میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نااہلیت کا معمہ اور سپریم کورٹ کے بوجھنے کی صلاحیت

نااہلیت کا معمہ اور سپریم کورٹ کے بوجھنے کی صلاحیت

جرات ڈیسک
بدھ, ۱۰ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس میں ایک ہی پہیلی کا دوسرا جواب بوجھتے ہوئے پیر کے روز اپنا فیصلہ سنا دیا۔ مقدمہ سادہ الفاظ میں یہ تھا کہ کیا آرٹیکل 62 ون (ایف) کے تحت نااہلی کی مدت تاحیات ہے یا نہیں؟ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کا محفوظ فیصلہ سنایا جو براہ راست نشر کیا گیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سیاستدانوں کی نااہلی تاحیات نہیں ہوگی اور آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت سیاستدانوں کی نااہلی کی مدت 5 سال ہوگی۔سپریم کورٹ نے سمیع اللہ بلوچ کیس کا اپنا ہی فیصلہ ختم کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون (ایف) کو اکیلا نہیں پڑھا جاسکتا۔فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے پاس آئین کے آرٹیکل 184 (3)میں کسی کی نااہلی کا اختیار نہیں۔اس فیصلے کے نقد نتیجے کے طور پر محمدنوازشریف اور جہانگیر ترین کی تاحیات نا اہلی بھی ختم ہوگئی۔ جن کے کاغذات نامزدگی اس فیصلے کے سنائے جانے سے قبل ہی ریٹرننگ افسران نے بلا کسی ہچکچاہٹ اور تردد کے (تاحیات نااہلی کے کیس میں فیصلہ آنے کا انتظار کیے بغیر) قبول کر لیے تھے۔گویا اُنہیں یہ یقین تھا کہ یہ نااہلی ختم ہو جائے گی۔ یہ اس کے باوجود ہوا تھا کہ اسی سپریم کورٹ کی جانب سے تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کے واضح حکم کے باوجود ”آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہو“ ایسے بہانوں سے تحریک انصاف کے امیدواران کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے تھے۔ جبکہ سپریم کورٹ نے جب یہ فیصلہ سنایا تو اُس وقت تک یہ نااہلی برقرار تھی اور کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی ہی نہیں اعتراض جمع کرانے کی مدت بھی ختم ہو گئی تھی۔ گویا اگر یہ کاغذات تاحیات نااہلی کے اس وقت تک لاگو فیصلے پر مسترد ہو جاتے تو اس کا کوئی امکان نہیں تھا کہ شکوک میں گھرے حالیہ انتخابات میں نوازشریف اور جہانگیر ترین انتخابا ت میں بھی حصہ لے سکتے مگر ”کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے“۔ چنانچہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل ہی ان امیدواروں کے کاغذات بلاتردد قبول کر لیے گئے۔ اگر چہ اس فیصلے سے جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلاف کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں بچ جانے والی زندگی کے کچھ آثار کی خبر دی ہے۔ اُنہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ برقرار رہنا چاہیے، سمیع اللہ بلوچ کیس کا تاحیات نااہلی کا فیصلہ قانونی ہے اور نااہلی تب تک برقرار رہے گی جب تک ڈکلیئریشن موجود رہے گی۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کا 7 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا ہے۔
عدالت ِ عظمیٰ کے تاحیات نااہلی کیس کے فیصلے کے تکنیکی پہلوؤں کو ایک طرف رکھ دیں جس میں سمیع اللہ بلوچ کیس کے فیصلے کی نوعیت اور آرٹیکل 62 ون (ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کی بحث شامل ہے یا پھر اس آرٹیکل کے تحت نااہلی کے طریقہئ کار کی موجودگی یا عدم موجودگی کا وہ قانونی فہم شامل ہے جو دیگر عدالتی فیصلوں اور آئینی شقوں کے ساتھ زیر بحث آکر کسی فیصلے کی بنیاد بنتا ہے۔ درحقیقت سپریم کورٹ کے لیے اصل مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ اُس کے فیصلوں کو کتنی مدت تک قابل اعتبار سمجھا جائے اور اُس کے ایک وقت کے فیصلے اور بعد کے فیصلوں کے درمیان جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اُس کو کہاں رکھا جائے؟ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے پہلا مسئلہ تو خود اسی فیصلے کے حوالے سے یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حتمی بھی ہے یا نہیں؟ یعنی کسی اور موقع پر اسی فیصلے کو سمیع اللہ بلوچ کے فیصلے کی طرح ہی اُٹھا کر باہر پھینک دیا جائے گا یا نہیں؟ کیونکہ عدالت عظمیٰ میں کسی اور عدالت کے نہیں خود اپنے ہی فیصلوں کو ”مسترد“ کرنے کی ایک ”مہم جوئی“ نظر آتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کیس کو بھی اسی شمار میں ابھی سے لے لیں۔ اس اعتبار سے عدالت ِعظمیٰ کے تاحیات نااہلی کیس پر فیصلے کو ”تازہ ترین“اور”اب تک کا“ فیصلہ سمجھنا چاہئے یعنی یہ آخری اطلاعات تک آنے والا فیصلہ ہے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو اس طرح لینے سے دوسرا بڑا مسئلہ اُس کی ساکھ کا پیدا ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی پوری تاریخ میں عدالتِ عظمیٰ پر عدم اطمینان کا ایسا ماحول پیدا نہیں ہوا جیسا ان دنوں دکھائی دیتا ہے۔ مارشل لاء ادوار سے لے کر پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والے ججوں تک اور جسٹس منیر سے لے کر جسٹس ثاقب نثار تک سب کی عدالتوں پر ایک طرح سے بے اطمینانی پیدا ہوئی، اختلافات سامنے آئے، مگر موجودہ عدالت عظمیٰ پر جس طرح کی تنقید سامنے آرہی ہے یہ بے مثال ہے۔ ہمارے نزدیک اس مسئلے کا فوری تدراک ضروری ہے۔ یہ پہلو پاکستان کے پورے نظام کے حوالے سے شدید بے چینی پیدا کرنے والا ہے۔ حالیہ دنوں میں نوازشریف کی لندن سے واپسی کے بعد جس طرح مختلف سطح کی عدالتیں ایک انداز اور رفتار کے ساتھ بروئے کار آئی ہیں، وہ پورے نظامِ انصاف کو متعصبانہ اور جانب دارانہ بحث کی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ یہاں تک کہ تاحیات نااہلی کیس کے زیر بحث فیصلے کے حوالے سے بھی یہ اب کوئی راز نہیں ہے کہ اس فیصلے کے متعلق پہلے سے ہی متوازی ذرائع ابلاغ میں تکرار کے ساتھ یہ کہا جاتا رہا کہ فیصلہ کیا آئے گا۔ سیاست میں تو یہ بات عیب دار ہونے کے باوجود چل جاتی ہے کہ ”ہماری با ت ہو گئی ہے“۔ مگر نظام انصاف کے متعلق ایسا تاثر غلط بھی پیدا ہو جائے تو یہ خطرناک ہے۔
سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے متعلق سماعتوں کے آغاز پر ہی ایک مہلک تاثر محترم چیف جسٹس کے ا ہم ریمارکس سے پیدا ہو گیا کہ ”توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، تاحیات نااہلی کا فیصلہ اسلامی اصولوں کے خلاف ہے“۔ یہ ریمارکس بظاہر انتہائی پرکشش لگتے ہیں۔ مگر اپنی مرضی کے فیصلوں کے لیے ”مذہب“ کے اُسی استعمال کے مطابق ہے جس میں آرٹیکل 62 ون (ایف) کے اخلاقی تقاضوں سے نکلنے کی محترم ججز نے ”مہم جویانہ“ جدوجہد کی ہے۔ اس کے علاوہ ان ریمارکس کو دیتے ہوئے ”توبہ“ اور انسان کے سطح شعور دونوں سے عدم واقفیت کا ثبوت بھی دیا گیا ہے۔ درحقیقت انسانی جرائم کی سزا کو توبہ کے دُہرے تقابل (binary comparison) میں نہیں لایا جا سکتا۔ کیونکہ توبہ کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جبکہ انسانی جرائم کا فیصلہ ججز اسلام کی روشنی میں نہیں بلکہ آئین اور قانون کی روشنی میں کرتے ہیں۔ توبہ اور انسانی جرائم کی نوعیت مختلف ہے۔ توبہ میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ انسان کی نیت کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ مگر ججز کتنے ہی ذہین ہو وہ انسان کی نیت دیکھنے پر قادر نہیں۔ لہذا وہ جرم کی معافی یا سزا کی نوعیت ومدت کے تعین میں توبہ کو دلیل نہیں بنا سکتے۔ مگر افسوس ناک طور پر اس مقدمے کی ابتدائی سماعت میں ہی مذکورہ ریمارکس نے پورے عدالتی بیانئے کو اپنی تحویل میں لے لیا مگر اس تقابلی مطالعے کی بنیاد کو سمجھنے کی کوشش کسی بھی سطح پر نہیں ہوئی۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ”تاریخی“ کہا جاسکتا ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر اس فیصلے کے پاکستان کے موجودہ سیاسی منظرنامے پر کچھ اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف اور استحکام پاکستان کے رہنما جہانگیر ترین کے لیے انتخابی سیاست میں واپسی کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ یہ دونوں پاکستانی سیاست کے عجیب و غریب کردار بن کر حالیہ انتخاب میں سامنے آئے ہیں۔ نوازشریف کے متعلق کچھ ججز کی طرح یہ تاثر موجود تھا کہ وہ ”ووٹ کو عزت دو“ کے بیانئے کے ساتھ ”سویلین بالادستی“ کے قائل ہیں۔ اس کے برعکس نوازشریف صاحب ”اوپر بات ہوگئی ہے“ کی چھوی لے کر لندن سے پاکستان لوٹے ہیں۔ یعنی جن انتخابات پر تاحال شکوک کے سائے ہیں، وہاں یہ بات ہر شک سے بالا ہے کہ ان انتخابات کے بعد وزیراعظم یا حکومت کے کسی بھی اعلیٰ منصب پر وہی فائز ہو ں گے۔ جہاں تک جہانگیر ترین کا تعلق ہے تو ابھی زیادہ دن نہیں گزرے اُنہیں اے ٹی ایم مشین کے ساتھ مختلف پروپیگنڈے کی زد پر رکھا جاتا تھا۔ مگر اب وہ نئے بندوبست میں نون لیگ کے حلیف ہیں اس لیے کہیں کسی قسم کی”الزام باری“ کا کوئی سایہ بھی اُن پر نہیں پڑنے دیا جا رہا ہے۔ یہی حال ملک کے تمام صوبوں کی ان چھوٹی بڑی جماعتوں کا ہے جو پہلے سے ہی نون لیگ کی اتحادی حکومت کے حلیف کے طور پر بروئے کار ہیں۔
اس پورے پس منظر میں عدالتی فیصلے کے حوالے سے جن شکوک کو ظاہر کیا جارہا ہے وہ غلط ہونے کے باوجود قابل توجہ اس لیے ہیں کہ وہ موجودہ سیاسی منظرنامے کے فیصلوں کے عین مطابق ظاہر ہوا ہے۔ نیز اس کے پس منظر میں ”جرائم“ کے خلاف معاشرتی، سرکاری، اجتماعی
اور عدالتی ذمہ داری کے بجائے، مجرم کے حقوق کی بحث منسلک ہے۔ جس سے یہ بات تو صاف ہو گئی کہ انصاف کی اصولی بنیاد پاکستان میں کم ازکم مفقود ہے، یہاں فیصلے کیسے ہوں گے، ا س کا تعلق اس سے ہے کہ جج کیسے ہیں؟ جج بدلنے سے فیصلے بدل جاتے ہیں۔ انصاف اگر کوئی حقیقی چیز ہے تو اس کی اُصولی اور ہمہ گیر بنیادہونی چاہئے۔ یہ مختلف ماہ وسال میں الگ الگ اور متضاد وضاحتوں کے ساتھ ناقابل اعتبار ماحول میں اجاگر نہیں ہو سکتا۔ یہاں تو انصاف ایک پہیلی لگتا ہے جو ہر دور میں الگ الگ لوگ الگ الگ جواب سے بوجھتے نظر آ رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں