میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
صبرکرنا سیکھیں!

صبرکرنا سیکھیں!

ویب ڈیسک
جمعه, ۳ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

مولانا ندیم الرشید
بلاشبہ صبر کرنے والوں کو ان کے اجر سے بے حساب نوازا جائے گا (الزمر:10)
قابل ِ صد احترام برادرانِ اسلام!
سورة الزمر کی آیت نمبر10کا ترجمہ آپ کے سامنے پیش کیاگیا ہے، جس میں خالق کائنات‘ خدائے وحدہ‘ لاشریک نے صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر کی خوشخبری سنائی ہے۔
صبر کا معنی ہے اپنے نفس کو روکنا اور اس پر قابو پانا۔ اصطلاحی تعریف کے اعتبار سے صبر کہتے ہیں کوئی تکلیف، وہ بات پیش آئے تو انسان زبان سے کوئی خلاف شرع بات نہ نکالے اور نہ ہی کوئی خلاف شرع کام کرے۔ اپنے آپ کو قابو میں رکھے‘ پروردگار کے شکوے نہ کرے‘ اگر کسی کو پریشانی آئی‘ غم لاحق ہوا‘ بیماری‘ دکھ، تکلیف اور مصیبت کے باوجود بھی اگر انسان اپنے اوپر قابو رکھتا ہے تو یہ کیفیت صبرکہلائے گی۔ یہ بہت مشکل کام ہے‘ کیا ہم رو زمرہ زندگی میں مشاہدہ نہیں کرتے کہ ایک آدمی کو کوئی بات ناگوار گزری تو وہ کہتا ہے کہ میں اینٹ کا جواب پتھر سے دوں گا۔ رشتہ داروں کی طرف سے کوئی بات ہوگئی تو ہم کہتے ہیں میں تو اب اس کو بالکل نہیں چھوڑوں گا‘ بہت کرلیا صبر‘ حالانکہ صبر کیا ہی نہیں ‘ یا کوئی الفاظ اسے سننے کو ملے جو ذرا سخت تھے تو ہم فوراً کہتے ہیں کرلو جو کرنا ہے آج تمہارے پاس موقع ہے ،کل میری باری آئے گی تو میں اس سے دگنا کردوں گا، پھر زمانہ دیکھے گا کہ میں نے اس کا حشر کیاکِیاہے۔ لہٰذا صبر کرنا آسان نہیں ہے، اسی لیے سورة آل عمران کی آیت نمبر186 میں ہے’اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو بے شک یہ بڑی ہمت کا کام ہے‘۔
لیکن جب انسان صبر نہیں کرتا، خود بدلہ لینے پر آجاتا ہے تو پھر ہوتا کیا ہے؟ خدا ئے بزرگ وبرتر ایسے آدمی کو اپنے مخالفین کے مقابلے میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں کہ تم جانو اور تمہارا کام جانے۔ اگر تم صبر کرتے تو تمہاری طرف سے بدلہ لینے والا میں ہوتا‘ اب چونکہ تم نے خود قدم اٹھا لیا‘ اس لیے میں تمہارا معاملہ تمہارے اوپر چھوڑدیتا ہوں۔ اس لیے بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ جب بھی کوئی ایسی بات انسان کو پیش آئے تو اللہ کے سپرد کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ ضرور خود اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ دشمن کے مقابلے میں اس کے مددگار اور ساتھ دینے والے ہوں گے ۔یہی مطلب ہے۔ ان اللہ مع الصابرین کا، کہ صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ خود ہوتے ہیں لیکن ہمارا مسئلہ کیا ہے کہ ہم اس وقت اللہ کے درپہ جاکر سجدہ اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد حاصل نہیں کرتے، ہم اللہ کے در پہ جانے کے بجائے دوسروں کے دروازے کھٹکھٹارہے ہوتے ہیں، دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلارہے ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ کے سامنے ہاتھ نہیں اٹھارہے ہوتے۔ دوسروں کو شکوے سنارہے ہوتے ہیں لیکن اللہ کے دربار میں فریاد نہیں پہنچارہے ہو تے، اس طرح ہم اپنی پریشانیوں میں اور اضافہ کرتے ہیں حالانکہ اگر ہم صبر کرتے اور اللہ سے مدد مانگتے تو ہمارے لیے یہ بات زیادہ بہتر ہوتی۔
حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا صبر سے بہتر اور وسیع عطیہ کسی کو نہیں دیاگیا۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ ایمان میں صبرکاو ہی مرتبہ ہے جو بدن میں سر کا ہے۔ جو شخص مقام صبر تک پہنچنا چاہے اللہ اُسے صبردے دیتا ہے اور جس شخص کو یہ نعمت حاصل ہو، اُس کے بارے میں سرکارِ دو عالم کا ارشاد ہے ’کسی شخص کو صبر سے زیادہ وسیع نعمت نہیں دی گئی۔‘
اس مقام کو حاصل کرنے کا اصل طریقہ تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے جنہیں صبر کی نعمت حاصل ہے۔
صبر کے فضائل کیا کیا ہےں؟ اس پر بہت ساری احادیث ملتی ہیں۔
ایک حدیث شریف میں آتا ہے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں‘ مسلمان کو جو بھی کوئی مصیبت پہنچتی ہے اُسے اللہ تعالیٰ اُس کے گناہوں کاکفارہ بنادیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کسی کو کانٹا بھی چبھتا ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کرتے ہیں (بخاری و مسلم)
صبر کی ایک عجیب فضلیت حدیث شریف میں آئی ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب کسی کا بچہ فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے تم نے میرے بندے کی جان لے لی۔ وہ کہتے ہیں ہاں۔ پھر فرماتے ہیں تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا، وہ کہتے ہیں ہاں‘ پھر فرماتے ہیں میرے بندے نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں آپ کی حمد وثنا کی اور (ان للہ وانا الیہ راجعون) کہا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے کیلیے جنت میں ایک گھر بناﺅ اور اس کانام بیت الحمد رکھو۔
قارئین کرام!
جس بندے کے ساتھ اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں تو ساتھ ساتھ اکثر وبیشتر بندہ کو کسی آزمائش اور ابتلاءمیں ڈال دیا جاتا ہے تاکہ بندے کی اللہ سے محبت کی پختگی ظاہر ہوجائے اور بندے کے قرب الٰہی میں اضافہ ہوجائے۔ اسی لیے خدائے بزرگ وبرترفرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (آل عمران: 146)
احیاءالعلوم میں ہے، جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کو پریشانیوں میں ڈال دیتا ہے۔ مبتلا ئے آفات کردیتا ہے پس اگر وہ صبر کرتا ہے تو اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن سلام فرماتے ہیں کہ قیامت کا دن ہوگا‘ حساب کتاب ابھی قائم نہیں ہوگا کہ ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ جن لوگوں کا اللہ تعالیٰ پر حق ہے وہ اپنا حق لے لیں۔ مخلوق حیران ہوگی کہ اللہ تعالیٰ پر کس کا حق ہے تو لوگ سوال کریں گے کہ اللہ تعالیٰ پر کس کا حق ہے؟ فرشتہ کہے گا جس بندے کو دنیا میں کوئی غم پہنچا اور اس غم کی وجہ سے اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ اب اس بندے کے لیے اللہ پر حق ہے کہ یہ ان پرنم آنکھوں کا بدلہ اپنے پروردگار سے لے۔ چنانچہ لوگ کھڑے ہوجائیں گے۔ مجھے بھی غم ملا تھا‘ مجھے بھی غم ملا تھا‘ میں بھی رویا تھا‘ میں بھی رویا تھا‘ یوں ان کواللہ رب العزت اپنی شان کے مطابق اجر دیں گے جو ان کے گناہوں کی بخشش کے لیے کافی ہوجائے گا۔
قارئین گرامی!
صبر کے ان تمام فضائل کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم صبر کرنا سیکھیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے تواللہ والوں سے تعلق قائم کریں، دوسرے نمبر پر چھوٹی چھوٹی باتوں کو برداشت کرنا سیکھیں۔ ہم گھر میں ہیں‘ دفتر میں ہیں یا راستے میں ہیں، ناگوار چیزیں پیش آہی جاتی ہیں۔ لڑنے‘ الجھنے اور جھگڑنے کے بجائے برداشت کریں۔ دوسروں کو اپنے آپ سے اچھا سمھجےں، اس کے نتیجے میں ہم خود پرستی کے حصار سے باہر نکل آئیں گے۔ نفلی روزے اور نفل نماز سے انسان بدنی اور نفسیاتی طور پر بہت زیادہ قوت برداشت حاصل کرلیتا ہے جس سے صبر جیسا مشکل کام نہایت ہی آسان ہوجاتا ہے اور پھر یہ ساری چیزیں بندے کو اپنے رب کا محبوب بنادیتی ہیں۔
وماعلینا الالبلاغ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں