میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
غزوہ احد، پس منظر، حقائق اور نتائج

غزوہ احد، پس منظر، حقائق اور نتائج

جرات ڈیسک
جمعه, ۵ مئی ۲۰۲۳

شیئر کریں

مولانا محمد الیاس گھمن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3 ہجری 15 شوال المکرم میں ”غزوہ احد“پیش آیا۔غزوہ بدر میں قریش مکہ کو شکست ہوئی تو بدلہ لینے کے لیے فیصلہ کن اور منظم جنگ کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہو گئے، افرادی اور معاشی قوت کو جمع کرنے کے لیے مسلسل محنت شروع کر دی۔بدر میں مسلمان جس قافلے کے لیے نکلے تھے وہ ابوسفیان کی معیت میں بچ نکلا اور مکہ پہنچ گیا یہ قافلہ جو مال تجارت لے کر آیا تھا قریش مکہ کو اس میں بہت نفع ہوا انہوں نے اس بات پر مشورہ کیا کہ جتنا نفع ہوگا وہ سب اس جنگ میں لگائیں گے۔
قریش مکہ کی تیاریاں
مشورہ کی مخصوص جگہ ”دارالندوہ“ میں اجلاس ہوا اور یہ طے ہوا کہ ارد گرد کے قبائل کو ساتھ ملایا جائے تاکہ فیصلہ کن جنگ ہو،خوب تیاری کی گئی۔ 3000 افراد پر مشتمل لشکر تیار ہوا جن میں سات سو زرہ پوش (جنگی لباس جو لوہے کا بنا ہوا ہوتا ہے) 3000 اونٹ، 200 گھوڑے شامل تھے۔ قریش اپنے ساتھ 15 خواتین بھی لائے تھے اور ان کو لانے کا مقصد یہ تھا کہ یہ عورتیں جنگی اشعار پڑھ کر اپنے نوجوانوں کو جنگ کے لیے بھڑکائیں گی۔کچھ اونٹ کھانے کے لیے کچھ باربرداری کے لیے جبکہ کچھ اونٹ اس نیت سے لائے تھے کہ واپسی پر مسلمانوں کے ا موال چھین کر ان پر لاد کر لے جائیں گے۔ 5 شوال المکرم کو قریشی لوگ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے۔
حضرت عباس کا قاصد
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ مکہ میں موجود تھے، انہوں نے ایک تیز رفتار قاصد کو خط دے کر بھیجا کہ وہ جلدی پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے عزائم سے آگاہ کرے،وہ قاصد خفیہ راستوں سے ہوتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ منورہ پہنچا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر قریش کے حالات معلوم کرنے کے لیے دو انصاری صحابی حضرت انس اور حضرت مونس رضی اللہ عنہما کو بھیجا اور ان کے ساتھ حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کو لشکر کے افراد کی تعداد معلوم کرنے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے واپس آ کر اطلاع دی کہ ان کی تعداد 3ہزار کے لگ بھگ ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا خواب مبارک
دوسرے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنا ایک خواب سنایا کہ ایک مضبوط قلعہ ہے، اس میں ایک گائے ہے، میرے ہاتھ میں تلوار ہے، میں نے اپنی تلوار کو ہلایا تو اس کا آگے کا حصہ ٹوٹ گیا،پھر میں نے دوبارہ ہلایا تو وہ صحت مند اور اچھی بھلی ہو گئی۔
خواب کی تعبیر
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس خواب کی تعبیر یہ بیان فرمائی کہ قلعہ سے مراد مدینہ ہے، گائے سے مراد مسلمانوں کا لشکر ہے اس کے ایک حصہ گرنے سے مراد مسلمانوں کی شہادت ہے۔تلوار کا ہلنا جنگ سے کنایہ ہے۔ اگلے حصے کا گرنا اس سے مراد جنگ کے حالات خراب ہونا/نقصان ہونا ہے،پھر گائے کا ٹھیک ہونا اس سے مراد ہے جنگ کے حالات کا دوبارہ ٹھیک ہوناہے۔
میدان جنگ کے بارے میں مشاورت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ فرمایا کہ مدینہ سے باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے یا مدینہ کے اندر رہ کر؟بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رائے یہ تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر ہی مقابلہ کیا جائے جبکہ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم(اکثر وہ حضرات تھے جو غزوہ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے)کی رائے یہ تھی کہ باہر نکل کر جنگ لڑی جائے۔ مدینہ کے اندر رہ کر لڑنے سے کفار قریش ہمیں کمزور سمجھیں گے۔اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہی خواہش تھی، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے قسم اٹھائی:اس اللہ کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی، میں اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک مدینہ سے باہر نکل کر ان کو مار نہ ڈالوں۔
منافقین کی رائے
اس موقع پر رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبَیّ ابن سلول بھی اپنے ساتھ 300 افراد لے کر اپنے غلط مقاصد حاصل کرنے کی غرض سے شریک ہوا۔ اس کی رائے یہ تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر جنگ کی جائے کیونکہ یہ مدینہ کی تاریخ ہے کہ مدینہ کے رہنے والوں نے جب بھی اندر رہ کر جنگ لڑی ہے ان کو فتح ملی ہے۔
اُحد کی طرف روانگی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن عصر کے بعد فیصلہ فرمایا کہ مدینہ سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے اور جنگ کی تیاری فرمائی چنانچہ1000 کا لشکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مدینہ سے اُحُد کی طرف نکلا۔ جس میں صرف2گھوڑے تھے، ایک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبکہ دوسرا حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ کا قائم مقام حاکم بنایا۔لشکر ِاسلام مغرب سے پہلے مدینہ سے نکلا، شیخین کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔
منافقین کی غداری
اس موقع پر عبداللہ بن اُبَیّ منافق اپنے ساتھ 300 افراد لے کر یہ کہتے ہوئے واپس چلا گیا کہ جنگ ہمارے مشورے کے مطابق نہیں ہے، اس لیے ہم اس میں اپنا نقصان نہیں کرنا چاہتے۔
صف بندی اور دو بدو لڑائی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صف بندی فرمائی۔سامنے مدینہ پشت کی جانب اُحُد پہاڑ تھا، محفوظ طریقہ پر صفیں بنائی گئیں۔ مشرکین کی طرف سے سب سے پہلے مبارزت(میدان میں مقابلے کے لیے اپنے فریق کو للکار کرلڑنے کی دعوت دینا)کرتے ہوئے میدان میں طلحہ بن ابی طلحہ اترا،مقابلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ میدان میں اترے اور اس کو قتل کیا، اس کے بعد عثمان بن ابی طلحہ میدان میں آیا تو اس کے مقابلے میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ میدان میں اترے اور اسے قتل کیا پھر ابو سعد بن ابی طلحہ آیا تو اس کے مقابلے میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ میدان میں اترے اور اسے قتل کر دیاپھر اس کے بعد عمومی جنگ شروع ہوئی اور افراتفری مچ گئی۔
جبلِ رماۃ پر مقرر دستہ
اُحدپہاڑ کی ایک طرف دَرَّہ ہے جو جبلِ رماۃ کے نام سے معروف ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ پچاس تیر اندازوں کو مقرر فرمایا اور تاکید کی کہ جب تک میرا حکم نہ ہو آپ لوگوں نے یہاں سے ہٹنا نہیں، چاہے فتح ہو یا شکست۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انتہائی جانثاری اور جوانمردی کے ساتھ کفار سے لڑتے رہے اور مشرکین بھاگنے پر مجبور ہوگئے کچھ مسلمان ان کو بھگا رہے تھے اور کچھ مال غنیمت اکٹھا کر رہے تھے۔دَرَّہ پر مقرر تیر انداز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اکثر نیچے اتر کر اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر غنیمت اکٹھی کرنے لگے۔ دوسری طرف خالد بن ولید جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے درہ خالی دیکھا اور اچانک حملہ کردیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔
صحابہ کرام کا درّے سے نیچے اترنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ جب تک میں نہ کہوں آپ نے یہاں سے نہیں ہلنا چاہے، فتح ہو یا شکست۔اس کے باوجود وہ نیچے کیوں اترے؟ پہلی بات یہ ہے کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجتہاد تھا اور اس میں خطا سرزد ہوگئی۔ اللہ رب العزت نے ان کی اس اجتہادی خطا کو معاف فرما دیا ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ان پر اعتراض کریں۔قرآن کریم میں ہے:دو فوجوں کی باہمی لڑائی(غزوہ اُحد) والے دن جو لوگ تم میں سے پیچھے ہٹ گئے، شیطان نے انہیں اُن کے بعض (پہلے والے)گناہوں کی وجہ سے بہکایا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اس کی بھی معافی دے دی۔ بے شک اللہ تعالیٰ کی ذات بخشنے والی اور بردبار ہے۔(سورۃ آل عمران، رقم الآیۃ: 155)
فائدہ:ہمارا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین محفوظ ہیں۔ محفوظ ہونے کا معنی یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک سے بشری تقاضوں کے مطابق کبھی کوئی گناہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان کے ذمے میں وہ گناہ باقی نہیں رہنے دیتے یعنی دنیا میں اس گناہ سے معافی اور اس گناہ کی وجہ سے ملنے والے اُخروی عذاب سے ان کو محفوظ فرما لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے معاف فرما دینے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر الزام درست نہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنگ کی ابتداء سے مورچے پرمامور تھے، انہیں میدان میں اتر کر لڑائی کا موقع ہی نہ ملا، اگرچہ مورچہ سنبھالنے کا اور پہرے کا ثواب ملا ہے لیکن انہوں نے یہ سمجھا کہ ہمیں میدان میں اتر کر بہادری کے ساتھ لڑنے اور کفار کو بھگانے والی شجاعت کا ثواب نہیں مل رہا۔ اب جب انہیں دشمن کے بھاگ جانے کا اور لشکر اسلام کے فتح یاب ہونے کا یقین ہو ا تو وہ نیچے اتر آئے تاکہ دونوں اجر حاصل کر سکیں۔ مورچہ پر پہرے دینے والا بھی اور میدان میں جہاد و قتال کرنے والا بھی۔جب کفار میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس مبارک جذبے کے تحت درے سے نیچے اترے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ مال غنیمت جمع کرنا شروع کر دیا، اس بابرکت کام میں ان کی مدد کرنے لگے۔اس وجہ سے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید درست نہیں۔
صحابہ کرام سے اللہ کی بے پناہ محبت
یہ حضرات قُربِ خدا اور قُربِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مقام پر فائز تھے کہ جہاں ان کی صورتاً لغزش پر بھی محبوبانہ عتاب نازل ہوا۔ لیکن جہاں یہ محبوبانہ عتاب نازل ہوا اسی کے متصل بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کا اعلان بھی کر دیا اور محبت کی شدت اور انتہاء کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ تسلی پر اکتفا نہ فرمایا بلکہ فوراً ساتھ دوسری مرتبہ بھی ازراہ شفقت مزید فرمایا کہ بخش دیا ہے۔ اور یہ وہاں ہوتا ہے جہاں محبت بہت زیادہ ہو تاکہ کمال محبت کا اظہار ہو جائے۔
فائدہ:یہ واقعہ تکوینی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کرایا گیا تاکہ خدا تعالیٰ کی ان سے محبت سب کے سامنے آشکار ہو سکے،ان سے محبت خداوندی کا اظہار ان کے لیے اعزاز ہے، ان پر الزام نہیں۔

جنگ ہاتھ سے نکل گئی
خالد بن ولید جو کہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے شدید حملہ کر دیا جس کے بعد مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا۔ صرف دس افراد درہ پر باقی بچے تھے اور گیارہویں حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ تھے سب شہید ہو گئے۔ اب جیتی ہوئی جنگ بظاہر ہاتھ سے نکل گئی۔اس افراتفری کی شدید کیفیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے چند مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے۔
حضرت حمزہ کی شہادت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب بھی اس جنگ میں شریک تھے،آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اَسَدُ اللہِ وَاَسَدُ رَسُوْلِہ(یعنی اللہ اور اس کے رسول کا شیر)قرار دیا تھا۔غزوہ بدر میں جبیر بن مطعم کے چچا طُعَیْمہ بن عدی کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا جبیر کو اس کا بہت صدمہ تھا۔ انتقام کے طور پر جبیر نے اپنے غلام وحشی بن حرب سے کہا: اگر تو میرے چچا کے قاتل حمزہ (رضی اللہ عنہ)کو قتل کرے تو تو آزاد ہے چنانچہ جب کفارقریش غزوہ احد کے لیے مکہ سے روانہ ہوئے تو وحشی بھی ان کے ہمراہ چل پڑے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جنگ اُحد میں بڑی جوانمردی سے لڑ رہے تھے، جب جنگ اُحد شروع ہوئی تو کفار کی طرف سے سباع بن عبدالعزیٰ میدان میں للکارتا ہوا آیا تو اس کے مقابلہ کے لیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے اترے۔ اے سباع!اے عورتوں کے ختنے کرنے والی عورت کے بیٹے! تو اللہ اور اس کے رسول سے مقابلہ کرے گا پھر اس پر تلوار سے وار کیا اور ایک ہی وار سے اسے واصل جہنم کردیا۔ وحشی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی تاک میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا ہوا تھا جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس کے قریب سے گزرے تو اس نے پیچھے کی طرف سے حملہ کردیا اور نیزہ مارا جو کہ ناف کی طرف سے پار ہو گیا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس حملے کی شدت کی وجہ سے تھوڑی ہی دیر بعد شہید ہوگئے۔
آپ ﷺ کا دندان مبارک شہید
عُتبہ بن ابی وقاص جو کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے۔ انہوں نے اس افرا تفری کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کردیا اور پتھر پھینکا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید اور نچلا ہونٹ مبارک ہو زخمی ہو گیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جتنا حریص اپنے بھائی کے قتل کا ہوں اتنا کسی کے قتل کا نہیں۔
آپ ﷺ کے رخسار اور سر مبارک زخمی:
عبداللہ بن قَمِءَہ نے بھی رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کیا یہ قریش کا مشہور پہلوان تھا اس نے اتنی شدت سے حملہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رُخسار مبارک زخمی ہوگئے اور خَود(لوہے کی بنی ہوئی جنگی ٹوپی) کے دو حلقے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک چہرے میں گھس گئے۔عبد اللہ بن شہاب (جو بعد میں مسلمان ہو گئے) نے پتھر مارا جس سے پیشانی مبارک زخمی ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں سے خون بہنے لگا جس کو حضرت مالک بن سنان رضی اللہ عنہ(جو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے والد ہیں) نے چوس کر نگل لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کے خون میں میرا خون بھی شامل ہو جائے اس پر جہنم کی آگ اثر نہیں کرے گی۔
تیر چلاؤ!میرے ماں باپ قربان
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بڑے ماہر تیر انداز تھے۔ اُحُد کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش سے تیر نکال کر ان کو دیے اور فرمایا: تیر چلاؤ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔اس دن حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار تیر چلائے۔
ابی بن خلف کا قتل
دشمنِ اسلام ابی بن خلف جس نے ایک گھوڑا اس نیت سے پالا تھا کہ اس پر سوار ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کروں گا (نعوذ باللہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو میں ہی قتل کروں گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ احد والے دن جنگ کے دوران آمناسامنا ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس کھڑے ایک صحابی سے نیزہ لیا اور اس کی گردن پر دے مارا جس سے وہ چیختا چلاتا وہاں سے دوڑا اور وہ دوڑتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ اللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قتل کر ڈالا ہے۔ اس کے ساتھیوں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اتنا معمولی سا زخم ہے اس پر اتنا چیخ رہا ہے، یہ کوئی اتنا بڑا اور گہرا زخم بھی نہیں۔ تو وہ کہنے لگا کہ کیا تم جانتے نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں کہا تھا کہ میں تجھے قتل کروں گا اور اللہ کی قسم اگر یہ تکلیف تمام عرب میں تقسیم کر دی جائے تو سب لوگ مر جائیں گے مقام سَرِف میں اسی تکلیف سے مر گیا۔
نوٹ:دنیا کے دو انسان سب سے زیادہ بد بخت اور بد نصیب ہیں ایک وہ جوکسی نبی کو شہید کرے،دوسرا وہ جسے نبی اپنے ہاتھوں سے قتل کرے۔اس غزوہ میں ابتداً مسلمان فاتح ہوگئے اور پھر درمیان میں کچھ نقصان ہوا، اس کے بعد اللہ تعالی نے فضل فرمایا اور مسلمان سنبھل گئے مزید نقصان نہ ہوا۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عقیدت، محبت اور ان کی اطاعت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الصادق الامین صلی اللہ علیہ وسلم
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں