میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سندھ پولیس کا ادارہ یااندھیر نگری چوپٹ راج

سندھ پولیس کا ادارہ یااندھیر نگری چوپٹ راج

منتظم
بدھ, ۱۴ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

وحید ملک
کراچی پولیس کا تفتیش کرنے کا طریقہ انتہائی فرسودہ اور پرانا ہے اور جدید پولیسنگ کے دعویدار افسران کے لیے باعث تماشہ بھی ہے، آئی جی سندھ کی سیٹ پر موجود اے ڈی خواجہ بھی ان سے پہلے آنے والے افسران کی طرح سب اچھا ہے کا راگ الاپتے ہوئے اپنا ٹائم پیریڈ گذار رہے ہیں اور سندھ پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے لائحہ عمل تو بہت سارے بنائے گئے لیکن عمل درآمد کسی ایک پر بھی نہیں ہوا ، سندھ پولیس میں باقاعدہ طور پر آئی ٹی کا شعبہ موجود ہے اور اس کی سربراہی ایک خاتون افسر کے پاس سالوں رہی لیکن سندھ پولیس کی ویب سائٹ کا جو حال ہے وہ ویب سائٹ پر جاکر ملاحظہ کیا جاسکتا کہ وہاں کتنا ردوبدل کیا گیا؟ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ویب سائٹ مکمل طور پر تاحال اپ ڈیٹ نہیں کی گئی۔
اسی طرح سندھ پولیس کے افسران کی خوردبرد اور کرپشن کے حوالے سے متعدد کہانیاں بھی زبان زد عام ہیں لیکن تاحال کسی بڑے افسر کے خلاف کوئی قابل ذکر کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی ہے ۔صرف چند چھوٹے افسران پر ہی تلوار چلی ہے، سابق آئی جی سندھ سمیت متعدد افسران کے خلاف قومی احتساب بیورو بھی ماضی قریب میں کارروائیوں کا عندیہ دیتا رہا ہے لیکن نیب کی خاموشی بھی بڑے افسران کے خلاف بجائے کارروائی کرنے کے خطوط بازی میں ہی مصروف نظر آتی ہے۔ سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی، اے ڈی آئی جی فدا حسین سمیت متعدد افسران پر پولیس بھرتیوں کے حوالے سے سنگین قسم کی کرپشن کے الزامات موجود ہیں لیکن تاحال اس حوالے سے کسی قسم کی کارروائی ہونے کی مستقبل قریب میں کوئی امید نظر نہیں آتی، اس ضمن میں واقفان حال کا دعویٰ ہے کہ ان کیسز میں کارروائی نہ ہونے کی بڑی وجہ سیاسی وابستگی ہے۔ یاد رہے کہ آج سے چند سال قبل ایرانی پٹرول اور ڈیزل کی غیر قانونی ترسیل پر بھی سیاسی پشت پناہی پر ایک سابق ایس پی کو پولیس سروس میں نہ ہونے کے باوجوذمہ داری سونپی گئی تھی اور پولیس فورس میں نہ ہونے کے باوجود نہ صرف اسے پولیس گارڈ ملے ہوئے تھی بلکہ اسے پروٹوکول بھی ایس ایس پی کا دیا جاتا تھا،ایرانی تیل کی اسمگلنگ کا کام اب بھی جاری ہے لیکن اب وہ زوروشور نہیں ہے۔ اس ایرانی تیل کے ڈمپنگ اسٹیشن بلدیہ،سعیدآباد موچکو ، اتحاد ٹاو¿ن اور ملحقہ علاقوں میں موجود ہیں اور یہ کام باقاعدہ طور پر پولیس کی سرپرستی میں ہورہا ہے اور تمام اعلی افسران اس حوالے سے مکمل طور پر باخبر ہیںلیکن کچھ افسران کو تو باقاعدہ اس کی قیمت ملتی ہے لیکن چند افسران ایسے بھی ہیں جو کہ سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں