میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
چھوٹا سا شمالی کوریا امریکا کے لیے درد سر بن گیا

چھوٹا سا شمالی کوریا امریکا کے لیے درد سر بن گیا

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۶ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان کشیدگی انتہاپر، بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے کامیاب تجربے سے امریکا کے پورے فوجی نظام ہل گیا
امریکا بین البراعظمی میزائلوں کی فضا میں تباہی کے نظام پر سینکڑوں ارب ڈالر کھپانے کے باوجود سو فی صدکامیاب ایٹمی میزائل شکن نظام تیار نہ کرسکا
ایچ اے نقوی
امریکاکے بار بار کے انتباہ اور ہولناک دھمکیوں کے باوجود شمالی کوریا کی جانب سے میزائل اور ایٹمی تجربات کا تسلسل جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق سابقہ چند تجربات ناکامی کا شکار ضرور ہوئے لیکن اس کے بعد شمالی کوریا نے اپنی ان خامیوں پر فوری طورپر کنٹرول کرلیااور بعد میں شمالی کوریا نے جو میزائل تجربات کیے وہ ٹھیک ٹھیک نشانے پر لگے اور اس طرح شمالی کوریا نے یہ ثابت کردیا کہ وہ امریکا سمیت کسی بھی دشمن کے دانت کھٹے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے کہ جس نے امریکا کو پریشان کردیاہے اور امریکی رہنما شمالی کوریاکو دبانے کے لیے مختلف ذرائع تلاش کررہے ہیں۔اس صورت حال سے ظاہر ہوتاہے کہ امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان کئی عشروں سے جاری کشیدگی اب اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔یوں تو امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا سلسلہ کئی برس سے جاری تھا۔ اس دوران گاہے بگاہے شمالی کوریا میزائل اور اٹیمی تجربات بھی کرتا رہا لیکن گزشتہ دنوں کم جونگ اْن کی سربراہی میں شمالی کوریا نے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا جوکام یاب تجربہ کیا،اس نے پوری امریکی انتظامیہ ہی کو نہیں بلکہ امریکا کے پورے فوجی نظام کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔شمالی کوریا کے اس تجربے کے بعدان دونوں ممالک کے مابین کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے اور اب پختہ ارادے کے ساتھ جواب دینے کا وقت آگیا ہے۔ اس نوع کے بیانات ماضی میں بھی امریکی حکمرانوں اور فوج کے کمانڈروں کی جانب سے دیے جاتے رہے ہیں مگر عملی طور پر شمالی کوریا کے خلاف کوئی عسکری کارروائی ہنوز عمل میں نہیں لائی گئی۔
شمالی کوریا کا پڑوسی جنوبی کوریا ، امریکا کااتحادی ہے۔ اسے اس سپرپاور کی بھرپور مالی اور عسکری معاونت حاصل رہی ہے۔ شمالی کوریا کے میزائلوں سے بچانے کے لیے امریکا جنوبی کوریا کی درخواست پر وہاں میزائل شکن نظام ’’ تھاڈ ‘‘ (THAAD ) نصب کرنے کے لیے تیار تھا مگر عوامی احتجاج کے بعد جنوبی کوریا نے اپنی درخواست واپس لے لی۔ شمالی امریکا کے پاس مختلف فاصلوں تک مار کرنے والے میزائل موجود ہیںاور اب اس نے بین البراعظمی میزائل کا کامیاب تجربہ کرلیا ہے جو امریکی ریاست الاسکا تک مار کرسکتا ہے۔ یہ میزائل ایٹمی وارہیڈز لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
امریکا کے پاس ’’ تھاڈ‘‘ کی صورت میں حملہ آور میزائلوں کو دور ہی سے نشانا بنانے والا دفاعی نظام موجود ہے مگر شمالی کوریا کے میزائل تجربات کے بعد دفاعی امور کے ماہرین کی جانب سے سوالات اٹھائے جانے کا سلسلہ زور پکڑ گیا ہے کہ کیا امریکا بین البراعظمی ایٹمی میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ تین دہائیوں کے دوران امریکا نے بین البراعظمی میزائلوں کو فضا میں تباہ کردینے والے نظام کی تیاری پر سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کرڈالے۔ اس کے باوجود پینٹاگون اور اس کی ٹھیکیدار کمپنیاں سو فی صد نتائج دینے والا ایٹمی میزائل شکن نظام تیار نہیں کرسکے۔ الاسکا اور کیلی فورنیا میں ایک اینٹی نیوکلیئر میزائل سسٹم کے پانچ تجربات کیے گئے تھے۔ ان میں سے تین ناکام رہے تھے۔ ان تجربات کی ناکامی کا اعتراف اعلیٰ عسکری حکام بھی کرچکے ہیں۔ جو دو تجربات کامیاب کہلائے گئے ان کی کام یابی بھی مشکوک تھی۔
کیلی فورنیا میں قائم جوہری عدم پھیلاؤ کے مطالعے کے مرکز ( جیمز مارٹن سینٹر فار نان پرولیفریشن اسٹڈیز) میں ایسٹ ایشیا نان پرولیفریشن پروگرام کے ڈائریکٹر جیفری لیوس کہتے ہیں کہ اگر شمالی کوریا اور امریکا اپنے اپنے تمام میزائل ایک دوسرے کی جانب فائر کریں تو امریکی سرزمین پر گرنے والے میزائلوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔ اس بیان سے اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ دشمن میزائلوں کے آگے امریکی دفاع کتنا بے بس ہے۔
پینٹاگون کی جانب سے شمالی کوریا کے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے توڑ کے طور پر مڈکورس ڈیفنس سسٹم کو پیش کیا جارہا ہے۔ بوئنگ اور کئی دوسری کمپنیوں کا مشترکہ طور پر تیارکردہ یہ زمینی نظام فضا میں پْرشور آواز کے ساتھ سفر کرنے والے میزائل کو تباہ کردینے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر سابق اعلیٰ فوجی اہل کار اور عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ اچانک یا شارٹ نوٹس پر کیے گئے بین البراعظمی میزائل کے حملے کی صورت میں بچاؤ کے امکانات محدودتر ہوں گے۔ گذشتہ ماہ پینٹاگون کے میزائل ڈیفنس پروگرام کے انچارج وائس ایڈمرل جیمز سرنج نے بھی کانگریس کو بتایاکہ انھیں اس سسٹم پر تحفظات ہیں۔
پینٹاگون کے مطابق1985 سے لے کر اب تک کانگریس میزائل ڈیفنس پروگراموں کے لیے189.7 ارب ڈالر فراہم کرچکی ہے۔ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں وجود پانے والے کچھ پروگرام ضرورکامیاب ثابت ہوئے ہیں جیسے پیٹریاٹ میزائل سسٹم امریکا اور اس کے اتحادی ممالک میں استعمال ہورہا ہے۔ پیٹریاٹ کے علاوہ بھی خشکی اور پانی میں کام کرنے والے درمیانی فاصلے کے میزائلوں کو نشانا بنانے کی صلاحیت کے حامل اینٹی میزائل سسٹم کام یاب ثابت ہوئے ہیں تاہم بین البراعظمی بیلسٹک میزائل، اور خلا سے آنے والے انتہائی تیزرفتار میزائل کو نشانا بنانے کے لیے کوئی قابل بھروسا نظام ہنوز تشکیل نہیں دیا جاسکا ہے۔
اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے پینٹاگون کے سابق چیف ویپن ٹیسٹر فل کوئلی نے ایک جریدے سے بات چیت میں کہا،’’ اس ناکامی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ مشکل ترین کام ہے جو پینٹاگون نے کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں کم فاصلے اوردرمیانہ درجے کے میزائل شکن نظام میں زیادہ کام یابی ملی ہے مگر یہ میزائل سست رفتار ہوتے ہیں۔ اگر ایک میزائل 15 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آرہا ہے تو اسے نشانا بنانے کے لیے انتہائی مختصر وقت ملے گا۔ بدقسمتی سے اس میں ہمیں اب تک کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ اس میزائل شکن نظام کے پانچ تجربات کیے گئے جن میں سے3 ناکام رہے او رامریکا کا دعویٰ ہے کہ 2 میں بھی اس کی کام یابی کی شرح محض 40 فی صد رہی جو نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ غیر جانبدار فوجی ماہرین نے اگلے دو تجربات کو مکمل طورپر کامیاب قرار دیاہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بلندیوں کو چْھورہی ہے تاہم شمالی کوریا پر امریکی حملے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔ امریکی صدر اور اعلیٰ عسکری حکام کی جانب سے ’ بدمعاش ریاست‘ کو سبق سکھانے کی باتیں ہورہی ہیں مگر یہ خالی خولی دھمکیاں ہیں۔ شمالی کوریا کے پاس بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کی صورت میں تباہ کْن ہتھیار موجود ہے جس کا امریکاکے پاس کوئی توڑ نہیںچنانچہ برتر ہونے کے باوجود امریکا کی جانب سے شمالی کوریا کے خلاف کسی عسکری کارروائی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں