میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سی پیک منصوبے پر صوبوں کے اعتراضات دور کرکے اسے شفاف بنایاجائے

سی پیک منصوبے پر صوبوں کے اعتراضات دور کرکے اسے شفاف بنایاجائے

ویب ڈیسک
پیر, ۱۳ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے حوالے سے حکومتی رویے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ارباب حکومت کی نیتوں کو مشکوک قرار دیا ہے۔عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے تعلق رکھنے والے قائمہ کمیٹی کے چیئرمین محمدداﺅد خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ یہ حیرت کی بات ہے کہ راہداری کے مغربی روٹ کی تکمیل نہ ہونے کے باوجود تجارتی قافلوں کی آمد کا آغاز ہوگیا۔ان کو اس بات کابھی شکوہ تھا کہ ہم نے جب کبھی مغربی روٹ پر جاری کام کے حوالے سے سوال کیا، یہی جواب سننے کو ملا کہ فنڈز اور کام کے لیے افرادی قوت کی کمی ہے۔ جبکہ بلوچستان کے چیف سیکریٹری نے قائمہ کمیٹی کے اراکین کے سامنے اس بات کو تسلیم کیا کہ وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں اراضی کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کا اب تک ایک اجلاس بھی منعقد نہیں ہوا اور نہ ہی کسی علاقے کا قبضہ حاصل کیا جاسکا ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے چیئرمین کی جانب سے ظاہر کئے جانے والے شکوک وشبہات اور اعتراضات بے بنیاد نہیں ہیں۔ بلوچستان ،خیبر پختونخوا اور سندھ کے ارباب اختیار کی جانب سے سی پیک منصوبے کے حوالے سے ارباب حکومت کی نیتوں پر شکوک وشبہات کااظہار کیاجاتارہاہے،جس پر ارباب حکومت اس حوالے سے اب تک محض زبانی یقین دہانیوں کے ذریعے اعتراضات اٹھانے والوں کو خاموش کرنے کی حکمت عملی پر کاربند نظر آئے ہیں،وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے رفقا کئی مواقع پر یہ دعوے کرتے رہے ہیں کہ سی پیک صرف پنجاب کا منصوبہ نہیں ہے بلکہ اس میں ملک کے چاروں صوبوں کو ان کا حصہ ملے گا اور ملک کے تمام علاقے اس اہم منصوبے سے مساوی طورپر مستفید ہوسکیں گے لیکن بلوچستان کے چیف سیکریٹری کے بیان سے ظاہرہوتا ہے کہ بلوچستان کی حد تک یہ تمام دعوے اور وعدے اب تک صرف کاغذی حد تک ہی محدود ہیںجبکہ سندھ میں پہلے سے موجود ایک شاہراہ کو محض کچھ چوڑا کرکے اسے سی پیک کا حصہ اور موٹر وے قرار دے کر وفاق کی جانب سے اس پر گزرنے والی گاڑیوں سے ٹول ٹیکس کی وصولی کے حوالے سے بھی وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے رفقا کو ئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ مغربی روٹ صرف کاغذات کی حد تک محدود ہے اور حقائق اس سے بہت مختلف ہیں جیسا کہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
ارباب حکومت پاک چین اقتصادی راہداری کو اس ملک کی اقتصادی شہ رگ قرار دے رہے ہیں اور یہ دعویٰ کیاجارہاہے کہ اس کی تکمیل سے پاکستان پر ترقی وخوشحالی کے دروازے کھل جائیں گے، اور یہ دعوے کچھ غلط بھی نہیںہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس منصوبے کی کامیاب تکمیل کی صورت میں اس پورے خطے میں ترقی واستحکام کے ایک نئے دور کاآغاز ہوجائے گا اور عالمی سطح پر اس کے اثرات محسوس کیے جائیں گے اور اس منصوبے سے چین اور پاکستان کے ساتھ ہی وسط ایشیا کی مسلم ریاستیں اور روس بھی فائدہ اٹھائے گا۔
اس منصوبے کی اس اہمیت کا تقاضا ہے کہ حکام اس کی شفافیت کو یقینی بنانے پر توجہ دیں اور کراچی میں سپر ہائی وے کو چوڑا کرکے اسے موٹر وے کانام دے کر لوگوں کوبیوقوف بنانے جیسے حربے ختم کیے جائیں، وزیر اعظم نواز شریف کافرض ہے کہ وہ کراچی حیدرآباد سپر ہائی وے کو چوڑا کرکے اسے موٹر وے کانام دینے اور اس پر سے گزرنے والی گاڑیوں سے کئی گنا زیادہ ٹول ٹیکس وصول کرنے کے حوالے سے سامنے آنے والی شکایات پر فوری توجہ دیں۔ اس معاملے کی اعلیٰ عدلیہ کے حاضر ججوں کے ذریعے تفتیش کرائیں اور اس طرح کے فراڈ کرکے ایک اہم منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکانے ، وفاق اور صوبوں کوآپس میں لڑانے کی سازش کرنے اور صوبوں اور وفاق کے درمیان منافرت پھیلانے کی سازش کرنے والے عناصر کو بے نقاب کریں اور کسی امتیاز کے بغیران کے خلاف سخت ترین کارروائی کرکے ایسے عناصر کو نشانِ عبرت بنادیں۔
نواز شریف کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ ایک غلطی کو فراخدلی کے ساتھ تسلیم کرلینا اس غلطی کو صحیح ثابت کرنے کیلئے تاویلات گھڑنے سے زیادہ بہتر ہے، وزیر اعظم کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس طرح کے معاملات میں انہیں سب اچھا اور اختلافات اور اعتراضات کو حکومت مخالف عناصر کاشوروغوغا قرار دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کرنے والے نہ تو ان کے ہمدرد ہیں، نہ ان کی پارٹی اور ملک کے، لہٰذا ایسے عناصر سے جان چھڑا لینا بلکہ ان کو قرار واقعی سزا دے کر عوام میں وہ زیادہ مقبولیت حاصل کرسکتے ہیں ،وزیر اعظم کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ ایک اہم منصوبے میں چھوٹے صوبوں کو نظر انداز کرنے یا ان کے اعتراضات کو درخور اعتنا نہ سمجھنے کی روش سے صوبوں کے درمیان احساس محرومی فزوں تر ہوگا اور پھر چھوٹے صوبوں کے رہنماﺅں کو کوئی بھی سندھ ، بلوچستان، اور خیبر پختونخوا جیسے کارڈ کھیلنے سے نہیں روک سکے گا۔
توقع کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اس اہم مسئلے پر بلاتاخیر توجہ دیں گے اور سی پیک کو حقیقی معنوں میں شفاف بنانے کیلئے اس منصوبے کے حوالے سے صوبوں کے حکمرانوں اور عوام میں پھیلنے والی غلط فہمیوں کا تدارک کرنے کے ساتھ ہی اس طرح کی غلط فہمیاں پھیلانے والے عناصر کو اپنی صفوں سے نکال باہر کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں