میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
باادب،باملاحظہ ،ہوشیار۔۔۔!وائٹ ہاؤس نئے صدر کی آمد کا منتظر

باادب،باملاحظہ ،ہوشیار۔۔۔!وائٹ ہاؤس نئے صدر کی آمد کا منتظر

منتظم
جمعرات, ۱۹ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

20جنوری کوصبح ٹھیک 12بجے تک وائٹ ہاﺅس اوباما کا ہوگا ، ایک منٹ پہلے تک بھی نئے صدر داخل نہیں ہوسکتے،پہلا کھانا باورچی کی مرضی کا ہوگا
میلانیا ٹرمپ ایک گلیمر روم بنانا چاہتی ہیں جو ان کے میک اپ اور سجنے سنورنے کے لیے مخصوص ہوگا، ان کے میک اپ میں سوا گھنٹے کا وقت لگتا ہے
واشنگٹن میں 20 جنوری کو جب صبح ہوگی تو صدر اوباما وائٹ ہاﺅس کے پلنگ پر آنکھیں کھولیں گے لیکن جب رات ہوگی تو وہاں پر اوباما نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ سوئیں گے۔دن کے ٹھیک12بجے تک وائٹ ہاﺅس اوباما کا ہوگا اور روایت کے مطابق اس کے ایک منٹ پہلے تک بھی نئے صدر اس میں داخل نہیں ہوسکتے۔برسوں سے چلی آ نے والی روایات کے مطابق اقتدار کی منتقلی کے لیے وائٹ ہاﺅس کے ملازمین کے پاس صرف6 گھنٹے کا وقت ہوتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق صبح کے ساڑھے 10بجے کے آس پاس جب ڈونلڈ ٹرمپ اپنی افتتاحی تقریر کے لیے تیار ہو رہے ہوں گے تو اس وقت2 بڑے ٹرک وائٹ ہاﺅس کے اندر آئیں گے اور الٹی طرف منہ کرکے کھڑے ہو جائیں گے۔100سے زائد ملازمین برق رفتاری کے ساتھ ایک ٹرک میں صدر اوباما کا بندھا ہوا سامان لوڈ کرنا شروع کریں گے جبکہ دوسرے ٹرک سے ڈونلڈ ٹرمپ کا سامان اتارا جانے لگے گا۔ وائٹ ہاﺅس کی انتظامیہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات کے مطابق فوجی چابکدستی کی مانند یہ دونوں کام ایک ساتھ ہی انجام دیے جاتے ہیں۔اسی دوران دیواروں کی پینٹنگ ہو جاتی ہے، نئے قالین بچھ جاتے ہیں، شیشوں کی صفائی ہو جاتی ہے اور شام ہوتے ہوتے 132 کمروں پر مشتمل وائٹ ہاو¿س نئے صدر اور ان کے خاندان کے استقبال کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
اس حوالے سے خاص بات یہ کہ جب تک نئے صدر وائٹ ہاو¿س میں داخل نہیں ہو جاتے اس وقت تک تمام ذمہ داریاں ان کی اپنی ہوتی ہیں۔براک اوباما جب 2009 میں شکاگو سے واشنگٹن آئے تھے تو اپنا پورا سامان انھیں اپنے خرچ پر لانا پڑا تھا۔ اور جب ایک بار ان کا سامان وائٹ ہاﺅس کے اسٹاف کے سپرد ہو جاتا ہے تو پھر اسے کیسے کھولنا ہے، کہاں رکھنا ہے یہ سب ملازمین کی ذمہ داری ہو جاتی ہے۔عام طور سے تمام صدور یا پھر ان کی اہلیہ وائٹ ہاﺅس کے اندر کی سجاوٹ میں اپنے حساب سے کچھ رد و بدل کرتی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اپنی بیوی میلانیا ٹرمپ کے ساتھ چمک دمک والے اپنے پینٹ ہاو¿س میں سنہرے پلیٹ والی چارپائیوں، مہنگے جھاڑ فانوس اور مہنگی سے مہنگی سنگتراشی سے سجے ہوئے مکان میں رہنے کے عادی ہیں۔لیکن انھوں نے کہا ہے کہ وہ وائٹ ہاﺅس کی سجاوٹ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کرنے جا رہے۔ ویسے بھی نئے صدر اندر داخل ہونے کے بعد ہی اپنی مرضی کی مناسبت سے کوئی رد و بدل کروا سکتے ہیں۔
نیویارک میگزین کے مطابق میلانیا ٹرمپ ایک گلیمر روم بنانا چاہتی ہیں جو ان کے میک اپ اور سجنے سنورنے کے لیے مخصوص ہوگا۔میگزین کے مطابق ان کے میک اپ میں سوا گھنٹے کا وقت لگتا ہے اور اس کمرے کی روشنی اور باقی سجاوٹ پر خاصی توجہ دی جائے گی۔
عام طور پر بڑی تاریخی اہمیت کی حامل چیزوں میں تبدیلی نہیں کی جاتی ہے لیکن ماضی میں سابق صدور نے اپنی مرضی کی مناسبت سے چھوٹی موٹی تبدیلیاں کروائی ہیں ۔صدر اوباما نے ایک ٹینس کورٹ کو باسکٹ بال کورٹ میں تبدیل کروایا تھا، فورڈ نے ایک بیرونی سوئمنگ پول بنوایا تھا تو کلنٹن نے7 یا 8 نشستوں والا ایک ہاٹ ٹب بنوایا تھا۔
20 جنوری کو شام گئے جب ٹرمپ اپنی تقریر، پھر پریڈ اور ”انوگرل بال “کہلائی جانے والی تقریب سے واپس آئیں گے تب تک ہلکا پھلکاکھانا بھی تیار ہو چکا ہو گا جو وائٹ ہاﺅس کے باورچی کی پسند کا ہو گا۔لیکن اگلی صبح سے پسند اور ناپسند صرف ایک ہی آدمی کی ہو گی اور وہ ہوں گے ڈونلڈ ٹرمپ۔
امریکا کے سبکدوش ہونے والے صدر بارک اوباما نے وائٹ ہاﺅس کو خیرباد کہنے سے پہلے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نصیحت کی ہے کہ وہ وائٹ ہاو¿س کو اپنے خاندانی کاروبار کی طرز پر چلانے کو کوشش نہ کریں۔امریکی ذرائع ابلاغ اے بی سی نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں بارک اوباما نے کہا کہ ٹرمپ کو امریکی اداروں کا احترام کرنا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ حلف لینے کے بعد آپ زمین کی سب سے بڑی تنظیم کے سربراہ ہوں گے۔اوباما نے خبردار کیا کہ ملک چلانے اور مہم چلانے میں فرق ہوتا ہے۔اوباما نے کہا کہ ٹرمپ جو کچھ کہیں گے، عالمی بازارِ حصص، مالیاتی بازار اور دنیا بھر میں لوگ ا±سے سنجیدہ لیں گے۔
یاد رہے کہ نومبر2016 کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہے ہیں۔
اب دیکھنایہ ہے کہ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارک اوباما کی ان نصیحتوں کو درخور اعتنا بھی سمجھتے ہیں یا نہیں؟ تاہم اگر انھوںنے بارک اوباما کی جانب سے کی گئی نصیحتوں پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا تو اس کا نقصان نہ صرف انھیں خود ، امریکی شہریوں کو بلکہ بحیثیت مجموعی پوری دنیا کو اٹھانا پڑ سکتاہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک زیرک تاجر ہیں اور وہ نفع نقصان کا حساب کرنے اور حساب بے باق کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، وہ کوئی بیوقوف شخص نہیں جیسا کہ بعض ٹی وی چینلز پر تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بیوقوف انسان امریکا جیسے ملک میں ارب پتی نہیں بن سکتا اور اتنے وسیع کاروبار کو کامیابی سے نہیں چلاسکتا۔اس لئے توقع یہی کی جاتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاﺅس میں بالکل ہی نئی شخصیت کے طورپر داخل ہوں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں