میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی( قسط نمبر30 )

پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی( قسط نمبر30 )

منتظم
پیر, ۳۱ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

برازیل کی حکمرا ں پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے آئل کارپوریشن اور کنسٹرکشن کمپنیوں کے ٹھیکوںسے کئی ارب ڈالر کمائے
موسفون کے ایک ملازم پر پولیس سے ڈاکومنٹس چھپانے اور بعد میں انھیں تلف کردینے کابھی الزام تھا‘ان کاغذات سے مبینہ طورپر یہ ظاہرہوجاتا کہ موسفون اپنے کلائنٹ کے صاف ستھرا ہونے کاکس قدر خیال کرتی تھی
تلخیص وترجمہ : ایچ اے نقوی
پاناما میں قائم کمپنیوں اور ان کے مالکان کے بارے میں ہمیں موزاک فونسیکا کے ڈاکومنٹس سے خاصی آگاہی ہوچکی تھی ،ہم اپناکام مکمل کرچکے تھے اوراب یہ اخبارات کاکام تھا کہ وہ اسے کس طرح شائع کرتے ہیں ۔اب ہمیں انتظار صرف اس بات کاتھا کہ اس کی اشاعت کے بعد پوری دنیا کے عوام اس پر کس طرح ردعمل ظاہرکرتے ہیںاور ہماری یہ کاوش کس حد عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوتی ہے، اپنا کام مکمل کرنے کے بعد اب ہم پاناما کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کیلیے پاناما کی جانب محو پرواز تھے ، ہمارا طیارہ پاناما شہر پر پہنچ چکا تھا ہمیں طیارے سے اس شہر کی بلند وبالا عمارتیں اور پاناما کینال پر کھڑے بحری جہاز صاف نظر آرہے تھے، یہ وہی شہر تھا جہاںوہ بظاہر معمولی نظر آنے والی عمارت بھی سر اٹھائے کھڑی تھی جس میںسیکڑوں ٹیکس چوروں کی قائم کردہ کمپنیوں کی دیکھ بھال کرنے بلکہ ان کمپنیوں کے قیام میں مدد دینے والی وکلا کی بدنام زمانہ فرم موزاک فونسیکا کا دفترقائم تھا۔ہمارا طیارہ رن وے پر اترچکاتھا ہم ایئر پورٹ سے باہر آئے ،ہماری شب وروز کی محنت سے تیار ہونے والی خبروں کی اشاعت اگلے چند ہفتوں کے اندر ہی شروع ہونےوالی تھی لیکن اس سے قبل ہم اپنی آنکھوں سے موسفون ،اس کے عملے اور ٹیکس چوروں یا ٹیکس گریز لوگوں کی آماجگاہ پاناما کو دیکھنا چاہتے تھے،اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ شیرکی کچھار میں پہنچنے والے تھے۔
چند ہفتے قبل ہی ایک خبر ہماری نظر سے گزری جس نے ہماری پوری ٹیم کوہیجان میں مبتلا کردیا،خبر یہ تھی کہ برازیل کی پولیس نے موسفون کے مختلف ملازمین کو ”آپریشن کار واش “ اسکینڈل میں ملوث ہونے کے شبے میں پوچھ گچھ کیلئے حراست میںلے لیاہے۔آپریشن کار واش کرپشن کااتنا بڑا اسکینڈل تھا جس نے پورے لاطینی امریکا کوہلاکررکھ دیاتھا۔اس حوالے سے الزام لگایاگیاتھا کہ برازیل کی حکمرا ں پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے جزوی طورپر حکومت کی آئل کارپوریشن پیٹروبراس اور کنسٹرکشن کمپنیوں کو زیادہ قیمت پر ٹھیکے دے کرکئی ارب ڈالر کمائے ہیں۔برازیل کے سابق صدر لولا ڈاسلوا بھی اس میں ملوث قرار دئے جارہے تھے۔ 2014 تک اس معاملے کی تحقیقات ٹھیک طرح سے جاری تھی لیکن اس کے بعد گھناﺅنے حربے اختیار کئے جانا شروع ہوگئے۔
ایک اطلاع یہ بھی ملی کہ موسفون کے ایک ملازم پر پولیس سے ڈاکومنٹس چھپانے اور بعد میں انھیں تلف کردینے کابھی الزام تھا۔ان کاغذات سے مبینہ طورپر یہ ظاہرہوجاتا کہ موسفون اپنے کلائنٹ کے صاف ستھرا ہونے کاکس قدر خیال کرتی تھی اور وہ خود کس حد تک صاف ستھراکاروبار کرتے ہیں۔اس خبر پر فوری ردعمل کااظہار کرتے ہوئے موزاک فونسیکا نے ایک پریس ریلیز جاری کیا جس میں اس بات پر زور دیاگیاتھا کہ موسفون کے دفاتر اعلیٰ ترین اقدار پر عمل پیرا ہیں اور بین الاقوامی قوانین و ضوابط کے مطابق کام کرتے ہیں۔ اس میں یہ بھی کہاگیاتھا کہ برازیل میں موزاک فونسیک ایک انڈیپنڈنٹ موزاک فونسیکا اینڈ کو پاناما کے نام سے کام کررہی ہے اور اس آپریشن کار واش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ خبر دیکھ کر اس تحقیقی رپورٹ کی تیاری میںشریک ہمارے برازیل کے ساتھی پریشان ہوگئے تھے ان کو خدشہ تھا کہ ان گرفتاریوں کے نتیجے میں موسفون کے برازیل کے دفتر کی تلاشی لی گئی تووہاں سے برآمد ہونے والی دستاویزات کی وجہ سے ان کی مہینوں کی محنت سے تیار کی گئی رپورٹیں بیکار ہوجائیں گی۔جب ہم میونخ میں طیارے پر سوار ہوئے تھے تو وہاں درجہ حرارت 5درجہ سینٹی گریڈ تھا اور اب جب ہم پاناما کے ایروپیوروٹو انٹرنیشنل ڈی ٹوکومین ایئر پورٹ پر اتر رہے تھے تووہاں درجہ حرارت 35 درجہ سینٹی گریڈ تھا جب کہ ہوا میں نمی کاتناسب 60فیصد تھا۔ موسم کا اتنابڑا فرق ہمیں پریشان کئے ہوئے تھا۔
ہمارے پراجیکٹ کے پارٹنر اخبار لاپرینسا نے پاناما میں ہمارے قیام کے دوران ہمارے لئے ایک ڈرائیور کاانتظام کردیاتھا ،ہم ایئرپورٹ سے باہر آکر کار میں بیٹھے اب ہمیں چاروں طرف بلند وبالا عمارتیں نظر آرہی تھیں،جبکہ جس عمارت میں فونسیکا کادفتر قائم تھا وہ کسی اور دور میں تعمیر کی گئی عمارت معلوم ہوتی تھی۔یہ صرف 3منزلہ عمارت تھی جو ایک بغلی گلی میں واقع تھی۔اب ہم رام سیس اوونز کی تلاش میںتھے۔ اس شخص نے 2010تک وکیل کی حیثیت سے موسفون کیلئے اوربطور خاص ایم ایف ٹرسٹ کیلئے کام کیاتھایہ موسفون کا وہ شعبہ تھاجو کلائنٹ سے براہ راست تعلق رکھتاتھا۔اوونز اب موسفون کے دفتر سے چند سو میٹرکے فاصلے پر اپنی فرم چلارہاتھا یہ فرم اس نے اپنے بچپن کے ایک دوست کی شراکت سے قائم کی تھی۔جب ہم نے اپنا تعارف کرایا تو وہ بڑے تپاک سے ملا اور ہمیں اپنے چیمبرز کادورہ کرایا اس دوران اس نے اپنے ذاتی شیف سے بھی ملوایا جو اس کے اور اس کے ساتھیوں کیلئے کھانا تیارکرتاتھا۔ اس نے اپنے ادارے کے اعلیٰ معیار کے بارے میں بتانا شروع کیا پھر ہمیں مختلف اخبارات اور جرائد دکھائے جن میں اس کی تعریف میں مضامین اور خبریں شائع ہوئی تھیں۔ہمیں انداہ ہوگیاکہ اوونز شہرت چاہتاہے،وہ ہمیں فوری ہی انٹرویو دینے پر تیار ہوگیا اور اس نے انٹرویو کی فلم بندی کی بھی اجازت دیدی اس کادعویٰ تھا کہ اس کے پا س چھپانے کو کچھ نہیں ہے اور اس کے خیال میں صحافیوں سے قریبی روابط رکھنا اس کے پیشے کیلئے بڑی اہمیت رکھتاہے۔ایک امریکی جریدے میں دسمبر 2014 میں اس کے اور موسفون کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹوں سے اس کی ساکھ کو زبردست دھچکا لگاتھا ۔اوونز کااصرار تھا کہ یہ یہودی ری پبلکن کی من گھڑت رپورٹیں تھیں، اس کااصرار تھاکہ جریدے نے ہمارے بارے میں پھیلی ہوئی قیاس آرائیوں کی بنیاد پر رپورٹ تیار کرلی تھی جبکہ ہم جانتے تھے کہ حقیقت کیا ہے کیونکہ ہم جلد ہی اس بارے میں ثبوت فرہم کرنا شروع کرنے والے تھے جس کو یہ قیاس آرائیاںقرار دے رہاتھا۔ہمیں حیرت اس بات پر ہوئی کہ وہ اس کو سی آئی اے اور فری میسن کی سازش قرار دے رہاتھا۔یہ ہمارا پاناما میں آخری دن تھا وہاں سے نکل کر ہم دوبارہ ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہ وہی ایئر پورٹ ہے جس کے ایک لاﺅنج میں موزاک فونسیکا کے لوگ اپنے کلائنٹس سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ہم نے ایئرپورٹ پہنچ کر آخری نظر پاناما پر ڈالی کیونکہ اب ہمیں دوبارہ یہاں آنے کاکوئی ارادہ نہیں تھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں