میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسلام کا نظامِ کفالتِ عامہ

اسلام کا نظامِ کفالتِ عامہ

جرات ڈیسک
منگل, ۳۰ اپریل ۲۰۲۴

شیئر کریں

مفتی محمد راشد ڈسکوی

اسلام کا نیرِ تاباں ایسی روشنی لے کر نمودار ہوا کہ ظلمت بھری دنیا کے گوشے گوشے کو نورانیت سے بھردیا، صرف ۳۲ سال کی قلیل مدت میں اسلام نے اپنا لوہا منوالیا اور ہر میدان میں ایسا نظام پیش کیا کہ دنیا امن کا گہوارہ بن گئی، شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے نظر آنے لگے، امراء کو عزت ملی تو غریبوں کو سکون اور آسائش ملی، ہر فرد دوسرے کے غم کو اپنا غم اور دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنے لگا، حتی کہ پورا معاشرہ ایک جسد ِ واحد کا نظارہ پیش کرنے لگا، جس کے ایک حصے کی تکلیف کو محسوس کرنے والا صرف ایک عضو ہی نہیں ہوتا؛ بلکہ پورا جسم ہوتا ہے۔
اسلام کا نظامِ کفالت یا نظامِ تکافل بھی ایسا جامع نظام ہے جس میں بلا کسی تخصیص وامتیاز، معاشرے کے ہر فرد کو کسی نہ کسی شکل میں اتنا سامانِ معاش ہرحال میں میسر ہوجائے، جس کے بغیر عام طور پر کوئی انسان نہ اطمینان کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے، اور نہ ہی اپنے متعلقہ فرائض وحقوق سرانجام دے سکتا ہے، اس نظام کے تحت ملکی وقومی دولت کی گردش کا دائرہئ کار چند اغنیاء اور بڑے مالدار لوگوں کے درمیان محدود نہ ہونے پائے کہ دوسرے ان کے رحم وکرم کے محتاج ہوں؛ بلکہ اس صورت میں تو اور بھی خصوصیت کے ساتھ اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے، کہ معاشرے کے وہ افراد جو مسکین، محتاج اور نادار ہوں اور کسی طبعی عذر کی وجہ سے معذور ہوں، جس کی وجہ سے کوئی معاشی کام کرنے اور اپنے لیے خود روزی کمانے کے لائق نہ ہوں، یا مناسب روزگار نہ ملنے کی وجہ سے حالت ایسی ہوگئی ہوتو ایسے ضرورت مند افراد کی ”معاشی کفالت“ حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے اوراسی طرح جو اُن کے عزیز وقریب ہیں، اُن کے ذمہ اِن کی کفالت ہوگی اور معاشرے کے دیگر جو مالدار لوگ ہیں وہ صدقاتِ واجبہ و نافلہ اور عطیات سے ایسے افراد کی کفالت کا انتظام کریں گے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے:
اسلام افرادِ معاشرہ کے درمیان جس معاشی مساوات کو پیدا کرنا چاہتا ہے، وہ یہ نہیں کہ معاشرے کے تمام افراد کے درمیان مال ودولت یکساں اور برابر ہو، جتنی اور جیسی ایک فرد کے پاس ہو اتنی اور ویسی ہی تمام افراد کے پاس ہو، کیونکہ ایسی مساوات، خیالی دنیا میں تو ہوسکتی ہے؛ لیکن حقیقت کی دنیا میں نہیں ہوسکتی، اسلام جس مساوات کو چاہتا ہے، وہ یہ ہے کہ مال ودولت کی کمی بیشی کے ساتھ ساتھ افرادِ معاشرہ کے معیارِ زندگی اور مظاہر معیشت میں زیادہ سے زیادہ ہو؛ لہٰذا اسلام غنی کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنا زائد اور اضافی مال راہ خدامیں خرچ کرکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور روحانی عظمت اور اخلاقی برتری حاصل کرے۔
اس کے بعد یہ جاننا بھی نہایت ضروری ہے کہ مغربی دنیا اور بعض جدّت کی طرف مائل مسلم دانشور بھی یہ پروپیگنڈہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ”اسلام نے کوئی معاشی نظام نہیں دیا“ ان کا یہ کہنا انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے؛ اس لیے کہ معیشت کا تعلق حصولِ رزق اور پیدائش ِ دولت سے ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ کھانے پینے، پہننے، اوڑھنے اور رہنے سہنے کے لیے انتظام کیا جانا انسانی تاریخ کا اتنا قدیم عنصر ہے، جتنی دنیا کی تاریخ، تو کیا ایسا ممکن ہے کہ اسلام آنے کے بعد ہزار سال تک (جوکہ دنیا میں اسلام کے عروج کا دور ہے) لوگ ضروریاتِ زندگی سے محروم تھے؟!
ہرگز نہیں! بلکہ حضراتِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا مختصر دور تو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے،کہ جو نظام محض /۳۲سال میں انھوں نے پوری دنیا میں متعارف کراکے رائج بھی کردیا اور وہ /۲۳سال تک اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ قائم رہا، پھر غیروں کی سازشوں اور کوششوں سے اِس نظام کے ختم ہونے تک ایک ہزار برس لگ گئے، یعنی جو فلسفہئ معاش ساتویں صدی عیسوی میں انسانیت کے سامنے آیا اُس کے اثرات سترہویں صدی عیسوی تک بھی مٹائے نہ جاسکے، اور آج بیسویں صدی میں بھی دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی اِس نظام کو اپنائے ہوئے ہے، پھر اِس نظام کو فرسودہ کیونکر کہا جاسکتا ہے؟!
اسلامی نظامِ معاش ونظامِ کفالت کو برباد کرنے کے لیے برسہا برس کی کوششیں ہوئیں، منصوبے بنے، اُن پر عمل ہوا، اور ایک حد تک اِن اسلام دشمن عناصر کو کامیابی بھی ہوئی، اُن منصوبوں میں سے ایک منصوبہ ”نظامِ انشورنس”بھی ہے جو اسلام کے نظامِ کفالت ِ عامہ کو ختم کرنے کے لیے وجود میں آیا، ایک نظر اِس مغربی نظامِ انشورنس کے مقاصد پر ڈال لی جائے تاکہ اس کے مقابل اسلام کے نظامِ کفالت کی جامعیت اور افادیت پوری طرح واضح ہوجائے۔
نظام انشورنس سماجی اور معاشی تحفظ کا ضامن نہیں بن سکتا؛ کیوں کہ اِس کا دائرہ کار انتہائی محدود ہے، اگر تھوڑا بہت نظر آرہا ہے تو محض اِن ہی افراد کے لیے یہ نظام ہے، جو کمپنی کی پالیسی لیتے ہیں، یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو عام طور پر سرمایہ دار ہی ہوتے ہیں، اِس نظام میں ایسے طبقہ یا افراد کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے، جو اُن کے پالیسی ہولڈر نہیں ہیں، جو معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں، ایسے افراد کو سہارا دینے کا، ان کا ساتھ دینے کا، ان کو چلانے کا، گرے پڑے ہوؤں کو اٹھانے کا کوئی پروگرام یا کوئی حصہ نہیں ہے، جو معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں، اِس نظام میں نہ یتیم بچوں کے سروں پر رکھنے کے لیے دست ِ شفقت ہے (کیوں کہ ان کا باپ پالیسی ہولڈر نہیں تھا) اور اُس بیوہ کے لیے کھانے کے ایک لقمہ کا بھی انتظام نہیں ہے، جس کا مزدور خاوند بیمہ کمپنی میں اپنا یا اپنی اس بیوہ کا بیمہ نہ کراسکا تھا، اِس نظام میں اُن غرباء اور مساکین کے لیے کوئی پالیسی یا انتظام نہیں ہے، جو مکان نہ ہونے کے باعث کھلے آسمان تلے زندگی بسر کررہے ہیں یا دن بھر مزدوری نہ ملنے کے سبب بھوکے سونے پر مجبور ہیں، ایسا کیوں؟ اِس لیے کہ وہ بیمہ کمپنی کے ممبر نہیں ہیں، اُن کے پاس اِن کی اَقساط ادا کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔
مذکورہ تفصیل کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے، کہ ”نظامِ انشورنس“ جس پر آج مغرب فخر کررہاہے اور غریبوں کو اپنا محسن ہونا بتارہا ہے، جس کے پُرفریب اور پُرکشش اشتہارات ”ہرفکر کو دور کیجیے“! اور ”غم کو اپنے قریب بھی نہ بھٹکنے دیجیے“! کا سبق پڑھا رہے ہیں، دراصل یہ (نظام) مذموم سرمایہ کاری کی کوکھ سے جنم لینے والا ایک نیا نظام استحصال، دولت کو اپنے پاس جمع کرتے رہنے کا جدید حیلہ اور عالمِ اسلام میں یہودی کاروبار کو فروغ دینے والا ذہنی، فکری وعملی منصوبہ ہے، جس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ”امیر کے لیے سب کچھ اور نادار وبے کَس غریب کے لیے کچھ نہیں“۔
اِس کے برعکس اسلام کے نظامِ کفالت ِ عامہ کو پہچانیے اور اِس کی جامعیت اور کاملیت کا بڑی بیدار مغزی اور پوری بصیرت سے جائزہ لیجیے کہ کتنا دودھ اور کتنا پانی ہے؟! جس کا مقصد اسلامی ریاست کے متمول، صاحبِ ثروت افراد سے جائز اور شرعی طریقے سے لے کر اور عرباء ومساکین و معذورین سے کچھ بھی نہ لے کر مملکت وریاست کے تمام باشندوں (بلا تمیز مسلم وکافر) کی ہر قسم کی سماجی، ومعاشی حاجات وضروریات کی کفالت، غیرمتوقع پیش آمدہ حادثات کا تحفظ اور نقصانات کی تلافی کی ضمانت دینا ہے۔
یہ نظام (کفالت) اس معاشی نظام کا ایک حصہ ہے جس کا مقصد محض معاشی کفالت نہیں؛ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ امن وسلامتی کی ضمانت دینا ہے، اس (اسلامی نظام) کارکن بننے کے لیے کوئی قسط اور کوئی فیس نہیں ادا کرنا پڑتی؛ بلکہ صرف احکاماتِ الٰہیہ کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اسلام کو بحیثیت ضابطہ حیات تسلیم کرنا، امراء کا جائز شرعی واجبات (زکاۃ، صدقات واجبہ، عشر وغیرہ) ادا کرنا اور پوری زندگی اللہ کا بندہ بن کر رہنا اور بصورتِ ذمی، اسلامی ریاست کا وفادار شہری بن کر رہنا اور معمولی جزیہ (بدلِ تحفظ) کا ادا کرنا ہے۔
اسلام جس قسم کا نظامِ کفالت پیش کرتا ہے، اس میں اوّلیت اس بات کو دی گئی ہے کہ اسلامی ریاست کا کوئی شخص بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہے، اس نظام میں امیر کو ترغیب دے کر، اور آخرت کا خوف دلاکر یہ درس دیا جاتا ہے کہ وہ غریب اور محروم المعیشت تک اس کی ضروریاتِ زندگی پہونچائے، جو شخص مفلس اور نادار کی حاجت روائی نہ کرے وہ کامل مسلمان ہی نہیں۔
معاشی نظام سے متعلق قرآن پاک کا اُسلوب
اسلام میں کمال حاصل کرنے کے لیے جن صفات کا ہونا ضروری ہے، اُن میں سے ایک صفت غرباء کو کھانا کھلانے کی تلقین بھی ہے، ملاحظہ ہو:
”أرئیتَ الذی یکَذِّبُ بالدِّینِ، فَذٰلِکَ الَّذِی یدُعُّ الیتِیمَ، وَلَا یحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِینِ“۔ (الماعون: ۱ تا ۳)
ترجمہ: ”کیا تونے ایسے شخص کو دیکھا جو جزا وسزا کا منکر ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی تلقین نہیں کرتا“۔
دیکھیے! غریب کو خود کھانا کھلانے سے انکار تو دور کی بات ہے، یہاں تو اگر کوئی فرد کسی دوسرے متمول شخص کو کسی بھوکے کو کھانا کھلانے کی تلقین نہیں کرتا تب بھی اسے صحیح اور کامل دین دار قرار نہیں دیا جارہا۔
ایک اور جگہ تو بہت سخت لہجے میں فرمایاگیا:
”خُذُوْہ فَغُلُّوہ، ثُمَّ الجَحِیمَ صَلُّوہ، ثُمَّ فِی سِلْسِلَۃٍ ذَرْعُھا سَبْعُوْنَ ذِرَاعاً فَاسْلُکُوہ، إنَّہٗ کَانَ لاَ یؤمِنُ بِاللہِ العَظِیمِ، وَلاَ یحُضُّ عَلٰی طَعَامٍ“۔(الحاقۃ:۰۳ تا ۴۳)
ترجمہ:اسے پکڑو اور اس کے گلے میں طوق ڈالو، پھر اسے جہنم میں داخل کرو پھر اسے سترگز لمبی زنجیر میں جکڑدو،یقیناً یہ وہی ہے جو خدائے بزرگ وبرتر پر ایمان نہیں لایا تھا، اور نہ ہی محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا“۔
ایک اور جگہ ایمان والوں کی صفات ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایاگیا:
”وَیطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیناً وَیتِیماً وأسِیراً“(الدہر:۸)
ترجمہ: ”اور وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں (اپنا) کھانا مسکین، یتیم اور قیدی کو کھلاتے ہیں“۔

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
”فِی أَمْوَالِھمْ حَقٌ مَعْلُوْمٌ، لِلسَّاءِلِ وَالْمَحْرُوْمِ“(المعارج: ۴۲، ۵۲)
ترجمہ:”ان کے اموال میں ایک مقررہ حصہ ہے، مانگنے والوں کا اور ہارے ہوئے کا“۔
مذکورہ آیات میں امراء کے لیے ایک راہ عمل متعین کردی گئی، اور پھر دوسرے طرز پر مقصد یہ بتایا گیا کہ:
”کَی لاَ یکُونَ دُوْلَۃً بَینَ الأَغْنِیاءِ مِنْکُمْ“(الحشر:۷)
ترجمہ:”تاکہ وہ (دولت) تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتی رہے“۔
آیتِ کریمہ میں اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیاگیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں میں ہی گھومتا رہے، یا امیر! روز بروز امیر تر اور غریب دن بدن غریب تر ہوتے چلے جائیں، اس مقصد کے لیے سود حرام کیاگیا، زکوٰۃ فرض کی گئی، مالِ غنیمت میں خُمس مقرر کیاگیا، صدقات کی ترغیب دی گئی، مختلف قسم کے کفارات کی ایسی صورت تجویز کی گئی جن سے غریب افراد کی خاطر خواہ دلداری اور حاجت براری ہوسکے، میراث کا ایسا قانون بنایا گیا کہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زیادہ وسیع دائرے میں پھیل جائے، اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابلِ مذمت اور سخاوت و فیاضی کو بہترین صفت قرار دیاگیا، الغرض وہ تمام انتظامات کیے گئے کہ دولت پر بااثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو اور دولت کا بہاؤ امیروں سے غریبوں کی طرف بھی ہوجائے۔
احادیثِ مبارکہ کا معاشی نظام سے متعلق اُسلوب
سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے کہ یہ افرادِ معاشرہ سے سخاوت کو بالکلیہ ہی ختم کردیتا ہے، چنانچہ اِس نظام کی کسی بھی کتاب کو اُٹھاکے دیکھ لیا جائے کہ اس میں سخاوت وفیاضی کا کوئی ایک بھی عنوان ڈھونڈنے سے نہ مل سکے گا، اس کی وجہ یہی ہے کہ اس نظام کا خمیر ہی بخل اور امساک سے اٹھایاگیا ہے، جب کہ سخاوت وفیاضی کریمانہ اَخلاق کے وہ حصے ہیں جو اللہ رب العزت کی راہ میں خرچ کرنے سے فقراء ومساکین کی محبت، دنیاداری کی حقارت جیسی عمدہ روحانی غذا پاتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخاوت وفیاضی کے اوصافِ حمیدہ کے ذریعے اپنے مال ودولت میں امت کے غریب و بے کس کو بھی شامل فرمایا اور اِس طرح گردشِ دولت کی راہیں کشادہ کردیں اور بخل واِرتکازِ دولت کی عاداتِ رذیلہ کے مضر اثرات کو ختم فرمایا، اور اِس خصلتِ حمیدہ میں امت کو بھی اپنے ساتھ شامل فرمایا، جا بجا ان کی ذہن سازی کی، کبھی ترغیب کے ذریعے اور کبھی ترہیب کے ذریعے، لیکن اِن سب سے بڑھ کر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا پاکیزہ عمل نمونہ تھا، جس کی ادنیٰ سی جھلک پہلی بار نازل ہونے والی وحی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر طاری ہونے والی گھبراہٹ کو دیکھ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا آپ کو تسلی دیتے ہوئے آپ کی اعلیٰ صفات شمار کروانا ہے، ملاحظہ ہو:
”فَقَالَتْ خَدِیجَۃُ: کَلّا وَاللہ مَا یخْزِیکَ اللہ أبَداً إنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحْمَ تَحْمِلُ الکلَّ وَتَکْسِبُ المَعْدُومَ وتُقْرِی الضَّیفَ وَتُعِینُ عَلٰی نَوَاءِبِ الْحَقِّ“ (صحیح البخاری، کتاب بدء الوحی، رقم الحدیث: ۳، ۷/۱، دارطوق النجاۃ)
ترجمہ:(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ کو دیکھ کر) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ”ہرگز نہیں! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کریں گے، آپ تو رشتوں کو جوڑنے والے ہیں، آپ تو کمزوروں، بے کسوں کا سہارا بنتے ہیں، جن کا کوئی کمانے والا نہیں آپ اُن کو کماکر کھلاتے ہیں، ناتوانوں کے بوجھ اُٹھاتے ہیں، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور آفت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں“۔
یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفاتِ عالیہ کی ایک ادنیٰ سی جھلک ہے، ورنہ تو پوری حیاتِ طیبہ یہی اُسوہ پیش کرتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”أیما أَھلِ عَرْصَۃٍ أصْبَح فِیھمْ اِمْرَءٌ جَاءِعاً فقد بَرِءَتْ مِنْھمْ ذِمَّۃُ اللہ“۔ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب البیوع، رقم الحدیث: ۵۶۱۲، ۴۱/۲، دارالکتب العلمیۃ)
ترجمہ:”کسی بھی بستی میں کوئی شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ رات بھر بھوکا رہا ہو، تو اللہ رب العزت کا ذمہ اس بستی سے بری ہے“۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غرباء کی امداد کی اس قدر ترغیب دی کہ صحابہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ہمارے پاس جو زائد اموال ہیں ان میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے، ملاحظہ ہو:
”عَنْ أبی سعیدِن الْخُدْرِی رضی اللہ عنہ قال: ”بَینَمَا نَحْنُ فِی سَفَرٍ مَعَ النَّبِی صلی اللہ علیہ وسلم إذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلٰی رَاحِلَۃٍ لہ، فَجَلَ یصْرِفُ بَصَرَہٗ یمِیناً وشِمالاً”، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ”مَنْ کَانَ مَعَہ فَضْلُ ظَھرٍ فَلْیعُدْ بِہٖ عَلی مَن لاَ ظَھرَ لَہٗ، وَمَنْ کَانَ لَہٗ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ، فَلْیعُدْ بِہٖ عَلٰی مَنْ لاَ زَادَ لَہٗ”فذکر من أصنافِ المالِ ما ذکر حتیٰ رَأینا أنَّہ لا حَقَّ لأحدٍ مِنّا فی فَضْلٍ”۔ (ریاض الصالحین، باب الإیثار والمواساۃ، رقم الحدیث: ۶۶۵، ص:۳۷۱، دارالسلام)
ترجمہ:”حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے کہ ایک شخص آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس زائد سواری ہو وہ اُسے دے دے جس کے پاس سواری نہ ہو، اور جس کے پاس ضرورت سے زائد زادِ راہ ہوتو وہ (اُس توشے کو) اُسے دے دے جس کے پاس زادِ راہ نہ ہو، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف انواع کے اموال (اسی طرح اوروں کو دے دینے) کا ذکر فرماتے رہے کہ ہم (میں سے ہرایک) نے گمان کرلیا تھا کہ ہم میں سے کسی کو بھی اپنے ضرورت سے زائد مال پر کوئی حق نہیں“۔
ایک اور حدیث شریف میں ارشاد فرمایا:
”مَنْ کَانَ عِندَہ طَعَامُ إثنینِ فَلْیذْھبْ بِثَالثٍ، فإن أربعٌ فخامسٍ، أو سادسٍ“(صحیح بخاری، کتاب الھیبۃ، رقم الحدیث: ۱۸۵۲، ۶۵۱/۱، دارالشعب القاہرۃ)
ترجمہ:آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:”جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے آدمی کو اپنا مہمان بنالے، اور اگر چار (آدمیوں) کا کھانا ہو تو پانچویں یا چھٹے کو (اپنا مہمان بنالے)“
ایک اور روایت میں ہے کہ:
”طعامُ الإثنینِ کافی الثلاثۃِ وطعامُ الثلاثۃِ کافی الأربعۃِ“ (ریاض الصالحین، باب الإیثار والمواساۃ، رقم الحدیث: ۵۶۵، ص:۳۷۱، دارالسلام)
ترجمہ: ”دو افراد کا کھانا تین افراد کو کفایت کرجائے گا او رتین کا کھانا چار کو کفایت کرجائے گا“۔ کفالت کے اس سلسلے کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
”عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ یقول: سَمِعْتُ رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ”طعامُ الواحدِ یکْفِی الإثنینِ وطعامُ الإثنینِ یکفی الأربعۃَ وطعامُ الأربعۃِ یکفی الثمانیۃَ“(صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ، باب فضیلۃ المواساۃ، رقم الحدیث: ۹۸۴۵، ۲۳۱/۲، دارالجیل، بیروت)
ترجمہ:”حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ایک فرد کا کھانا دو کے لیے کافی ہوجائے گا، دو کا کھانا چار افراد کے لیے کافی ہوجائے گا، اور اسی طرح چار افراد کا کھانا آٹھ افراد کے لیے کافی ہوسکتا ہے“۔
یہ ہیں وہ تعلیمات جو اسلام کی جامعیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جن پر عمل پیرا ہوکر یہ امت وحدتِ امت کا نمونہ پیش کرسکتی ہے، یہ تصور امت کے اندر سے منافرت کی بوتک مٹادیتا ہے، اور امت مسلمہ کو یک جان کردیتا ہے، اس کی بہت ہی دلکش تعبیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے:
”مَثَلُ المؤمنینَ فِی تَوادِّھمْ وتَرَاحُمِھمْ وتَعَاطُفِھمْ مِثْلَ الجَسَدِ إذا اشْتَکیٰ منہ عُضْوٌ تَداعیٰ لَہٗ سائرُ الجِسْمِ بِالسَھرِ وَالحَمیٰ”(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تراحم الؤمنین، رقم الحدیث: ۱۵۷۶، ۰۲/۸، دارالجیل، بیروت)
ترجمہ: ”مؤمنین کی مثال ان کے آپس میں محبت وشفقت، اُنس ومودت اور لطف وکرم میں ایک جسم کی مانند ہے، جس کے ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم بیداری اور بخارمیں اس کا شریک ہوتا ہے۔”اس سے اندازہ کرلینا چاہیے کہ کیا مغرب کا پیش کردہ ”نظامِ انشورنس”، اسلام کے ”نظامِ کفالت عامہ”کے برابر ہوسکتا ہے؟!
اس کے علاوہ اور بہت سی روایات وآثار اس بارے میں منقول ہیں، مثلا:
”صَحَّ عَن أبی عبیدۃَ بنِ الجراحِ وَثَلثُ ماءۃِ مِنَ الصحابۃِ أن زَادَھمْ فنی، فأمرھم أبو عبیدۃُ، فأجمعوا أزوادَھم فی مِزْودین وجَعَلَ یقُوتُھم إیاھا علی السواء”. (الملّٰی لابن حزم، کتاب الزکاۃ، إن اللہ فرض علی الأغنیاء ما یکفی الفقراء، ۳۸۲/۴، دارالکتب العلمیۃ)
ترجمہ: ”حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور تین سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق یہ روایت درجہئ صحت کو پہنچتی ہے کہ (ایک مرتبہ) ان کا سامانِ خوردونوش ختم ہونے کے قریب آلگا تو حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ جس جس کے پاس جس قدر ہے، وہ حاضر کرے اور پھر سب کو یکجا کیا اور ان سب میں برابر تقسیم کرکے سب کو ”قوتِ لایموت”کا سامان مہیا کردیا“۔
وَعَنْ أبی موسیٰ رضی اللہ عنہ، قال قال رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إن الأَشْعَرِیین إذا أرَامَلُوا فی الغزوِ، أو قَلّ طعامُ عیالِھمْ بالمدینۃِ، جَمَعُوا مَا کان عندَھم فی ثوبٍ واحدٍ، ثم اقْتَسَمُوہ بَینَھم فی إناءٍ واحدٍ بالسویۃ، فَھمْ مِنِّی وأنا مِنْھم”. (ریاض الصالحین، باب الإیثار والمواساۃ، رقم الحدیث: ۸۶۵، ص:۳۷۱، دارالسلام)

غور کریں اس حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعری قبیلہ والوں کی اس وجہ سے تعریف کی کہ جب کبھی سفر حضر میں ان کے ہاں غلہ کی کمی ہوجاتی تو وہ اپنا غلہ ایک کپڑے میں جمع کردیتے اور پھر برابر تقسیم کرلیتے؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں خوش ہوکر فرمایا: ”وہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں“۔
”المحلی بالآثار”میں علامہ ابن حزمؒ نے لکھا ہے کہ ”اس بات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص بھوکا، ننگا یا ضروریاتِ زندگی سے محروم ہے تو مالدار کے خاص مال میں سے اس کی کفالت کرنا فرض ہے“۔ (المحلی بالآثار، کتاب الزکاۃ: ۳۸۲/۴، دارالکتب العلمیۃ)
”اسلام کا اقتصادی نظام“ میں حضرت مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ تمام ائمہئ مجتہدین کا بھی یہی مسلک ہے (اسلام کا اقتصادی نظام، ص:۶۴، ندوۃ المصنّفین)
خلاصہئ کلام! اسلام اپنی تعلیمات کے ذریعے تعاون وتکافل کا وہ اعلیٰ ترین معیار قائم کرتا ہے، جس کی بلندیوں تک آج مذموم سرمایہ دار اور لادین اشتراکی ذہن رکھنے والے کا تخیل، پرواز ہی نہیں کرسکتا۔ اسلام معاشی کمزوریاں دور کرنے کے لیے اجتماعی کفالتِ عامہ کا جو تصور پیش کرتا ہے اُسے صرف وعظ وتلقین ہی تک نہیں چھوڑا، اور نہ ہی اسے صرف انفرادی اور اجتماعی وجدان کے رحم وکرم کے سپرد کیا ہے؛ بلکہ اسلامی ریاست کے امیرالمؤمنین کو ذمہ دار بنایا ہے، کہ وہ اس نظام کو عملی جامہ پہنائے اوراس کے احیاء میں آنے والی ہررکاوٹ دور کرے۔
اسلامی نظامِ تکافل کی حدود اورطریقہ کار
مندرجہ بالا سطور میں یہ بات تفصیل سے گذرچکی ہے کہ کفالت ِ عامہ بنیادی طور پر اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے، اس کے تحت اب جائزہ اس بات کا لینا ہے کہ یہ نظام، ریاست میں بسنے والے صرف مسلمانوں کے لیے ہوگا یا غیرمسلم بھی اس نظام سے مستفید ہوسکیں گے اور پھر اس نظام کے تحت کس قسم کی ضروریات پوری کی جائیں؟ ہر انسان کے ساتھ کچھ ضرو ریات ایسی ہوتی ہیں، جو انسانیت کی فلاح وبہبود سے متعلق ہوتی ہیں، مثلاً تعلیم، صحت، تزویج، نومولود بچوں کے وظائف، معذور افراد کی دیکھ بھال، مقروضوں کے قرضوں کی ادائیگی وغیرہ۔
اس کے بعد یہ جاننا بھی ضروری ہے، نظامِ کفالت کا سارا بوجھ سرکاری ریاست کے ہی ذمے ہے یا معاشرے کے افراد بھی اس میں شامل ہیں؛ چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ افرادِ امت کے ذمہ بھی کچھ مختلف نوعیت کی ذمہ داریاں لاحق ہوتی ہیں، جن میں کچھ قانونی اور کچھ اخلاقی ذمہ داریاں ہیں، قانونی ذمہ داریوں کو ”صدقاتِ واجبہ”(مثلاً: زکوٰۃ، عشر، صدقہئ فطر، کفارات، اور نذور وغیرہ) اور اخلاقی ذمہ داریوں کو ”انفاق”(مثلاً: صدقاتِ نافلہ، قرضِ حسنہ، ہبہ، عاریت، وصیت، امانت، اوقاف، میراث، اور نفقات وغیرہ) سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
پھر اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہی سرکاری ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے مصارف کہاں سے اور کیسے لائیں گے؟ اس کے لیے کون کون سے ذرائع اختیار کیے جائیں گے؟ تو یہ مصارف اور ذرائع آمدنی اسلام میں متعین ہیں، مثلاً: زکوٰۃ، خمس، متعین شرائط کے ساتھ جائز ٹیکس، اموالِ فاضلہ، خراج، منافع تجارت وغیرہ۔
خلاصہئ کلام! اگر مندرجہ بالا شعبوں کا احیاء ہوجائے اور یہ مصروفِ عمل ہوجائیں تو ممکن ہی نہیں کہ ملک میں دولت کے ذخائر پر محض چند اور مخصوص افراد قابض ہوں، اور گردشِ دولت کا بہاؤ صرف اور صرف سرمایہ کاروں کی طرف ہی ہو، اوراس کے برعکس دوسری طرف غریب طبقہ ظلم کی چکی میں پس رہا ہو، اور بھوک پیاس کی حالت میں ایک ایک لقمے کا محتاج ہو۔
اگر اسلام کا یہ نظامِ کفالت وجود میں ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں غیروں کے بنائے ہوئے نظامِ انشورنس وغیرہ کا سہارا لینا پڑے اور اپنے دین ومذہب کا خون کرنا پڑے؛ البتہ اس کے لیے انتھک محنت کرنا ہوگی، کہ جس طرح آج سے چودہ سو سال قبل یہ نظامِ کامل پوری طرح چمکتا ہوا، انسان کو انسان اور جہالت و نفسانیت میں ڈوبے معاشرے کو ایک صالح اور پُرامن معاشرے میں ڈھال چکا تھا، جس کی حقانیت کا اعتراف اپنے تو اپنے، غیر بھی کرنے پر مجبور ہوگئے، اسلامی اخوت اور بھائی چارے کی ایسی ایسی مثالیں قائم ہوئیں کہ آج تک مغرب معاشرہ اس کی کوئی نظیر پیش نہ کرسکا، تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی نظام اس وقت ”جب کوئی ظاہری ٹھاٹ باٹ نہ تھے ”اپنا اثر قائم کرسکتا ہو اور آج کے دور میں بے اثر ہو!! اگر معاشرے کے چند بااثر افراد مل کر ہمت وکوشش کرلیں اور اپنے فاضل اموال کو مذکورہ بالا مدّات میں خرچ کرلیں اور پھر ان کی دیکھا دیکھی کچھ اور، اور پھر کچھ اور، حتیٰ کہ ہر طرف ایک عام فضا بن جائے تو یقیناً مقصود حاصل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
اسلام کا نظامِ کفالت کن کن افراد کے لیے مفید ہوگا؟
اسلامی ریاست میں بسنے والے چونکہ صرف مسلمان ہی نہیں ہوتے؛ بلکہ غیرمسلم بھی ہوتے ہیں تو ریاست میں مقیم ہر مسلم وغیرمسلم کی کفالت اس نظام کا حصہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد ِ مبارک میں جب ”حیرہ”فتح ہوا تو اس موقع پر ایک معاہدہ لکھا گیا جس میں مسلم اور غیرمسلم دونوں کے لیے کفالت ِ عامہ کا ذکر ہے، ملاحظہ ہو:
”وَجَعَلتُ لھم أیما شیخٍ ضعُفَ عَنِ العَمَلِ أو أصَابَتْہ اٰفۃٌ مِنْ اٰفاتٍ أو غَنِیاً فافتَقَرَ وصَارَ أھلُ دینہ یتَصَدَّقُونَ علیہ، طُرِحَتْ جِزْیۃٌ، وعِیلَ مِنْ بیتِ مالِ المسلمینَ وعِیالُہٗ ما أقامَ بِدارِالھجرۃِ ودارِالإسلام”(کتاب الخراج لأبی یوسف، باب فی الکنائس والبیع والصلبان، ص:۴۴۱، مطبوعۃ سلفیۃ)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: ”میں طے کرتا ہوں کہ اگر ذمیوں میں سے کوئی ضعیف ہو، کام نہ کرسکتا ہو، یا آسمانی یا زمینی آفات میں سے کوئی آفت اس پر آپڑے،یا ان کا کوئی مالدار محتاج ہوجائے اوراس کے اہلِ مذہب اس کو خیرات دینے لگیں، تو ایسے تمام افراد کا جزیہ معاف ہے، اور بیت المال سے ان کی اور ان کے اہلِ خانہ کی کفالت کی جائے گی، جب تک وہ دارالہجرۃ اور دارالاسلام میں اقامت پذیر ہوں“۔
اسی تناظر میں دورِ فاروقی کا بھی ایک واقعہ ملاحظہ کرلیا جائے جسے امام ابویوسفؒ نے اپنی کتاب الخَراج میں نقل کیا ہے:
”قال: وحدَّثَنی عمرُ بنُ نافعٍ عن أبی بکرٍ قال: مَرَّ عمرُ بنُ الخطابِ رضی اللہ عنہ بِبَابِ قومٍ وعلیہ سائلٌ یسأل، شیخٌ کبیرٌ، ضریرُ البصر، فضَرَبَ
عضُدَہ مِنْ خَلْفِہ وقال: مِن أی أھلِ الکتاب أنتَ؟ فقال: یھودی، قال: فما ألجأک إلی ما أریٰ؟ قال: أُسأَلُ الجزیۃَ، والحاجۃَ، والسِنَّ، قال: فأخذ عمرُ بیدِہٖ وذَھبَ بہ إلی منزلِہٖ، فرضَخَ لہ بشیء مِنَ المنزِلِ، ثم أَرْسَلَ إلی خازنِ بیتِ المال، فقال: اُنْظُرْ ھذا ھوَ ضُرباءَہ، واللّٰہ ما أنصفناہ أن أکلنا شبیبتَہ، ثم نخذُلُہ عند الھرَم (إنما الصدقات للفقراء والمساکین) و ”الفقراء”من المسلمین، وھذا من ”المساکین”من أھل الکتاب، ووضع عنہ الجزیۃَ وعن ضُرباءِہ، قال أبوبکر: أنا شھدت ذلک من عُمَرَ ورأیتُ ذٰلک الشیخَ”. (کتاب الخراج لأبی یوسف، فی من یجب علیہ الجزیۃ، ص:۶۲۱، الطبعۃ السلفیۃ القاہرۃ)
”اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک نابینا بوڑھے شخص کو بھیک مانگتے دیکھا، اس سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ یہودی ہے، بھیک مانگنے کا سبب دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ جزیہ کی ادائیگی، معاشی ضروریات اور پیرانہ سالی نے (بھیک مانگنے پر مجبور کردیا) یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے، جو موجود تھا وہ دیا، اور پھر بیت المال کے خزانچی کے پاس فرمان بھیجا کہ یہ اور اس جیسے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو، اللہ کی قسم! ہم اس کے ساتھ ہرگز انصاف نہیں کرسکتے کہ اس کی جوانی کی محنت (بصورتِ جزیہ) تو کھائیں مگر اس کے بڑھاپے میں اسے بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیں، قرآن پاک میں ہے: (إنما الصدقات للفقراء والمساکین) اور میرے نزدیک یہاں ”فقراء”سے مراد مسلمان مفلس ہیں (اور ”مساکین”سے مراد اہل کتاب کے مساکین وفقراء ہیں) اور یہ سائل مساکینِ اہلِ کتاب میں سے ہے، اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جزیہ معاف کردیا“۔
مذکورہ بالا اور اس جیسی اور بہت سی نظائر سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کا نظامِ کفالت بلا تمیز مسلم وکافر سب کے لیے ہے، یہ ایسا ابر ِ رحمت ہے جو باغ اور کوڑے کرکٹ، ہر جگہ برستا ہے۔
کن ضروریات کو پوراکیا جائے گا؟
انسان کی ضروریات دو قسم کی ہیں: اوّل وہ ضروریات جن پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے، اور دوسری وہ ضروریات جو حیاتِ انسانی میں نکھار کا سبب بنتی ہیں:
پہلی قسم کی ضرویات:
ضروریات کی اس قسم میں بنیادی طور پر خوراک، لباس، جائے سکونت، اور ابتدائی وضروری طبی امداد شامل ہے، اسلامی حکومت تمام مذکورہ ضروریات کو پورا کرے گی، مولانا حفظ الرحمان سیوہارویؒ لکھتے ہیں کہ: ”اسلامی حکومت کے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر فرد خواہ وہ امیر ہو یا فقیر، مرد ہو یا عورت کو اس کی استعداد اور حالت کے مطابق ان تین بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے ہر قسم کی سہولیات پہنچائے، وہ تین چیزیں یہ ہیں: (۱) کھانے پینے کی سہولت، کیوں کہ یہ ہر فرد کی زندگی کا ذریعہ ہے، اور اس کے بغیر زندگی کا تصور ہی نہیں۔ (۲) لباس کی ضرورت، خواہ وہ روئی کا ہو یا کتان (قیمتی کپڑا) یا اُون کا۔ (۳) ازدواجی زندگی کی سہولت، کیوں کہ یہ انسانی نسل کی بقاء کے لیے ضروری ہے۔”(اسلام کا اقتصادی نظام، ص:۳۵۱، ندوۃ المصنّفین)

دوسری قسم کی ضروریات:
اس قسم میں وہ ضروریات شامل ہیں، جو انسان کو اخلاقی اعتبار سے اور معاشرتی اعتبار سے مضبوط کرتی ہیں، ان میں تعلیم وتربیت، صحت ودیگر مصائب، غیرشادی شدہ اور شادی شدہ افراد کی کفالت، مقروضوں کے قرضوں کی ادائیگی، ومولود بچوں کے وظائف، اپاہج وناکارہ افراد کی کفالت، سرایوں کی تعمیر، خواتین اسلام کی کفالت وغیرہ وغیرہ۔ (ان تمام صورتوں کے تفصیلی احکامات کتاب الاموال لابی عبید، کتاب الخراج لیحیٰ بن آدم القرشی، سیرۃ عمر بن عبدالعزیز لابن عبدالحکیم، سیرۃ عمر بن عبدالعزیز لابن جوزی، سیرۃ عمر بن الخطاب لابن جوزی، تاریخ الخلفاء للسیوطی، الطبقات الکبریٰ لابن سعد میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں)
کفالت کس حد تک کی جائے گی؟
اسلام کے نظامِ کفالت عامہ کی حدود کیا ہیں؟ تو جاننا چاہیے کہ جوں جو اسلامی ریاست وسیع ہوتی جائے گی اور وسائل بڑھتے جائیں گے، اسی طرح کفالت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا؛ چنانچہ اسلام کا نظامِ تکافل وکفالت ِ عامہ کی وسعت، جامعیت، کاملیت وحدود کا اندازہ لگانے کے لیے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جنھیں خلیفہئ راشد تسلیم کیاگیا ہے، کا نمونہ ہمارے سامنے ہے کہ:
”کَتَبَ عمرُ بنُ عبدِالعزیزِ رَحِمَہ اللہ إلی عَبْدِ الحمیدِ بنِ عبدِالرحمٰنِ، وھو بالعراقِ، ”أن أخرِجْ للناسِ أعطیاتھم”فکتب إلیہ عبدالحمید، ”إنی قد أخرجت للناس أعطیاتھم، وقد بقی فی بیت المال”فکتب إلیہ: ”أن انظر کلَّ من أدان فی غیر سفہ ولا سرف، فاقض عنہ”فکتب إلیہ: ”إنی قد قضیت عنھم، قد بقی فی بیت مال المسلمین مالٌ”فتکب إلیہ: ”أن انظر کل بکرٍ لیس لہ مالٌ، فشاء أن زوجہ، فزوِّجہ واصدق عنہ”فکتب إلیہ: ”إنی قدزوّجتُ کل من وجدتُ، وقد بقی فی بیت مال المسلمین مالٌ”فکتب إلیہ: بعد مخرج ھذا، ”أن انظر من کانت علیہ جزیۃ فضعف عن أرضہ فأسلفہ ما یقوی بہ علیٰ عمل أرضہ، فإنا لا نریدھم لعامٍ ولا لعامین”قال: قال لعمری ھٰذا أو نحوہ”(کتاب الأموال لأبی عبید، الجزء الثالث: صنع عمر بن عبدالعزیز فی تقسیم الفیء: ۳۶۳/۱، دارالھدی النبوی، مصر)
مذکورہ روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ:”حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے گورنر کے نام لکھا کہ وہ لوگوں کے عطایا ان کو ادا کرے، گورنر نے جواب لکھا کہ میں نے عوام کے عطایا انھیں ادا کردئیے ہیں؛ مگر بیت المال کی رقم بچی پڑی ہے (اس کا کیا کروں؟) تو آپؒ نے لکھا کہ ایسے مقروضوں کو تلاش کرو جنھوں نے کسی بغیر نادانی کے کاموں کے، یا بغیر فضول خرچی کے قرض لیا ہو، ان کا قرض ادا کردو، گورنر نے لکھا کہ میں نے ایسے تمام (مقروضوں) کے قرضے ادا کردیے ہیں، پھر بھی مسلمانوں کے بیت المال میں رقم بچ گئی ہے، آپؒ نے لکھا کہ ہر ایسے کنوارے کو تلاش کرو جس کے پاس مال نہ ہو، مگر وہ شادی کرنا چاہتا ہو، اس کی شادی کراؤ، اور اس کا مہر ادا کرو، گورنر نے لکھا کہ میں نے جس کسی کو ایسا پایا، اس کا نکاح کرادیا ہے، مگر پھر بھی بیت المال میں رقم باقی ہے، آپؒ نے لکھا کہ ہر ایسے ذمی (شخص) کو تلاش کرو جس پر جزیہ ہو، اور (مفلسی کے باعث) اپنی زمین آباد کرنے سے عاجز ہو، اسے قرضہ دو تاکہ وہ اپنی زمین (کی آبادکاری) کا کام کرنے کے قابل ہوجائے، کیوں کہ ہم ان (ذمیوں) کو صرف ایک سال یا دو سال کے لیے ہی نہیں رکھنا چاہتے (بلکہ ان سے حسن وسلوک کا طویل رشتہ چاہتے ہیں)“۔
اس روایت سے خوب اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ اسلام کا نظامِ کفالت ِ عامہ کتنا جامع اور وسیع ہے کہ وسائل کی دستیابی کے ساتھ
ساتھ اس کا دائرہ بڑھتا جاتا ہے اور پھیلتا جاتا ہے، اور پھر رعایا کی ضروریات کی تکمیل کا اندازہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ایک ارشاد سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، فرمایا:
”أما وَاللہ! لَءِنْ بَقِیتُ لِأرامِلِ أھلِ العراقِ لأدعنھن لاَ یفْتَقِرْنَ إلیٰ أمیرٍ بعدی“(کتاب الخراج لیحییٰ بن آدم القرشی، باب الرفق بأہل الجزیۃ، رقم الحدیث: ۰۴۲، ص:۳۷، المکتبۃ العلمیۃ)
فرمایا:”اللہ (جل شانہ) کی قسم! اگر میں اہلِ عراق کی بیواؤں کے لیے (اگلے سال تک) زندہ رہ سکا، تو انھیں ایسا (غنی) کردوں گا کہ وہ میرے بعد کسی امیر کی اعانت کی محتاج نہ رہیں گی”۔ اور پھر ان خواہشات کی تکمیل حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دورِ خلافت میں ہوئی جس کی طرف ان کے ایک گورنر یحییٰ بن سعید نے اشارہ کیا ہے، ملاحظہ ہو:
”قال یحییٰ بنُ سعید بعثنی عمرُ بنُ عبدِالعزیز رحمہ اللہ إلی صدقاتِ إفریقیۃَ، فاقْتَضَیتُھا وطَلَبْتُ فقراء، نعطیھا لھم، فلم نجد بھا فقیراً ولم نجد من یأخذھا منی، قد أغنیٰ عمرُ بنُ عبدِالعزیزِ الناسَ، فاشتریتُ بھا رقاباً فأعتقتھم، وولائھم للمسلمین“(سیرۃ عمر بن عبدالعزیز لابن عبدالحکیم: ۵۶/۱)
یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ ”مجھے امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے افریقہ میں صدقات کی وصولی کے لیے بھیجا، میں نے صدقات وصول کیے اور ایسے لوگوں کی تلاش کی جنھیں صدقات دے سکوں؛ مگر ایسا شخص نہ ملا جو صدقہ قبول کرے، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اہل عراق کو (اتنا) غنی کردیا تھا (کہ انھیں صدقہ قبول کرنے کی حاجت ہی نہیں رہی تھی) بالآخر میں نے اس صدقہ سے غلاموں کو خریدکے آزاد کیا“۔
یہ انتہاء ہے اسلام کے نظامِ کفالت ِ عامہ کی، اس حقیقت سے نظریں چُراکر مغرب کے قائم کردہ نظاموں کو قائم کرنا، ان کو رواج دینا بالخصوص ”نظامِ انشورنس“کو اسلام کے اس کامل نظام کے مقابل کھڑا کرنا ظلم نہیں تواور کیا ہے؟ انسان کا بنایا ہوا نظام شاید قانون ساز کی تجوری کو تو بھرسکتا ہو؛ لیکن ہر ہر انسان کے لیے وہ مفید ومعاون ہو، ایسا ہونا محال ہے، اس عالمی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قانونِ الٰہی ہی کارگرد ثابت ہوسکتا ہے، کوئی اور نہیں۔
نظامِ انشورنس کی خامیاں جو شرعاً اسے ناجائز قرار دیتی ہیں ان کی تفصیلات موجودہ دور کے تمام اکابرین نے ذکر کی ہیں، جو اس یہودی ذہنیت کے قائم کردہ نظام کے کھوکھلے پن کو پوری طرح واضح کردیتی ہیں، ملاحظہ ہو: امداد الفتاویٰ:۰۱۳/۳، امداد الاحکام:۰۹۴/۳، کفایت المفتی:۲۸/۸، احسن الفتاویٰ: ۳۲/۷، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (امداد المفتیین): ۷۰۷/۲، نظام الفتاویٰ: ۳۸۱/۱، ۶۸۲/۲، فتاویٰ محمودیہ ”مطبوع جامعہ فاروقیہ”: ۷۸۳/۶۱، فتاویٰ حقانیہ: ۹۱۲/۶، فتاویٰ بینات: ۶۳۱/۴، کتاب الفتاویٰ از مفتی گل حسن صاحب: ۱/۷۲۱، کتاب الفتاویٰ از مولانا سیف اللہ خالد رحمانی صاحب: ۸۵۳/۵، جدید فقہی مسائل:۰۶۲/۱، آپ کے مسائل اور ان کا حل: ۵۵۲/۶، جدید معاملات کے شرعی احکامات: ۱۷۱/۱، جدید مسائل کا شرعی حل، ص:۶۰۱، اسلام اور جدید دور کے مسائل، ص:۳۷۱، اور بیمہئ زندگی از مفتی ولی حسن ٹونکیؒ ومفتی محمد شفیع عثمانیؒ دیوبندی۔
***


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں