میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سورة عصر اور تاریخ کا سفر

سورة عصر اور تاریخ کا سفر

منتظم
جمعرات, ۲۴ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ندیم الرشید
قسم ہے زمانے کی کہ انسان واقعی بڑے نقصان میں ہے‘ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔(سورة عصر)
قارئین مکرم!
خدائے پاک کے کلام لاریب سے سورة عصر کا ترجمہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ فی الحقیقت یہ ایک چھوٹی سی سورة ہے لیکن در حقیقت یہ پورے دین اور حکمت کا خلاصہ ہے۔ امام شافعی علیہ الرحمة نے سچ فرمایا کہ اگر قرآن میں سے صرف ایک سورة نازل کردی جاتی تو سمجھدار بندوں کی ہدایت کے لیے کافی تھی۔
سورة عصر کی ان معطر آیات میں خالق کائنات‘ مالک کون و مکاں‘ رب دو جہاں ، ذات لم یزل اور خدائے بزرگ و بر تر نے زمانے کی قسم کھاکر ارشاد فرمایا کہ انسان واقعی بڑے نقصان میں ہے مگر جو لوگ چار کام کریں گے کامیابی ان کا مقدر ٹھہرے گی۔
وہ چار کام یہ ہیں۔
(1)اپنے دل کے پیمانے کو ایمان سے لبریز کرلیں گے (2)اس ایمان کے تقاضوں کے مطابق اپنی ذات کو سراپا عمل بنادیں گے (3)پھر صرف اپنی ہی ذات تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ امت کے اجتماعی مفاد کے پیش نظر اپنے قول ‘ فعل اور عمل سے دوسروں کو بھی حق کی طرف بلائیں گے (4)اس دوران اگر دوسروں کو سچائی کی راہ دکھلانے کی پاداش میں ان پر مصائب‘ مسائل‘ پریشانیاں اور دشواریاں آئیں لیکن انہوں نے صبر کیا‘ تو پھر یہ لوگ تاریخ کے کسی بھی دور سے گزر رہے ہوں گے زمانے کے کسی بھی موڑ پر کھڑے ہوں گے نسل انسانی کی تاریخ کے پورے سفر میں بس یہی لوگ کامیاب ہوں گے، باقی سب نقصان اٹھانے والے ہوں گے۔
تہذیب کوئی بھی ہو، تمدن کوئی بھی ہو، ثقافت کوئی بھی ہو، معاشرت کوئی بھی‘ روایت کوئی بھی ہو اور کلچر کوئی بھی ہو، چاہے انبیاءاور صحابہ کا دور ہو، چاہے تابعین اور تبع تابعین کا دور ہو، چاہے اولیاءفقہاءاور درویش کا دور ہو یا پھر مغرب کی اصطلاح میں کوئی اینشینٹ ورلڈ میں ہو ،کوئی کلاسیکل میں ہو، کوئی مڈل ایجز میں ہو‘ کوئی ڈارک ایج میں ہو‘ اپنے سال کے زمانے میں ہو، اینلائٹمنٹ کے دور میں ہو ، دی ایج آف ریولوشنز میں ہو، انڈسٹریل ریولوشن کے عہد میں ہو ، کولونائزیشن کے وقت میں ہو یا ریشنل‘ لبرل‘ پروگریسو اور ماڈرن ایج میں ہو ،جس نے بھی مشکلات کے باوجود ایمان‘ عمل صالح‘ تاکید حق اور تلقین صبر کے تقاضوں کو پورا کیا، تاریخ اور زیست کے سفر میں وہ کامیاب ٹھہرا ۔
وسط ایشیاءمیں مدارس اور مساجد 70سال تک بند رہے۔ عربی زبان اور رسم الخط ختم ہوگئے لیکن 90کے عشرے میں جونہی پابندیاں کچھ کم ہوئیں فوراً ہی پانچ ہزار مساجد تعمیر ہوگئیں اور ہر طرف اللہ اکبر کی صدائیں گونجنے لگیں۔ 1857ءکے خونیں ہنگامے میں 75ہزار علماءکو قتل کیا گیا۔ ہزاروں مساجد بند کردی گئیں ۔ دہلی کی جامع مسجد کو اصطبل میں تبدیل کردیا گیا لیکن ان مصائب کو جھیلنے اور ان پر صبر کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب ظلم کی رات ڈھلی تو پورے برصغیر میں ہزاروں لاکھوں مدارس اور مساجد کا جال بچھ گیا۔تاریخ کے سفرمیں کون کامیاب ہوا؟ وہ غاصب حکمران جنہوں نے مسجد کو اصطبل میں تبدیل کردیا تھا یا وہ علماءجن کے وجود کو بارود سے اڑا دیا گیا تاکہ مسجدوں کو آباد کرنے والے نہ رہیں۔ لیکن کوئی ایمان‘ عمل صالح‘ تاکید حق اور صبر کے تقاضوں کو فراموش کردیتا ہے تو پھر نقصان اور ناکامی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔
اندلس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جو مسلمان ان چار اوصاف پر پوری طرح عمل پیرا تھے وہ سات ہزار کے لشکر کے ساتھ راڈرک کے ایک لاکھ لشکر پر غالب آگئے اور فتح کرتے ہوئے جنوبی فرانس تک جا پہنچے لیکن جب مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو حق کی طرف بلانے کی بجائے لڑنے لگے۔ صبر کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے لگے اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو چھوڑ کر”زریاب موسیقار“ کے طریقوں کے مطابق پہننے ،اوڑھنے ،کھانے پینے اور مجلسوں کے آداب بجالانے لگے تو پھر اہل اندلس نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگئے، غالب قوم مغلوب ہوکر غیر مسلموں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن گئی جو آقا تھے وہ اپنے غلاموں سے رسوا ہوگئے۔
یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے جس نے سورة عصر کے چار تقاضوں کو پورا کردیا وہ تاریخ کے سفر میں کامیاب رہا اور جس نے ان تقاضوں کو پورا نہیں کیا وہ ناکام ہوگیا۔ آخر تاریخ کے سفر میں کامیابی اور ناکامی کی اصل وجہ کیا ہے؟
دراصل کسی بھی سفر میں کامیابی کے لیے دوران سفر دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ پہلی چیز یہ کہ آپ جس راستے پر سفر کررہے ہوں اس راستے پر آپ کو منزل کی طرف صحیح رہنمائی مل رہی ہو۔ دوسری چیز یہ کہ دوران سفر روشنی کا بھی انتظام ہو۔ ہم موٹروے پر سفر کررہے ہوں تو مختلف سائن بورڈ‘ سنگ میل اور اشارے ہماری رہنمائی کررہے ہوتے ہیں اور اگر رات کا سفر ہوتو گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس بھی روشن ہوتی ہیں۔
کیونکہ راستے کی درست رہنمائی کے بغیر اور روشنی کے بغیر اگر ہم سفر کریں گے تو نقصان ہی اٹھائیں گے یاتو بھٹک جائیں گے یا کسی حادثے کا شکار ہوجائیں گے۔ بالکل یہی بات ہے جو آدمی ایمان باللہ ‘ عمل صالح ‘ تاکید حق اور صبر کا زادراہ لے کر زیست کے سفر پر نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود اسے راستے کی رہنمائی بھی عطا فرماتے ہیں۔ جیسا کہ سورة تغابن میں ہے”اور جو آدمی اللہ پر ایمان لائے گا تو وہ ضرور اس کے دل کی رہنمائی کرے گا“ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ اس کے لیے روشنی کا بھی انتظام فرماتے ہیں۔ سورة انعام میں ہے”اور ہم نے اس کے لیے روشنی پیدا کردی جس کے ساتھ وہ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہے۔“ ظاہر ہے جس شخص کو اللہ کی طرف سے رہنمائی بھی مل رہی ہو اور روشنی بھی مل رہی ہو وہ زندگی یا تاریخ کے سفر میں کیسے نقصان اٹھا سکتا ہے؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں