میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عالمی برادری بھارتی ہٹ دھرمی کانوٹس لے

عالمی برادری بھارتی ہٹ دھرمی کانوٹس لے

ویب ڈیسک
جمعرات, ۴ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کو بھی مسترد کردیا۔بھارتی ویب سائٹ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ترک صدر اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان ملاقات میں بھارت نے مسئلہ کشمیر کا حل دو طرفہ مذاکرات کو قرار دیتے ہوئے ‘کثیرالجہتی مذاکرات’ کی تجویز کو مسترد کیا۔میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بھارتی وزارت خارجہ کے امور کے ترجمان گوپال باگلے کا کہنا تھا کہ ‘مسئلہ کشمیر کا ایک اہم حصہ سرحدی دہشت گردی ہے’۔گوپال باگلے کا کہنا تھا، ‘جہاں تک مسئلہ کشمیر کی بات ہے، ہم اس معاملے پر شملہ معاہدے اور لاہور اعلامیے کی روشنی میں پرامن طریقے سے دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے کے لیے راضی ہیں’۔انہوں نے کہا کہ کشمیر اور دہشت گردی پر بھارت کے مؤقف کو واضح کرتے ہوئے ترکی کو آگاہ کردیا گیا ہے کہ ‘جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، ہم کشمیر کے معاملے پر اپنی پوزیشن ان کے سامنے واضح کرچکے ہیں’۔ گوپال باگلے کے مطابق ترکی کے صدر اور بھارتی وزیراعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دہشت گردی پر تفصیلی بات چیت ہوئی اور دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دہشت گردی جہاں کہیں بھی ہو، اس کا کوئی جواز نہیں پیش کیا جاسکتا۔قبل ازیں ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بحال کرے۔30 اپریل کو بھارت پہنچنے کے بعد مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے طیب اردوان نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر، پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کے لیے مایوس کن صورتحال ہے جبکہ اسے حل کرکے عالمی امن کو کافی حد تک فروغ دیا جاسکتا ہے۔ طیب اردوان نے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی ترکی کے دوست ہیں اور انہیں مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے جبکہ مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ملاقائیں بھی ہونی چاہئیں۔ بھارت پہنچنے سے قبل ایک انٹرویو میں ترکی کے صدر کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ‘کثیرالجہتی مذاکرات’ ہونے چاہئیں۔میڈیا سے بات چیت میں بھارتی وزارت خارجہ امور کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ترکی نے بھارت کے نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) میں شمولیت کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔ دورہ بھارت سے قبل انقرہ میں رجب طیب اردوان سے ترکی کی جانب سے نئی دہلی کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کی مخالفت کے حوالے سے سوال پرہی انہوںنے واضح کردیاتھاکہ ترکی ہمیشہ اس گروپ میں بھارت کے داخل ہونے کی حمایت کرتا رہا ہے اور اس بات کی بھی حمایت کرتا ہے کہ پاکستان کو بھی اسی طرح گروپ میں شامل کیا جائے۔
بھارتی حکومت نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے ترکی کے صدر کی جانب سے ثالثی کی پیشکش رد کرکے ایک مرتبہ پھر اپنی ہٹ دھرمی کا ثبوت پیش کردیاہے۔ ترک صدر کی جانب سے دونوں ملکوں کو مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرنے کا مشورہ دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ کشیدہ ماحول کے پیش نظر دیاتھا ۔ظاہر ہے کہ ترکی کے ان دونوں بظاہر متحارب ملکوں کے ساتھ قریبی دوستی کے ناتے ان کو اسی طرح کا مشورہ دینا چاہیے تھا اور انہوں نے دونوں ملکوں کو یہ مشورہ دے کر ایک دفعہ پھر اس بات کاثبوت دیاہے کہ ترکی پاکستان اور بھارت دونوں کامخلص دوست ہے ،مخلص دوست وہی ہوتاہے جو اپنے دوستوں کو تصادم کی راہ سے نکال کر محفوظ راہ پرگامزن کرنے اوردو دوستوں کے درمیان غلط فہمیاں دور کراکر دونوں کے درمیان دوستانہ رشتے بحال کرانے کی کوشش کرے اس اعتبار سے ترکی کے صدر نے ایک مخلص دوست کاکردار پورے خلوص کے ساتھ نبھایا ہے،ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ پاکستان کی طرح بھارتی رہنما بھی ترک صدر کی اس مخلصانہ پیش کش کو نہ صرف قبول کرتے بلکہ بھارت میں ان کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے اس حوالے سے پیش رفت کے لیے بات چیت کرتے ،تاکہ جلد از جلد دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا آغازہوسکتا اور دونوں ہی ملکوں کو باہمی محاذ آرائی کی وجہ سے پیداہونے والی ا س مایوس کن اور دھماکہ خیزصورت حال سے نجات مل سکتی جس کی وجہ سے کنٹرول لائن کے دونوں جانب رہنے والے شہریوں کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے۔ بھارتی رہنمائوں کی جانب سے ترک صدر کی اس پیشکش کو قبول کرلینے کی صورت میں بھارت کی جانب سے عالمی برادری کو بھی ایک مثبت پیغام ملتا اوربھارتی رہنمائوں کو یہ کہنے کاموقع ملتاکہ وہ پڑوسیوں کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں اور اس ضمن میں ہر مخلصانہ پیشکش سے فائدہ اٹھانے اور ہر کوشش میں تعاون کرنے کو تیار ہیں،جبکہ بھارتی رہنمائوں کی جانب سے ترک صدر کی اس پیشکش پر غور کیے بغیر ہی اسے ردکیے جانے سے عالمی برادری کوکوئی اچھا پیغام نہیں جائے گا اور پوری عالمی برادری بھارت کے جارحانہ کردار اور ہٹ دھرمی پر مبنی رویے کے حوالے سے سوچنے پر مجبور ہوگی۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت اپنے تمام تنازعات پر امن طورپر افہام تفہیم کے جذبے کے تحت حل کرنے پر ہمیشہ آمادگی کااظہار کیاہے بلکہ اس حوالے سے کسی بھی جانب سے کی جانے والی کوششوں اورپیشکشوں کا نہ صرف یہ کہ خیر مقدم کیاہے بلکہ اس حوالے سے آگے بڑھ کر تعاون کی پیشکش بھی کرتارہاہے۔اس صورت حال کے پیش نظر اب عالمی برادری کو خود ہی یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنے کاذمہ دار کون ہے اور امن کاخواہاں کون؟
عالمی برادری کو اب بھارت کے ہٹ دھرمی پر مبنی رویے کا نوٹس لینا چاہیے اوربھارتی رہنمائوں کو حقائق کا ادراک کرنے مقبوضہ کشمیر میںنہتے شہریوںاور طلبہ وطالبات پر فوج کے بہیمانہ مظالم بند کرانے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھی اسی طرح حق خودرادی دلانے کا اہتمام کرنا چاہیے جس کا اہتمام انہوں نے انڈونیشی جزیرے کے لوگوں کو آزادی دلانے کے لیے کیاتھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں