام آدمی سگریٹ نوشی ترک کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔گزشتہ سال بجٹ سے قبل نیشنل ہیلتھ سروسز سے متعلق امور کی وزیر سائرہ افضل تارڑ نے سگریٹ اور تمباکو کی دیگر اشیا پر عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگانے کے لیے باقاعدہ مہم چلائی تھی،سائرہ افضل تارڑ نے اس دور میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ سگریٹ پر وصول ہونے والے ٹیکس کے 2 فیصد مساوی رقم تمباکو کے استعمال سے پھیلنے والے امراض کے علاج کے لیے وزیر اعظم کے قومی صحت پروگرام کو فراہم کی جانی چاہیے۔سائرہ افضل کا استدلال تھا کہ سگریٹ اور تمباکو سے تیار ہونے والی اشیا پر ٹیکسوں میں اضافے سے قومی خزانے کی آمدنی میں کم وبیش 40 ارب روپے کااضافہ ممکن ہے ۔ان کا کہناتھا کہ تمباکو پر ٹیکسوں میں اضافہ قومی خزانے کی آمدنی میں اضافہ اور تمباکو نوشی کے استعمال میں کمی کا واحد ذریعہ ہے، ان کاکہناتھا کہ تمباکو پر ٹیکسوں میں اضافے سے سگریٹ نوشی میں کمی ہوگی جس سے سگریٹ نوشی کی وجہ سے پیداہونے والے امراض پر آنے والے اخراجات میں کمی ہوگی اور بھاری ٹیکسوں کے نتیجے میں حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔سائرہ افضل کی جانب سے چلائی جانے والی اس مہم کے نتیجے میں گزشتہ سال کے بجٹ میں سگریٹ پر ٹیکسوں میں اضافہ کردیاگیا لیکن اس اضافے کے بعد بھی حکومت کی آمدنی میں کوئی خاص اضافہ ممکن نہیںہوا۔
ریونیو سے متعلق امور پر وزیر اعظم کے خصوصی معاون ہارون اختر خان اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ سگریٹ کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ حکومت کے لیے ایک نیا چیلنج ہے اور غیر قانونی سگریٹ کی صنعت سے قومی خزانے کا سالانہ کم وبیش 40 ارب روپے کا نقصان ہورہاہے۔ان کاکہنا تھا کہ سگریٹ پر ٹیکسوں کے ذریعے حکومت کو ساڑھے 3 کھرب روپے کی آمدنی ہوتی ہے لیکن ٹیکس چوری کی شرح ٹیکس وصولی کی شرح سے کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے۔
ملک میں ٹیکس چوری کے رجحان کا ذکر کرتے ہارون اخترخان کاکہناتھا کہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ سالانہ 6 کروڑ روپے سے زیادہ کمانے والا ڈاکٹر اپنی آمدنی صرف 6 لاکھ ظاہر کرتاہے اور 35کروڑ سالانہ کمانے والے ہسپتال اپنی آمدنی صرف 35 لاکھ سالانہ ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے ٹیکس چوری کو ملک کی سب سے بڑی لعنت قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اگر ٹیکس چوری پر قابو پالیاجائے تو پاکستان کا شمار دنیا کے امیر ترین ملکوں میں ہونے لگے گا۔
ہارون اختر نے خیال ظاہر کیاہے کہ اگر ٹیکس چوری پر قابو پالیاجائے تواگلے سال کے بجٹ کو عوام کے لیے خوشنما بنانے کے لیے حکومت جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کرکے9فیصد بلکہ اس سے بھی کم کرسکتی ہے ۔اس کے ساتھ ہی انہوںنے دعویٰ کیا کہ اگر ٹیکس چور باز نہیں آئے تو حکومت ٹیکس چوروں کاجینا دوبھر کردے گی ۔حکومت ٹیکس نہ دینے والوں پروِد ہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ کردے گی تاکہ وہ ٹیکس نیٹ میں آجانے میں ہی عافیت سمجھنے پر مجبور ہوجائیں۔
ہارون اختر نے واضح طورپر یہ خیال ظاہر کیا کہ نئے سال کے بجٹ میں کسی طرح کاکوئی نیا ٹیکس لگانے کی کوئی تجویز نہیں ہے،تاہم حکومت اگلے عام انتخابات تک یعنی 2018 ءتک ٹیکس دینے والوں کی تعداد 15 لاکھ کرنا چاہتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے کوششیں اور اقدامات جاری ہیں۔انہوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ حکومت آف شور کمپنیوں کے مالکان کو اپنے اثاثے وطن لانے کی ترغیب دینے کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر بھی غور کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ آف شور کمپنیوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دینا کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ انڈونیشیا اور بھارت میں آف شور کمپنیوں کے مالکان کے لیے اس طرح کی اسکیموں کا اعلان کیاجاچکاہے۔ہارون اختر نے یہ بھی بتایا کی عدلیہ کے ججوں اور مسلح افواج کے ارکان کو ٹیکسوں میں چھوٹ کی سہولت حاصل رہے گی کیونکہ یہ لوگ ملک کے لیے بڑی قربانیاں دے رہے ہیں۔
پاکستان کی برآمدات میں مسلسل کمی کے حوالے سے ہارون اختر کاکہناتھا کہ برآمدات میں کمی بین الاقوامی سطح پر کساد بازاری کی وجہ سے ہوئی ہے اور یہ صورت حال صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ چین اور بھارت کی برآمدات میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔انہوں نے دعویٰ کیاکہ پوری دنیامیں کساد بازاری کے باوجود پاکستان نے اپنی کرنسی کی قیمت میں کمی نہیں کی ہے جو کہ موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسی کی نمایاں کامیابی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں