میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تحریک انصاف کے ساتھ زیادتیوں کی امریکہ میں بازگشت

تحریک انصاف کے ساتھ زیادتیوں کی امریکہ میں بازگشت

جرات ڈیسک
اتوار, ۲۸ اپریل ۲۰۲۴

شیئر کریں

امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے گزشتہ روزایک بیان میں پاکستان کو امریکہ کا اہم اتحادی قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے میزائل پروگرام کو مبینہ طور پر معاونت دینے والی کمپنیوں پر پابندی امریکہ کی جانب سے دنیا کو خطرناک اسلحہ سے محفوظ رکھنے کی پالیسی کا ایک حصہ ہے اور اس کا پاکستان کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔پاکستان خطے میں اس کا اہم اتحادی ہے اور اس تعاون کو مزید مضبوط کیا جائے گا،امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے یہ بیان ان خبروں اور قیاس آرائیوں کے جواب میں جاری کیاہے جن میں پاکستان کے میزائل پروگرام میں معاونت کرنے والی کمپنیوں پر امریکہ کی جانب  سے لگائی گئی ’پابندیوں کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھ جانے کا خدشہ ظاہرکیا جارہاتھا،یہ قیاس آرائیاں امریکہ کی جانب سے عاید کی گئی پابندیوں کے اعلانات کے بعد پاکستانی حکومت کے عہدیداروں کی جانب دئے گئے بعض سخت بیانات سامنے آنے کے بعد شروع ہوئی تھیں۔ ظاہر ہے کہ امریکہ بھی اس قیاس آرائیوں سے لاعلم نہیں تھا،اور جب امریکی حکام کو یہ یقین ہوگیا کہ اس کے حالیہ اقدامات کو پاکستان نے کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے مسترد کیا ہے اور مزید سختی کی صورت میں تلخیوں میں مزید اضافہ ہوگا اور اس کا فائدہ اس کے روایتی حریف فائدہ اٹھائیں گے توامریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے اس کی تردید کرتے ہوئے ’پاکستان کو اس خطے میں امریکہ کا سب سے اہم شراکت داروں میں سے ایک  قرار دے کر پاکستان کو لالی پاپ دینے کی کوشش کی ہے۔رواں ماہ 19 اپریل کو امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں معاونت کے الزام میں چار بین الاقوامی کمپنیوں پر پابندی لگا دی تھی، جن میں سے تین کا تعلق چین اور ایک کا بیلاروس سے ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا تھا: ’امریکہ (بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں) کے عدم پھیلاؤ کی سرگرمیوں کی حمایت کرنے والے پروکیورمنٹ نیٹ ورکس کو روک کر عالمی عدم پھیلاؤ کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے جس کے تحت ایگزیکٹو آرڈر نمبر 13382 کے مطابق بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذمہ دار چار اداروں کو نامزد کیا گیاہے۔24 اپریل کو ایک پریس بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان نے کہا تھا کہ ’ہم نے پابندیاں اس لیے لگائیں کہ یہ ادارے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور اس کی ترسیل کے ذرائع تھے۔ ویدانت پٹیل کا کہنا تھاکہ ہم نے پاکستانی بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے آلات، قابل اطلاق اشیا کی فراہمی دیکھی ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم خطرناک ہتھیار پھیلانے والے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کرتے رہیں گے، چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔پاکستان نے اپنے ردعمل میں ’برآمدات پر کنٹرول کے سیاسی استعمال‘ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پابندیاں بغیر کسی ثبوت کے لگائی گئی ہیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’کوئی ثبوت دیے بغیر ماضی میں بھی پاکستان کے میزائل پروگرام سے روابط کے الزامات کے تحت کمپنیوں کی ایسی ہی نشاندہی کی گئی۔ کہ ’ماضی میں ہم نے ایسی بہت سی مثالیں دیکھی ہیں، پاکستان کا موقف ہے کہ صرف شک کی بنیاد پر (کمپنیوں کی) فہرست بنائی گئی، جبکہ بیان کردہ سامان کسی کنٹرول لسٹ میں نہیں تھا لیکن اسے وسیع تر دفعات کے تحت حساس سمجھا گیا۔اپنے بیان میں پاکستانی دفتر خارجہ نے کہاتھا کہ ’ہم نے کئی بار نشاندہی کی ہے کہ ایسی اشیا کو قانونی طور پر سول تجارتی مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے، اس لیے برآمدی کنٹرول کے من مانے اطلاق سے بچنا ضروری ہے۔’سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے ٹیکنالوجی تک رسائی یقینی بنانے کی خاطر معروضی نظام کے لیے متعلقہ فریقوں کے درمیان تبادلہ خیال کی ضرورت ہے۔امریکہ نے پاکستان کے میزائل پروگرام کو مبینہ طور پر معاونت دینے والی کمپنیوں پر پابندی کے نتیجے میں کسی قسم کی کشیدگی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستان خطے میں اس کا اہم اتحادی ہے اور اس تعاون کو مزید مضبوط کیا جائے گامریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل سے جمعرات کو ایک پریس بریفنگ کے دوران سوال کیا گیا کہ ’پابندیوں کے بعد دونوں ممالک میں کچھ کشیدگی دیکھی جا رہی ہے اور پاکستانی حکومت کے عہدیداروں نے انتہائی سخت بیانات بھی دیے ہیں، کیا اس وقت امریکہ اور پاکستان کے درمیان کوئی (کشیدگی) چل رہی ہے؟تاہم نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان خطے میں ہمارے سب سے اہم شراکت داروں میں سے ایک ہے۔ حکومت پاکستان کے ساتھ ہمارا بہت سا تعاون جاری ہے، خاص طور پر سکیورٹی اور تجارت کے شعبے میں۔پاکستانی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران محکمہ خارجہ کے ارکان سے مشاورت کا حوالہ دیتے ہوئے ویدانت پٹیل نے مزید کہا کہ ’یہ ایک مضبوط رشتہ ہے اور ہم اسے مزید مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے۔رواں ماہ 19 اپریل کو امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں معاونت کے الزام میں چار بین الاقوامی کمپنیوں پر پابندی لگا دی تھی، جن میں سے تین کا تعلق چین اور ایک کا بیلاروس سے ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا تھا: ’امریکہ (بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں) کے عدم پھیلاؤ کی سرگرمیوں کی حمایت کرنے والے پروکیورمنٹ نیٹ ورکس کو روک کر عالمی عدم پھیلاؤ کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے جس کے تحت آج ایگزیکٹو آرڈر نمبر 13382 کے مطابق بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذمہ دار چار اداروں کو نامزد کیا جا رہا ہے۔24 اپریل کو ایک پریس بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان نے کہا تھا کہ ’ہم نے پابندیاں اس لیے لگائیں کہ یہ ادارے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور اس کی ترسیل کے ذرائع تھے۔ ویدانت پٹیل کا کہنا تھا: ’یہ چین اور بیلاروس میں مقیم ادارے تھے، ہم نے پاکستانی بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے آلات، قابل اطلاق اشیا کی فراہمی دیکھی ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ ’اکتوبر 2023 میں ہم نے چین کے تین اداروں پر پابندیاں لگائی تھیں جنہوں نے پاکستان کے میزائل پروگرام کی سپلائی کے لیے کام کیا تھا۔ ہم خطرناک ہتھیار پھیلانے والے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کرتے رہیں گے، چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔تاہم پاکستان نے اپنے ردعمل میں ’برآمدات پر کنٹرول کے سیاسی استعمال‘ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پابندیاں بغیر کسی ثبوت کے لگائی گئیں۔پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’کوئی ثبوت دیے بغیر ماضی میں بھی پاکستان کے میزائل پروگرام سے روابط کے الزامات کے تحت کمپنیوں کی ایسی ہی نشاندہی کی گئی جن میں یہی کہا گیا تھا کہ ’ماضی میں ہم نے ایسی بہت سی مثالیں دیکھی ہیں، پاکستان کا واضح موقف یہی ہے کہ صرف شک کی بنیاد پر (کمپنیوں کی) فہرست بنائی گئی، اس حوالے سے امریکہ کی بدنیتی اس حقیقت سے واضح ہوتی کہ امریکہ کا بیان کردہ سامان کسی کنٹرول لسٹ میں نہیں تھا لیکن اسے وسیع تر دفعات کے تحت حساس سمجھا گیا۔اپنے بیان میں پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا: ’ہم نے کئی بار نشاندہی کی ہے کہ ایسی اشیا کو قانونی طور پر سول تجارتی مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے، اس لیے برآمدی کنٹرول کے من مانے اطلاق سے بچنا ضروری ہے۔’سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے ٹیکنالوجی تک رسائی یقینی بنانے کی خاطر معروضی نظام کے لیے متعلقہ فریقوں کے درمیان تبادلہ خیال کی ضرورت ہے۔
ایک طرف امریکہ کی جانب سے پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرکے پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی حکمت عملی پر عمل کیاجارہاہے اور دوسری طرف عمران خان کی حکومت کا تختہ اٹنے کی مبینہ کوششوں اور مظلوم فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیل کی بے محابہ حمایت پر پاکستانی عوام میں امریکہ کے خلاف پیداہونے والی شدید نفرت کو کم کرنے کیلئے   امریکی محکمہ خارجہ کے ذیلی ادارے ’بیورو آف ڈیموکریسی، ہیومن رائٹس اینڈ لیبر‘ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی جماعت کو سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنائے جانے، ان کی تقاریر نشر کیے جانے پر پابندی اور آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے میں مشکلات پر تشویش کا اظہار کردیاہے اس رپورٹ کے ذریعہ بھی امریکہ نے دراصل ایک تیر میں 2 شکار کرنے کی کوشش کی ہے ایک طرف وہ اس رپورٹ کے ذریعے پاکستانی عوام کو یہ باور کرانا چاہتاہے کہ وہ عمران خان کا مخالف نہیں ہے اور دوسری طرف موجودہ حکومت پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ عمران خان اوراپوزیشن کے خلاف جو کچھ کررہاہے امریکہ اس سے ناواقف نہیں ہے اور امریکہ کے خلاف زیادہ سخت رویہ اختیار کرنے کی صورت میں موجودہ حکومت کو بھی سبق سکھایا جاسکتاہے۔ بظاہراس رپورٹ میں دنیا بھر کے تقریباً 200 ملکوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا گیالیکن خاص طورپر پاکستان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ 2023 کے دوران پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی اور پاکستان  میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، تشدد، حکومت اور اس کے نمائندوں کی جانب سے لوگوں کے ساتھ غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک، آزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی پر سنگین پابندیاں، صحافیوں کی بلا جواز گرفتاریاں اور گمشدگیاں، سینسرشپ، مجرمانہ ہتکِ عزت کے قوانین، توہینِ مذہب کے قوانین اور انٹرنیٹ پر پابندیوں جیسے سنگین مسائل موجود ہیں۔ اس کے علاوہ 2023 کے دوران پُرامن اجتماع کی آزادی، سیاسی بنیادوں پر قید اور منصفانہ عدالتی کارروائی کا نہ ہونا بھی ملک کو درپیش اہم انسانی حقوق کے مسائل میں شامل ہیں۔

اگرچہ پاکستان نے بظاہر اس رپورٹ مِیں شامل موا د کونامناسب، غلط معلومات پر مبنی اور مکمل طور پر زمینی حقائق کے منافی قرار دے کر مسترد کردیاہے لیکن اس رپورٹ نے اطلاعات کے مطابق موجودہ حکومت کی چولیں ہلادی ہیں کیونکہ رپورٹ میں غیر منصفانہ عدالتی کارروائیوں کے بارے میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں اور کارکنون کے خلاف بنائے گئے کیسز کا تذکرہ کیا گیا ہے،اطلاعات کے مطابق اس رپورٹ کے بعد حکومت نے عمران خان اور ان کی پارٹی سے کسی نہ کسی طرح کی ڈیل کی کوششیں شروع کردی ہیں اور اس ڈیل کی راہ ہموار کرنے کیلئے تاجروں کے نمائندوں اور خود اپنی حکومت کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے عمران خان سے ہاتھ ملانے سے متعلق بیانات دلوائے جارہے ہیں۔امریکی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے کارکن الزام لگاتے ہیں کہ اکثر حکام ہائی پروفائل کیسز کو تیزی سے نمٹانے کی غرض سے انسدادِ دہشتگردی کی عدالتوں میں چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔رپورٹ میں ملک میں آن لائن میڈیا سمیت پریس پر پابندیوں سے متعلق صحافیوں کے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ٹیلی ویژن چینلز اور دیگر ذرائع ابلاغ کے اداروں کو ہدایات جاری کر کے ریاستی اداروں پر تنقیدی رپورٹنگ سے گریز کرنے پر مجبور کرتا ہے۔اگرچہ حکومت یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ اس رپورٹ سے پاکستانی ریاست کے لیے مشکلات پیدا ہونے کا کوئی خاص امکان نہیں لیکن حکومتی حلقے بھی اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ کی جانب سے جاری کردہ اس رپورٹ کی بنیاد پر اب تحریکِ انصاف کے رہنما اور کارکن یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کے خلاف اب دنیا بھر میں بات کی جا رہی ہے۔اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بین الاقوامی طور پر یہ تاثر ضرور پایا جا تا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات آزادنہ نہیں تھے اور پی ٹی آئی کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کی گئی۔یہ موجودہ حکومت اور خاص طورپر الیکشن کمیشن کے تشخص،پر دھبہ ہے اور یہ دھبہ رہے گا۔حکومت کا یہ کہنابھی درست نہیں ہے کہ اس رپورٹ سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔امریکہ کو دراصل اس وقت یوکرین کے معاملے میں پاکستان کی حمایت کی ضرورت ہے۔ وہ بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کر ر ہاہے لیکن یہ نہیں چاہتا کہ اس کی اس کوشش میں پاکستان مکمل طورپر روس اور چین کے بلاک میں چلا جائے،یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی خود کو پاکستان کا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر قرار دینے کی کوشش کرکے پس پردہ یہ دھمکی دیتا ہے کہ امریکہ سے روگردانی کی صورت میں اسے اس تجارت سے ہاتھ دھونا پڑسکتے ہیں اور کبھی ملک کے اندر حزب اختلاف سے ہمدردی کااظہار کرکے دھمکانے کی کوشش کرتاہے اس طرح یہ کہا جاسکتاہے کہ امریکہ کی یہ رپورٹس اس کے دوغلے پن کا شاہکار ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ پی ٹی آئی کی مؤثر لابنگ اور دباؤ کا نتیجہ تھا کہ امریکی وزیرِ خارجہ کے جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے معاون ڈونلڈ لو کو کانگریس کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کے سامنے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا دفاع کرنا پڑا اور اب اس رپورٹ میں تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کا اعتراف کرنا پڑا۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے سیاسی تعصب پر مبنی قرار دیتے ہوئے یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ پاکستان انسانی حقوق کی حفاظت کرنے کے لیے اپنا نظام بہتر کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں