میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ڈیرہ اسماعیل خان ‘کیا پی ٹی آئی کا زور ٹوٹ رہا ہے ؟؟

ڈیرہ اسماعیل خان ‘کیا پی ٹی آئی کا زور ٹوٹ رہا ہے ؟؟

منتظم
منگل, ۲۵ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

سرکٹ ہاﺅس میں پی ٹی آئی ورکرز کنونشن ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی کاشکار‘ مقامی سطح پر معاملہ فہم سنجیدہ قیادت کی کمی
آئی ایس ایف ٹائیگرز کااحتجاج،اکرام اللہ گنڈا پور اور داور کنڈی کی عدم شرکت قیادت پر بے اعتمادی کا مظہر ہے
محمد عرفان مغل
پی ٹی آئی ڈیرہ اسماعیل خان کے زیر اہتمام ورکرز کنونشن نما جلسہ عام نے پی ٹی آئی کا ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم رہا سہا بھرم بھی توڑ دیا ہے۔سرکٹ ہاﺅس میں منعقدہ پی ٹی آئی کا ورکرز کنونشن ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی اور بدنظمی کا عملی نمونہ تھا۔سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات بھی ورکرز اور قائدین میں دوری کا سبب بنے۔ سرکٹ ہاﺅس میں پی ٹی آئی کی قیادت نے ورکرز کنونشن کے جوانتظامات کیے تھے اس میں بھی بڑے پیمانے پر نہ صرف جھول بلکہ خامیاں تھیں۔ا سٹیج کی بناوٹ اور سیکورٹی کے انتظامات نے اس اہم جلسہ کی خوبصورتی اور اہمیت کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ بدنظمی اور کارکنوں کی ہنگامہ آرائی سے عام شہریوں نے براتاثر لیا ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ مذکورہ جماعت میں مقامی سطح پر کوئی ایسی سنجیدہ قیادت نہیں ہے جو معاملات کو سلجھانے کیلیے کردار ادا کرسکے جبکہ پارٹی کے سینئر اور سنجیدہ اراکین کو ا سٹیج سے دور عام لوگوں میں پایا گیا۔ عمران خان کی ڈیرہ اسماعیل خان آمدکا مقصد 2نومبر کو اسلام آباد میں ہونیوالے میچ میں تماشائیوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانا ہے۔ عمران خان کے ڈیرہ اسماعیل خان اور ملک کے دیگر حصوںمیں ہونیوالے جلسے اس بات کے گواہ ہیں کہ عوام کی ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی کے جلسوں میں شرکت کرکے ان کی پالیسیوں کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔
یہاں یہ امر توجہ طلب ہے کہ مقامی قیادت نے جلسہ گاہ کے مقام اور اس ضمن میں کیے جانیوالے انتظامات کو مناسب انداز میں ترتیب نہیں دیا ۔ اگر یہ جلسہ سرکٹ ہاﺅس کے سبزہ زار تک محدود رکھا جاتا تو بھر پور انداز میں عوامی شمولیت کو ظاہر کیا جا سکتا تھا اور پیچھے پڑ ی خالی کرسیاں نہ منتظمین کا منہ چڑاتی نظر آتیں اور نہ ہی ’سرکاری ٹی وی کو پروگرام میں نقب لگانے کا موقع ملتا۔سرکٹ ہاﺅس کے وسیع و عریض حصے میں جلسہ کرنا تھا تو اس کیلیے کافی عرق ریزی کی ضرورت تھی لیکن منتظمین نے ایسی کوئی کوشش کی نہیں۔ یہ تو بھلا ہو جنوبی اضلاع ٹانک ‘ لکی مروت‘ بنوں ‘ کرک اور جنوبی وزیرستان کے لوگوں کا کہ انہوں نے شرکت کر کے پی ٹی آئی کے جلسہ کا بھرم رکھ لیا وگرنہ قیادت نے تو اس کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، جلسے میں مقامی لوگوں کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی ۔ دوسری جانب رہی سہی کسر احتجاج میں آنیوالے آئی ایس ایف کے کارکنوں نے نکال دی۔ جنہوں نے جی پی اوموڑ پر اپنی الگ دکان سجا کر کپتان کے جلسہ کوناکام بنانے میں اہم کردار اداکیا۔ ورکرز کنونشن کو اگر علی امین شوکہا جائے تو بے جانہیں ہوگا کیونکہ اس موقع پر ضلع ناظم عزیز اللہ علی زئی ‘ ایم پی اے سمیع اللہ علی زئی اورایم پی اے احتشام جاوید ایسے تھے جیسے باراتی ©©”مہمان“ ہوں، ان تمام احباب کا جلسے میں کسی قسم کا کوئی کنٹری بیوشن دیکھنے میں نہیں آرہا تھا ماسوائے ان کی اپنی موجودگی کے۔ جبکہ اکرام اللہ خان گنڈہ پور صوبائی وزیر زراعت اور این اے 25کے ایم این اے داور کنڈی کی غیر موجودگی کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے یہ دونوں اس جلسے میںشریک ہوئے اور نہ ہی ان کے حامی ۔اورجو ایم پی اے ،ضلع ناظم شریک تھے ان کے حامی اور ووٹرز تو تھے ہی نہیںالبتہ ان کے دائیں بائیں پھرنے والے اسٹیج پر ضرور موجود رہے ۔ دوسری جانب قبائلی نوجوانوں نے اس جلسے میں بھرپورشرکت کر کے اس پارٹی پر اپنی حاکمیت ثابت کرنے کی پوری پوری کوشش کی تاہم ڈیرہ شہر میں منعقد ہونیوالے سیاسی جلسوں کی طرح اس جلسے میں بھی مقامی لوگوں نے اپنی روایتی بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا ۔ علی امین گنڈا پور سمیت پی ٹی آئی کے تمام کارکنان خود کو عمران خان تصور کرتے ہیں لیکن یہ بات ہرکوئی جانتا ہے کہ عمران خان ایک طلسماتی شخصیت کے حامل ہیں اور پی ٹی آئی کی اہمیت انہی کی ذات سے وابستہ ہے ۔علی امین سمیت ان کے تمام حامیوں و مخالفین کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ عمران خان کے علاوہ پارٹی میں کوئی دوسرا عمران خان نہیں ہے ،احتجاج کرنے والے کامرانی ہوں یا عمران خان کا استقبال کرنے والے علی امین گنڈا پور، انہیں سولوفلائٹ سے قبل یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ ان کا دم خم صرف پی ٹی آئی کی بدولت ہے ۔
ا سٹیج کی ترتیب اتنی بھونڈی تھی کہ ٹی وی چینل عمران کی آمد سے لیکر ان کی اسٹیج پر موجود گی کو کور کرنے سے قاصر رہے اور تقریر سے قبل جتنی دیر وہ اسٹیج پر موجود رہے ٹی وی چینلزکے کیمروں سے اوجھل رہے ۔عمران خان سے احتجاج کرنے والے کارکنوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ وہ کسی کی پروا کیے بغیر کام کرنے کے عادی ہیں اور صرف چند لوگ ان کے حلقہ نیابت میں ہیں جن میں سے ایک علی امین خان گنڈا پور ہیں، موجودہ صورتحال میںعلی امین کےخلاف احتجاج نقار خانے میں طوطی کی آواز کی مانندہے۔عرفان کامرانی جن کی ساری اہمیت پی ٹی آئی کی مرہون منت ہے وہ کسی طور بھی علی امین کی راہ کھوٹی نہیں کر سکتے ۔ان کے گھر میں ان سمیت ضلع و تحصیل کونسل کے چار اراکین ہیں جن میں2پی ٹی آئی کے اور2کا تعلق جمعیت علماءاسلام سے ہے ۔عمران خان ایک ایسے موڑ پر جہاں ان کی تحریک ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے وہاں پر وہ علی امین ایسے مخلص ساتھی کے خلاف کسی سخت اقدام سے گریز کریں گے۔ دوسری جانب اسرار گنڈا پور گروپ سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی 3سال گزرنے کے باوجود قاتلوں کی گرفتاری نہ ہونے پر بھی احتجاج بھی کیا، یہ دونوں احتجاج پی ٹی آئی کے اندر ونی اختلاف کی کہانی بیان کر رہے تھے ۔یہ بات کسی حد تک طے ہے کہ آئندہ الیکشن میں صوبائی نشستوں پر موجود ایم پی ایز نئی صف بندی میں مصروف ہیں اور بالخصوص سمیع اللہ علیزئی اپنی نشست کو بچانے کے لیے گزشتہ الیکشن کی طرح کسی کو بھی دھوکا دے کر اور کسی کی بھی حمایت حاصل کر نے کیلیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اس وقت صوبے میں درون خانہ اورظاہراً مختلف محاذوں پر پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کی صوبائی حکومت کے ساتھ ناراضگی موجود ہے اور اسی طرح پارٹی کے اندر بھی اختلافات سر اٹھا رہے ہیں جو صوبے میں پارٹی کے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ ورکرز کنونشن میں عوام کی عدم دلچسپی یا کم لوگوں کی شرکت نے پارٹی قیادت کے لیے یہ پیغام چھوڑا ہے کہ اگر پارٹی کے اندر ہونیوالے اختلافات کا خاتمہ نہیں کیا جاتا یا محروم اور پسماندہ علاقوں کی محرومیوں کا ازالہ نہیں جاتا تویہ خلیج مزید وسیع ہوتی ہوئی پارٹی پوزیشن پر اثر انداز ہو گی، جس کا خمیازہ بہر صورت پارٹی کو آئندہ الیکشن میں بھگتنا ہو گا ۔ڈیرہ اسماعیل خا ن میں مولانا صاحبان کی شان بے نیازی کے باوجود ان کے مخالفین کی جوتیوں میں بٹتی دال مولانا کی سیاسی اہمیت و حیثیت کو مہمیز دے رہی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں