میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کو آبی قلت کا انتباہ ۔۔ارباب اختیار احتیاطی تدابیر میں تاخیر نہ کریں !

پاکستان کو آبی قلت کا انتباہ ۔۔ارباب اختیار احتیاطی تدابیر میں تاخیر نہ کریں !

منتظم
بدھ, ۶ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

بین الاقوامی سطح پر مرتب کردہ اعدوشمار سے ظاہر ہوتاہے کہ پوری دنیا میں پانی کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہورہی ہے اور دنیا کے بہت سے ممالک اس وقت پانی کی شدید قلت کاشکار ہیں ، عالمی سطح پر پانی کے شکار ممالک کی جو رینکنگ تیار کی گئی ہے اس میں پاکستان آبی قلت کے شکار 15 ممالک میں شامل ہے،جبکہ آنے والے برسوں کے دوران آبی قلت کی یہ صورت حال مزید گمبھیر ہوجانے کے خدشات کو رد نہیں کیاجاسکتا،عالمی سطح پر مرتب کی گئی اس رینکنگ سے چیئر مین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل کے اس بیان کوتقویت ملتی ہے جس میں انھوں نے پاکستان کو مستقبل میں پانی کے شدید بحران اورقلت سے بچنے کے لیے نئے آبی ذخائر کی فوری تعمیر اور کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو ناگزیر قرار دیا تھا،واپڈا کے چیئرمین نے اپنے بیان میں کہاتھا کہ پاکستان کو پانی کی بدترین قلت کا سامنا ہے اوراگر 2018 تک مہمند اور دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع نہیں کی گئی تو ملک میں شدید آبی بحران پیدا ہوسکتا ہے ،یہ ایک واضح امر ہے کہ ڈیموں کی تعمیر ہفتوں یامہینوں میں مکمل نہیں ہوتی دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر 9 سال میں جبکہ مہمند ڈیم کی تعمیر 6 سال میں مکمل ہوگی۔
چیئرمین واپڈا نے بجا طورپر اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ پانی کی قلت سے نمٹنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر انتہائی اہمیت کی حامل ہے، جبکہ اس وقت پاکستان میں آبی ذخائر سے متعلق کوئی پالیسی موجود نہیں ۔کالا باغ ڈیم کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اگر کالا باغ ڈیم کی تعمیر فوری طورپر شروع کردی جائے توبھی اس کی تعمیر 6 سال میں مکمل ہوگی جس میں 6.1 ایم اے ایف پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا، جس سے ملک میں 3 ہزار 600 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔
سینیٹ کے پالیسی ریسرچ فورم کے اجلاس میں چیئرمین واپڈا نے فورم کو پالیسی رپورٹ پیش کی اور پاکستان کو پانی کی ممکنہ قلت کے حوالے سے بریفنگ دی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان آبی وسائل کی قلت کے شکار 15 ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا جبکہ پانی کے استعمال کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے اور پاکستان کی پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی انتہائی کم ہے۔ سابق سینیٹر محمد انور بھنڈر نے کالا باغ ڈیم کے حوالے سے کہا کہ یہ پاکستان مخالف منصوبہ نہیں اور اس کے لیے پنجاب ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔پانی کی قلت پر فورم کے اراکین نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پانی کی قلت کے معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اراکین کا کہنا تھا کہ گذشتہ 20 برس سے مختلف منصوبوں سے متعلق بات کی جارہی ہے مگر اس حوالے سے عملی طور پر آج تک کچھ نہیں ہوا۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے‘ فطری طور پر زراعت کا انحصار پانی پر ہوتا ہے۔ پانی کی دستیابی بارشوں پر نہیں چھوڑی جا سکتی۔ پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنیوالے تین دریا بیاس‘ ستلج اور راوی بھارت کے ہاتھ فروخت کر دیے گئے۔ ان دریاؤں میں اب پانی کے بجائے دھول اڑتی ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر سے آنیوالے باقی دریاؤں کے پانی کو بند باندھ کر کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہم اب تک صرف 2بڑے تربیلا اور منگلا ڈیم بنا سکے جبکہ بھارت میں ایسے ڈیموں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ تیسرے ڈیم کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا تو اسے سیاسی ایشو اور متنازع بنا دیا گیالیکن اس کی مخالفت کرنیوالے اس کا کوئی متبادل تجویز نہیں کرسکے۔جہاں تک کالاباغ ڈیم کا معاملہ ہے تو اس کو اس حد تک متنازعہ بنادیاگیاہے کہ اب کوئی اس کی تعمیر کی صورت میں اسے بم سے اڑانے کی دھمکی دیتا ہے‘ کوئی اسے قومی سلامتی اور یکجہتی کیخلاف منصوبہ قرار دے کر عوام کومشتعل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
خیبرپختونخوا‘ کے عوام کو یہ کہہ کر گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی صورت میں نوشہرہ کا علاقہ بمع شہر ڈوب جائیگا۔ شمس الملک کا تعلق نوشہرہ سے ہے‘ وہ اس صوبے کے وزیراعلیٰ بھی رہے ہیں ‘ انہیں حقائق کا علم اور بطور انجینئر کالاباغ ڈیم کے منفی و مثبت پہلوؤں کی تمام جزیات سے آگاہی ہے۔ وہ بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے سب سے بڑے حامی اور وکیل ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ واپڈا کے موجودہ اور ہر سابق چیئرمین نے قوم کے سامنے کالاباغ ڈیم کی افادیت کے پہلو رکھ کر اس کی تعمیر پر زور دے کر اپنا قومی فریضہ ادا کیا۔ جنرل مزمل کے پیشرو ظفرمحمود نے بھی اخبارات میں کالموں کی سیریز لکھ کر اور ٹی وی چینلز پر انٹرویو دیکر کالاباغ ڈیم کے مخالفین کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تھی جس پر کالاباغ ڈیم کی مخالف سیاسی جماعتوں نے پارلیمان میں غل مچا کر حکومت کو ظفرمحمود سے استعفیٰ لینے پر مجبور کردیاتھا۔ ان کے نکتہ نظر کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جمہوریت میں دوسرے فریق کی بات نہ سننے کا رویہ افسوسناک ہے۔ گزشتہ ماہ ایک بار پھر ایسے ہی رویے کا اظہار سامنے آیا تھا۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی سیکریٹری پانی و بجلی نے پی اے سی کو بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 145 ملین مکعب فٹ پانی دستیاب ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں بڑے ڈیم نہ ہونے کے باعث ہم صرف 14 ملین مکعب فٹ پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں جبکہ 30 ملین مکعب فٹ پانی ضائع ہوکر سمندر میں جا گرتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر ملک کو بچانا ہے تو ہمیں ڈیم بنانا پڑینگے ۔اس اجلاس میں ارکان کو کالاباغ ڈیم سمیت دیگر ڈیموں کی عدم تعمیر کے مضمرات سے آ گاہ کرنے کے لیے حکومت نے ٹیکنیکل بریفنگ کا اہتمام کیا تھا مگر قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی برائے پانی و بجلی کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے پی اے سی کے اجلاس میں سیکریٹری پانی و بجلی اور چیئرمین واپڈا کو کالاباغ ڈیم پر بریفنگ دینے سے روک دیا اور کہا کہ اس معاملہ میں کوئی بات نہیں ہوگی۔ ان کے بقول یہ ڈیم ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیگا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنیوالے ہر شخص کو ملک دشمن‘ بھارت کا ایجنٹ اور اس کا پروردہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کچھ اپنی لیڈر شپ کی مخالفت برائے مخالفت پالیسی سے متاثر ہو کر مخالفت پر اتر آئے ہیں ۔ انکی غلط فہمی دلیل سے دور ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے حکومت کوایسا ماحول تیار کرنے پر توجہ دینی ہوگی کہ سیاستداں کم از کم دلائل سننے اور پارٹی کی پالیسی سے بالاتر ہوکر اس پر غور کرنے پر تیار ہوجائیں او رانھیں یہ احساس ہوجائے کہ آبی بحران کسی ایک صوبے کے عوام کو متاثر نہیں کرے گا بلکہ یہ بحیثیت مجموعی پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور اس کی وجہ سے قومی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ بھارت ابتدا ہی سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف سرگرم ہے اور اس نے کالاباغ ڈیم کی مخالفت کے لیے باقاعدہ ایک فنڈ قائم کر رکھا ہے جواطلاعات کے مطابق کالا باغ ڈیم کی مخالفت کو ہوا دینے کے لیے پاکستان کے اندر موجود بھارت کے پروردہ لوگوں میں تقسیم کیاجاتاہے۔ بھارت پاکستان آنیوالے دریاؤں پر آبی ذخائر کی کا پوراسلسلہ تعمیر کررہا ہے جس سے وہ پاکستان آنیوالے پانی پر کنٹرول حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔ کافی حد تک وہ ایسا کر بھی رہا ہے۔ پاکستان کو پانی کی ضرورت ہو تو پانی روک کر قحط سالی سے دوچار کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کئی بار موسم برسات میں تمام دریاؤں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ کر سیلاب برپا کرچکا ہے۔ برسات میں خود ہمارا پانی بھی انسانوں اور فصلوں کو ڈبوتا ہوا سمندر میں جاگرتا ہے۔ اگر کالاباغ ڈیم تعمیر ہوچکا ہوتا تو کئی سیلابوں سے پاکستان محفوظ رہتا۔اور ان سیلابوں کے پانی کو ذخیرہ کرکے ہم اپنی زرعی پیداوار میں اضافہ کرسکتے تھے ،مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ابتدا ہی سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی حامی رہی ہیں ۔ ان دونوں جماعتوں کے رہنما انتخابی مہم کے دوران اس کی تعمیر کے بلند بانگ دعوے کرتے رہے ہیں لیکن حکومت حاصل ہونے کے بعد ایسا معلوم ہوتاہے کہ مسلم لیگ ن کے خود کو شیر کہلانے والے رہنما مصلحت پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ مسلم لیگ کو قومی اتفاق رائے اور عدم اتفاق رائے کا سب سے زیادہ تجربہ ہے۔ میاں نوازشریف کی سربراہی میں 28 مئی 1998کے ایٹمی دھماکوں کے لیے کیا اتفاق رائے کیا گیا تھا؟ اس چکر میں پڑ جاتے تو پاکستان ایٹمی قوت نہ بن سکتا۔ سو فیصد اتفاق رائے ویسے بھی ممکن نہیں ۔ اکثریتی رائے ہی سے جمہوریت میں فیصلے ہوتے ہیں ۔ اس کے لیے ریفرنڈم بہترین طریقہ ہے۔ اس سلسلہ میں نوائے وقت اپنا بھرپور کردار ادا کرچکا ہے جس کے کرائے گئے ریفرنڈم میں 90 فیصد سے زیادہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں اتفاق رائے سامنے آیا تھا۔ اب حکومت اپنے تئیں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے ریفرنڈم کا اہتمام کرکے اس عظیم ترین منصوبے کی تعمیر کا آغاز کر سکتی ہے۔
چیئرمین واپڈا جنرل مزمل کی طرف سے یہ انکشافات کہ پاکستان میں آبی ذخائر سے متعلق کوئی پالیسی نہیں ہے۔ محب وطن حلقوں کے لیے سوہانِ روح ہے۔ حکومت اگر اور کچھ نہیں کر سکتی تو بلاتاخیر آبی ذخائر کے حوالے سے پالیسی تو تشکیل دے۔پانی نہ صرف فصلوں کے لیے ناگزیر ہے بلکہ انسانی زندگی کے لیے بھی ضروری ہے۔ حیوانات کی پرورش اور نباتات کی نمو بھی پانی کے بغیر ممکن نہیں ۔ نسلوں کے مستقبل کو چند ملک دشمن اور گمراہ عناصر کی ہٹ دھرمی کا یرغمالی نہیں بنانے دیا جا سکتا۔ کالاباغ ڈیم سے جہاں فصلوں ‘ انسانوں اور جانوروں کے لیے وافر پانی دستیاب ہوگا‘ وہیں سیلاب کا پانی اس میں سما سکے گا جس سے ہر سال ہونیوالی تباہی سے بچا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ بجلی کی پیداوار سے ملک روشن ہوگا اور صنعت کاری کو بھی فروغ ملے گا۔
امید کی جاتی ہے کہ ارباب حکومت اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دیں گے اور اس ملک کے عوام کوبوند بوند پانی کے لیے ترسنے سے بچانے کے لیے بلاتاخیر عملی اقدامات پر توجہ دیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں