میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ارکان قومی اسمبلی کاجذبہ ایمانی الیکشن بل اصلی حالت میں بحال

ارکان قومی اسمبلی کاجذبہ ایمانی الیکشن بل اصلی حالت میں بحال

ویب ڈیسک
هفته, ۷ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

قومی اسمبلی نے الیکشن ایکٹ 2017 کی وجہ سے ختمِ نبوت حلف نامے میں رونما ہونے والی تبدیلی کو اپنی پرانی شکل میں واپس لانے کے لیے ترمیمی بل منظور کرلیا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کا ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا، جسے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا۔بلکہ یہ ایک متفقہ بل تھا جس کے لیے تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندگان پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی تھی۔وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ جب انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 پیش کیا گیا تھا تو یہ تصور بھی نہیں تھا کہ اس کی وجہ سے ختمِ نبوت حلف نامے میں ترمیم ہو سکتی ہے تاہم اس غلطی کو اب درست کر لیا گیا ہے۔
ادھر سابق وزیر اعظم پاکستان میر ظفر اللہ خان جمالی نے حکومت اور وفاقی وزیر قانون زاہد حامد پر ختمِ نبوت حلف نامے میں تبدیلی کا الزام لگایا۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی شاہ محمودقریشی کا ایوان سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ ہم نے دیانت داری سے یہ اہم مسئلہ حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا تاہم اس وقت ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس غلطی کے ذمہ داران کا تعین کیا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے پہلے کبھی بھی ایوان میں حکومتی اراکین کی جانب سے واک آؤٹ نہیں کیا گیا لہٰذا ریاض حسین پیرزادہ نے جو بات کہی وہ انتہائی حساس ہے۔واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی وجہ سے جنرل الیکشن آرڈر 2002 میں قادیانی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں ’سیون بی‘ اور ’سیون سی‘ بھی خارج ہوگئیں تھیں جو کہ اب ترمیمی بل کی وجہ سے واپس اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوجائیں گی۔مذکورہ شقوں کے مطابق انتخابی عمل میں حصہ لینے پر بھی قادیانی عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد کی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسا کہ آئین پاکستان میں واضح کی گئی ہے۔خیال رہے کہ پارلیمانی لیڈروں کی جانب سے ختمِ نبوت حلف نامے پر آنے والی تبدیلی کو اپنی پرانی حیثیت پر فوری بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھی اسے بطور غلطی تسلیم کیا تھا۔حکومت نے ختم نبوت قانون میں متنازع ترمیم پرسخت ردعمل سامنے آنے پر پسپائی اختیار کرتے ہوئے فی الفور واپس لینے کااعلان کردیا تھا۔بدھ کو قومی اسمبلی کے اسپیکر ایازصادق نے پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کواپنے چیمبرمیں بلالیا اور متنازع ترمیم پر وضاحتیں پیش کرتے رہے‘ انہوں نے الفاظ کی تبدیلی کوکسی سازش کے بجائے ٹیکنیکل غلطی قرار دیا جب کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والے وفاقی وزیرقانون زاہد حامد نے بھی بھانڈاپھوٹنے پر یوٹرن لے لیا۔ حکومت نے تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کی جانب سے سخت انتباہ پر مطالبہ فوری تسلیم کرلیا۔اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایاز صادق نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017میں ترمیم کے وقت ختم نبوت سے متعلق حلف نامے کے الفاظ میں ٹیکنیکل غلطی ہوگئی تھی ‘ سے دور کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کلاز 7 سی اور 7 بی جو مارشل لا کے دور میں رہی تھیں، اس پر بھی اعتراض آیا ہے، اس کو بھی دوبارہ بحال کر دیا جائے گا۔
حکومت نے بیٹھے بٹھائے ایک طے شدہ مسئلے پرایک نیا شوشا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن ااسے معمولی بات سمجھ کر یاقرار دے کر نظرانداز نہیں کیاجاسکتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں نے اس طرح اپنے خلاف نئی چارج شیٹ درج کرادی ہے۔ اگرچہ ارکان اسمبلی کی بروقت مداخلت اور ملک کی تمام دینی اورسیاسی جماعتوں کی جانب سے بھرپور احتجاج کو دیکھتے ہوئے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے اوربل کو اپنی شکل میں واپس لانے پر مجبور ہونا پڑا لیکن اس کے باوجود حکمران جماعت اس الزام سے دامن نہیں بچاسکتے کہ اس نے عدالت عظمیٰ کی طرف سے نا اہل قرار دیے گئے شخص کو حکمران پارٹی کا سربراہ بنانے کے شوق میں آئینی ترمیم کرتے ہوئے قانون ختم نبوت پر بھی ہاتھ ڈال دیا جس سے قادیانیوں کو بھی مسلم رائے دہندگان کی فہرست میں شامل ہونے کا موقع مل گیا تھا،اس کے ساتھ ہی یہ خدشہ بھی پیدا ہوگیاتھا کہ بات یہیں پر نہیں رہے گی بلکہ ہوسکتا ہے کہ آگے چل کر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی شق بھی ختم کردی جائے۔ ۔ یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں کہ انتخابات میں حصہ لینے والوں سے جو حلف لیا جاتا ہے کہ وہ رسول اکرمؐ کو نبی آخر الزماں تسلیم کرتے ہیں اس میں حلف کی جگہ اعلان کے الفاظ شامل کرنے کی اصل وجہ کیا ہے ؟ حکومت کے بعض ناقدین کااصرار ہے کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف امریکہ سے یہ ہدایت لے کر آئے تھے اور اس کے لیے جان بوجھ کر ایک ایسے وقت کاانتخاب کیاگیا جب حکمراں جماعت کی جانب سے سپریم کورٹ سے نااہل ایک شخص کوپارٹی کا سربراہ بنانے کی آئینی ترمیم میں الجھ کر ارکان اسمبلی قانون کی باریکیوں کو نظر انداز کردیں گے اور اس طرح حکومت کو خاموشی کے ساتھ من مانی کاموقع مل جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات صحیح نہ ہو لیکن اس خیال کاپیداہونا یا مخالفین کی جانب سے اس کو پھیلانے کی کوشش کی پشت پر حکمراں پارٹی کاوہ رویہ ہے جس کے تحت حکمراں جماعت کے وزرا محض قرضوں کے حصول کے لیے غیرملکی قوتوں کی ہر شرط تسلیم کرنے کوتیار ہوتے رہے ہیں۔تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ ارکان اسمبلی کی بروقت مداخلت اور نشاندہی کے بعد حکومت نے دانش مندی کامظاہرہ کرتے ہوئے گھٹنے ٹیکنے میں ہی عافیت تصور کی اور قومی اسمبلی نے متفقہ طورپر بل کو اصلی حالت میں بحال کرنے کی منظوری دے کرعقیدہ ختم نبوتؐ کاعلم بلند رکھاہے، اور تمام دینی جماعتوں اور علما کرام نے حلف نامے میں ردوبدل کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا اعلان کرکے اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے حکومت قادیانیت نوازی سے باز رہنے کاانتباہ دے کر حکمراں جماعت ہی نہیں بلکہ پوری دنیاپر یہ ثابت کردیاہے کہ عقیدہ ختم نبوت مسلمانوں کے ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ اس سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تو حکومت برقرار نہیں رہ سکے گی اور الیکشن ریفارمز بل کی آڑ میں حلف نامے کی عبارت میں تبدیلی اور ترمیم ناقابل قبول ہے۔
عقیدہ ختم نبوت ؐ کے حوالے سے ارکان قومی اسمبلی نے احتجاج کرکے اور حکومت کو یہ بل واپس لے کر اس کو اصل شکل میں بحال کرنے پر مجبور کرکے بلا شبہ اپنے جذبہ ایمانی کا اظہار کیاہے، حکومت کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور آئندہ مسلمانوں کے ایمان سے چھیڑ چھاڑ سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ اسی میں ان کی بھلائی اور فائدہ ہے بصورت دیگر آج ان کے حق میں نعرے لگانے کے لیے میسر آجانے والے چند ہزار افراد بھی شاید ان کادفاع کرنے کے لیے گھروں سے باہر نکلنے کو تیار نہ ہوںاور وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں