جرأت رجحان ساز خبروں کا مرکز ہے۔جرأت کا تصورِ صحافت روایتی ہے اور نہ لے پالک ۔ یہ اپنی نظری بنیادوں کے ساتھ پابند ہے۔ آج پاکستان کا حقیقی تصور ایک خوابِ پریشاں کی طرح بکھر رہا ہے۔ نظریۂ پاکستان کے تمام تقاضے ارذل سیاست کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ طاقت کے مختلف مراکز ، مفادات کے تحفظ کی کشاکش میں اقتدار پر گرفت کے بلاواسطہ اور بالواسطہ طریقے تلاش کررہے ہیں۔قوم کی تاریخی بنیادیں، تہذیبی مزاج اور نظریاتی تشخص سب کچھ داؤ پر ہے۔ ایسے میں صحافت نے بھی اپنی قینچلی بدل لی ہے۔ یہ کبھی مولانا ظفرعلی خان کی آن بان رکھتی تھی اب یہ مادی معاشرے میں نام مقام بنانے کا محض ایک ذریعہ ،حیلہ ہے۔صحافت کبھی صداقت کا متن اور زندگی کا جتن تھی، اب یہ کتاب صداقت کے حاشیے پر اپنی ہی بے آبروئی کی گھٹن ہے۔ اسے کب سے طاقت وروں نے اپنی باندی بنالیا۔ کہیں یہ دولت کی کنیز ہے تو کہیں طاقت کی پچارن۔ کہیںا سے اختیارات کی فضاء راس آتی ہے تو کہیں یہ تعلقات کی امر بیل میں گھٹتی گھِرتی رہتی ہے۔ اس خودشکن فضا میں پہلے سے زیادہ سچی اور حقیقی صحافت کی ضرورت ہے۔ مگر یہ راہ پرخطر ہے اور پرآزمائش بھی۔ جرأت ایسی ہی صحافت کی گرم دم جستجو ہے۔