میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فطرت سے دوری کے ماحولیاتی اثرات

فطرت سے دوری کے ماحولیاتی اثرات

ویب ڈیسک
جمعه, ۵ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

مولانا ندیم الرشید
گزشتہ جمعہ کے خطبہ کی دوسری نشست میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ فطرت سے دور ہونے کے ماحولیاتی اثرات کیا کچھ ہیںاور اس کے ساتھ ساتھ کیا معاشرتی اثرات رونما ہوتے ہیں۔
معاشرتی اثرات میں سب سے پہلے تو گھر کاماحول ہے ۔فطرت سے قربت کے نتیجے میں جب انسا ن خدا کے قریب ہوتاہے تو ا پنے اہل خانہ کے ساتھ تعلقات ،ان کی دیکھ بھال،ان کے لیے وقت نکالنا،اور بچوںکی تربیت کرنا، اس کے لیے بہت آسان ہوتاہے لیکن فطری زندگی سے دورہوکر جب انسان مصنوعی زندگی کی طرف آتاہے تو مادہ پرستی کی دوڑ میں شامل ہوجاتاہے ۔مال میں اضافہ ،ترقی پر ترقی اور لذات دنیامیں انہماک اس کا مقصد ِ حیات بن جاتے ہیں۔حالانکہ رب نے بندے کو اپنی عبادت کے لیے پیداکیاہے۔لیکن مال میں اضافے کی دوڑ بندے کو اپنے بیوی بچوںاور ماں باپ کے لیے وقت نکالنے سے محروم کردیتی ہے ۔انسان کا سارا وقت مارکیٹ میں گزرجاتاہے ا ور گھر آکر بھی وہ فائلوں ، ای میلز،واٹس ایپ اور موبائل کے ذریعے گھر سے باہر ہوتاہے ۔ایک عورت اور مرد جب دونوں ہی نوکری کے لیے باہر نکل جاتے ہیں، تاکہ اپنی مصنوعی خواہشات کو پوراکرنے کے لیے وسائل حاصل کرسکیںتو اس کے نتیجے میں معاشرے کا کیا حال ہوتاہے ۔چین میں اس کا بخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے ۔چین میں گزشتہ بیس برسوں میں عورتوں اور مردوں نے گھروں کو چھوڑکر دفتروں،کارخانوں اور مارکیٹوں کو آباد کیا لیکن اس کے نتیجے میں گھر ختم ہوگئے ،بلکہ گھرانے ختم ہوگئے ۔مصنوعی زندگی کا اثر اگر عبادات کے حوالے سے دیکھاجائے تو ہمارے بڑے ،بوڑھے اور بزرگ ہفتے میں دور وزے رکھاکرتے تھے ،پیر اور جمعرات کے دن کا ۔اور مہینے میں ایام بیض کے تین روزے رکھاکرتے تھے۔لیکن آج جب زبردست مادی ترقی ہے، زندگی پہلے سے زیادہ آسان اور سہولیات سے بھری ہوئی ہے ۔آج جب انسان چار چار نفلی روزے بھی رکھ سکتاہے لیکن ہمارے گھروں میں کوئی آدمی بھی ایسا نہیں جو ہفتے میں دوروزے اور مہینے کے تین روزے تسلسل کے ساتھ رکھتاہو۔فطرت سے دوری نے ہم سے خالص دودھ چھین لیاہے ۔ہم لوگ سگریٹ پینے کے عادی ہیں، دودھ پینے کے عادی نہیں ہیں ۔شاید ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے جسم کو کیلشیم کی نہیں کینسر کی ضرورت ہے ۔ہم سردیوں میں ٹھنڈی آئس کریم کھاتے ہیں اور گرمیوں میں گیزرکے گرم پانی سے نہاتے ہیں۔
اسی طرح موسم کی صورت ِ حال ہے ،جدید مادی سہولتوں کے حصول نے موسموں پر زبردست اثرات مرتب کیے ہیں۔ہم درخت کا ٹ رہے ہیں جو گرمی کی شدت کو سب سے زیادہ کم کرتے ہیںاو راس کی جگہ اے سی لگاتے جارہے ہیں،وہ اے سی جو دیوار کی ایک جانب زبردست ٹھنڈک پیداکرتے ہیںتو دوسری جانب شدید گرمی پھینکتے ہیں۔اے سی میں جو توانائی استعمال ہورہی ہے، وہ توانائی اس کرہ ¿ ارض کے اندر کتنی گرمی پیدا کررہی ہے ۔اس گرمی کے نتیجے میں کرہ ¿ ارض کا کیا حال ہورہاہے ۔مالدیپ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ماحولیاتی مسائل کے نتیجے میں جو صورت ِ حال جنم لے رہی ہے انتہائی خطرناک ہے ۔عالمی درجہ¿ حرارت میں اضافہ ہورہاہے ، گلیشیئر پگھل رہے ہیں،سمندروں کی سطح بلند ہورہی ہے ۔کروڑوں لو گ اس صدی کے اختتام تک اے سی کی پیداکردہ گرمی کے نتیجے میں بے گھر ہوجائیں گے ۔بے شمار علاقے پانی میں ڈوب جائیں گے ۔حتی ٰکہ مالدیپ جیساملک ، سائنس دانوں کا خیال ہے کہ پانی میںڈوب جائے گا۔اسی لیے مالدیپ آج کل آسٹریلیا میں زمین کا ٹکڑاخریدنے کے لیے مذاکرات کر رہاہے ،تاکہ اس براعظم کو محفوظ براعظم میں منتقل کیا جاسکے۔
اسی طرح فریزر کا غلط استعمال ہے جو ہم ہرسال عید کے موقع پر کرتے ہیں۔فریج اور فریزر کی گیس سے اوزون کو تو جو نقصان پہنچتاہے ، وہ بھی کچھ کم نہیں۔بقر عید کے موقع پر ہم پور اگوشت فریز کرلیتے ہیں ۔ غریبوں فقیروں،رشتہ داروں میں تقسیم نہیں کرتے۔ حالانکہ میں اس نبی کا امتی ہوں جن کا لقب قاسم ہے لیکن میں اپنے نبی کی سنت ترک کرکے فریج میں چھ ماہ سے رکھا ہوازہریلا گوشت کھارہاہوں، مجھے فطرت سے محبت کیسے ہوسکتی ہے۔کیونکہ میری جدید زندگی کار کے بغیرنامکمل ہے جس کے دھوئیں سے پھیلنے والی آلودگی اوراس آلودگی سے تیز اوردیگرمہلک امراض میںمبتلا ہونے والوں کا کوئی ٹھکانا نہیں۔
میں فطرت کا قرب کیسے حاصل کروں ،کیونکہ ہوائی جہازکے بغیر میں اپنے ملکوں ملکوں پھیلے ہوئے کاروبار کی نگرانی نہیں کرسکتا۔وہ ہوائی جہاز جواپنی ایک پرواز میں دس ہزارکاروں کاایندھن استعمال کرکے دس ہزار کاروں جتنی آلودگی پھیلاتاہے صرف اپنی ایک پرواز میں ۔سوال یہ ہے اگرہمیں فطرت سے دوری ہی پسند ہے توپھرآنے والی نسلوں کا کیا بنے گا۔جب زمین پرنہ پانی ہوگا، نہ سبزہ ہوگا، ہرطرف شدید گرمی ،تپتے صحرا اور اڑتی ہوئی ریت ہوگی؟ کیا اس دنیا میں جینے کا حق صرف مجھے ہے۔ آنے والی نسلیں جینے کا کوئی حق نہیں رکھتیں۔ اگرایسا ہی ہے تو مجھے سوچناچاہیے کہ میں کیاانسان ہوں۔ اورانسان بھی ہوں یا انسان کے نام پرکچھ اور ہوں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں