میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایک اچھے شہری کی موت

ایک اچھے شہری کی موت

جرات ڈیسک
هفته, ۶ اپریل ۲۰۲۴

شیئر کریں

عالمی ادب سے منتخب افسانہ

افسانہ نگار: محمد یحییٰ (اومان)
ترجمہ: محمد افتخار شفیع
……..

اچھا خاصا صحت مندآدمی تھا،گزشتہ رات چہرے سے خاصا پُرسکون دکھائی دے رہا تھا،حسب ِ معمول اہلِ خانہ سے ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتا رہا اورپھرسوگیا۔جب صبح ہوئی تو بستر سے اٹھ نہ سکا،گھروالوں نے آکر جگانے کی کوشش کی لیکن وہ بالکل بے حس وحرکت ہوچکا تھا۔تب جاکراندازہ ہوا کہ یہ توابدی نیند سو چکاہے۔چاشت کے وقت تک اس کی موت کی خبر پورے شہرمیں پھیل چکی تھی۔اُن سب نے مل کر اسے غسل دیا،کفن دے کر خوشبولگائی اور تدفین کے لیے اس کا تابوت لے کرقبرستان کی طرف چل پڑے۔سب نے مِل کر اسے دفن کیا اور روتے بسورتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کوواپس چلے گئے۔
جب رات ہوئی تو اس نے قبرمیں جھرجھری سی لی او رایک دفعہ پھرزندہ ہوگیا۔اس نے بڑی احتیاط سے اِدھراُدھر نگاہ دوڑائی،چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔اُس نے گھبرا کر اپنے بدن کو کفن سے نجات دلائی اور اپنی قبرسے باہر نکل آیا۔اب اس کا رخ قبرستان کے قریب ہی موجود شہری آبادی کی طرف تھا۔اس نے چلتے چلتے اپنے وجودپرنظرڈالی تو ایک دم چونک ساگیا،وہ بالکل مادرزاد برہنہ تھا،جیسے ابھی اپنی ماں کے شکم سے پیداہوا ہے۔وہ بڑے آرام سے آہستہ آہستہ چلتا ہوا گھر پہنچا اور اپنے کمرے میں آکرسوگیا۔صبح ہوئی تو آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔غسل خانے میں ٹھنڈے پانی کی دوبالٹیاں رکھی تھیں، اس نے جلدی سے انھیں اپنے بدن پرانڈیل لیا۔آج بڑے اہتمام سے اس نے سفیدلباس پہنا اورسرپر عربوں والا مخصوص سرخ دھاری دار اسکارف رکھ کے اس پر سبزرنگ کی گول پٹی جمادی۔
وہ روزانہ کے معمول کے مطابق آج بھی صبح سویرے ہی تیارہوگیاتھا۔ اس نے ہلکا پھلکا سا ناشتہ کیا اور شہر کی بڑی شاہراہ کے بارونق چوک کی طرف چل دیا، اسے دفتر کی طرف جانے والی کمپنی کی بس کاانتظار کرناتھا۔بس اپنے روزانہ کے معمول کے مطابق آن کررکی تو وہ اس پر سوارہوگیا۔بس میں تقریباََ تمام ملازمین ہی سوار تھے،زیادہ تر اپنی اپنی سیٹوں پر اونگھ رہے تھے۔کچھ لوگوں کے خراٹوں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔اس کی سیٹ کھڑکی کے پاس تھی،وہ آرام سے جاکراس پرٹک گیا۔ باہر سے آنے والی ٹھنڈی ہوا اس کے وجودسے ٹکڑائی تواس پر بھی غنودگی سی طاری ہوگئی۔کچھ دیرکے بعدبس نے کمپنی کے دفتر کے صدردروازے پر پہنچ کربریک لگائی۔بس میں سوارلوگ ایک ایک کرکے نیچے اترنے لگے۔بس ڈرائیورنے دیکھاکہ تمام لوگ بس سے اترگئے ہیں لیکن ایک کاہل آدمی ابھی تک سیٹ سے ٹیک لگائے ہوئے خواب ِخرگوش کے مزے لے رہاہے۔اس نے قریب جاکراسے جگانے کے لیے آواز دی لیکن اس کی کوشش بے سود گئی۔اس نے آہستگی سے اس کا کندھاہلایا لیکن یہ جان کر اسے حیرت کا جھٹکا لگا کہ بس پربیٹھا آدمی مرچکاتھا۔دوسرے ملازمین اردگردجمع ہوگئے۔سب نے مل کراس کی لاش کو بس سے اتارا،اسے اندرلے گئے اور نہلا دھلا کرخوشبولگائی۔نمازِجنارہ پڑھنے کے بعداس کاتابوت اٹھاکر قبرستان کی طرف چل پڑے،انھوں نے مل کراس کی تدفین کی اور ایک دفعہ پھرگھرکولوٹ گئے۔
مرنے والا اصل میں بڑا کایاں شخص تھا،اس نے جان لیا تھا کہ اس کا پہلی دفعہ مرنا ایک سنگین غلطی تھی۔ ایک اچھے شہری کودفتری امور کی انجام دہی کے دوران ہی موت آنی چاہیے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں