لگتاہے ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ ہمارے فیصلے کیخلاف ہے،چیف جسٹس
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کی درخواست پر حمزہ شہباز کو پیر تک بطور ٹرسٹی وزیراعلیٰ کام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حمزہ شہباز آئین اور قانون کے مطابق کام کریں گے اور بطور وزیراعلیٰ وہ اختیارات استعمال نہیں کریں گے، جس سے انہیں سیاسی فائدہ ہوگاجبکہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ ایسا لگ رہا ہے ڈپٹی اسپیکرنے ہمارے فیصلے کے خلاف رولنگ دی، ہمارے پاس ہمارا فیصلہ ہے جس میں یہ قانون ڈکلیئر قرار دیا گیا ہے،بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس ہے۔ ہفتہ کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الٰہی کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔اس دوران عرفان قادر ایڈووکیٹ ڈپٹی اسپیکرکے وکیل کی حیثیت سے عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے عرفان قادر ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ آپ ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کا دفاع کس بنیاد پر کر رہے ہیں؟ جس پر انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بنیاد پر دفاع کر رہے ہیں، سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف اراکین کے ووٹ شمارنہیں ہوں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم 17 مئی کے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کریں گے، ہمارے پاس 17 مئی والا آرڈر ابھی یہاں چیلنج نہیں ہوا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ آرڈر کی آڑ لیکر ووٹ شمار نہیں کیے، وہ حصہ بتائیں کہاں ہے؟ آپ بڑے سینئر وکیل ہیں آپ کو پتہ ہوگا اسپیکر نے فیصلہ کہاں سے اخذ کیا؟عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں صرف 2گھنٹے پراناہوں،ابھی عدالت کو تمام تفصیلات سیآگاہ کرتا ہوں،میں عدالت کی معاونت کرتا ہوں پہلے کچھ حقائق بتا دوں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم بھی 2 گھنٹے پرانے ہی ہیں آپ ہمیں آرڈر کا متعلقہ حصہ پڑھ کر سنائیں۔اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے خود ہی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پڑھ دی اور کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے فیصلے کے جس پیرا نمبر 3 کا حوالہ دیا وہ پڑھ دیں۔ عرفان قادرایڈووکیٹ نے کہا کہ آرٹیکل 3 ون اے کے تحت منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے، یہ عدالت کی تحقیق تھی نا ؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ عدالت کا فیصلہ ہے، عدالت کی تحقیق نہیں ہے۔عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکرنے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ووٹ شمارنہ کرنا درست سمجھا، ڈپٹی اسپیکر کے پاس 2 چوائسسز تھیں، یا تو کہتے ووٹ شمار نہیں ہوں گے یا ووٹ شمار ہوگا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھاپارلیمنٹری پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ شمار نہیں ہوگا، ڈپٹی اسپیکر نے پیرا 3 پر انحصار کرکے کیا سمجھا ہے؟ عرفان قادر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ڈپٹی اسپیکر سمجھے پارٹی سربراہ ہی پارلیمنٹری پارٹی کی سربراہی بھی کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر بالفرض ڈپٹی اسپیکر غلط سمجھے تو نتائج کیا ہوں گے؟ عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں آپ سے گھبراتا بڑا ہوں ایسا تسلیم کرنے والا بیان نہیں دے سکتا، بادی النظرمیں بدقسمتی،خوش قسمتی سے میری رائے بھی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے ساتھ ہے۔عدالت نے کہا کہ آپ سطحی طورپربتائیں ڈپٹی اسپیکر نے فیصلہ غلط سمجھا تو آگے کیا ہوگا؟ عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ حقائق پر کوئی تنازع نہیں ہے، ابھی مجھے ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے جواب بھی جمع کرانا ہے، اگر عدالت کہے تو ڈپٹی اسپیکر بامقصد بیان عدالت میں پیش کردیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی سے کوئی ریکارڈ پیش ہوا ہے؟ اس پر عرفان قادر نے کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ ریکارڈ آیا ہے کہ نہیں، آپ کو ریکارڈ سے کیا مخصوص چیز دیکھنی ہے؟ ۔نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ہم دیکھنا چاہ رہے ہیں اسپیکر کے ہاتھ میں چٹھی تھی وہ دکھائیں، بادی النظر میں حمزہ شہباز کا وزارت اعلیٰ کا عہدہ گہرے خطرے میں ہے۔ چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ قانونی طور پر درست نہیں ہے ۔دور ان سماعت چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے عدالت سے استدعا کی کہ حمزہ شہباز کو کابینہ بنانے سے روک دیا جائے جس پر عدالت کی جانب سے کہا گیا وہ مختصر ترین کابینہ رکھ سکتے ہیں۔چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل نے استدعا کی کہ اتوار کو بھی سماعت کی جائے تاہم بینچ نے کہا کہ اگر اتوار کو سماعت کی جاتی ہے اور مکمل نہیں ہوتی ہے تو معاملہ پھر پیر کو جائیگا۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہاکہ درخواست سماعت پیر کو اسلام آباد میں ہوگی اور جب تک حمزہ شہباز بطور ٹرسٹی وزیراعلیٰ کام کریں گے اور ضروری تبادلے قانون کے مطابق کی جائے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہاکہ وزیر اعلیٰ کے اختیارات محدود رہیں گے، تمام تقرریاں میرٹ پر ہوں گی، میرٹ سے ہٹ کر تقرریاں ہوئیں تو کالعدم کر دیں گے، وزیراعلیٰ سیاسی فائدے کیلئے کچھ نہیں کریں گے، سپریم کورٹ کا وزیر اعلیٰ پر چیک رہے گا۔ سپریم کورٹ گنے کہاکہ بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایسا لگ رہا ہے ڈپٹی اسپیکرنے ہمارے فیصلے کے خلاف رولنگ دی، ہمارے پاس ہمارا فیصلہ ہے جس میں یہ قانون ڈکلیئر قرار دیا گیا ہے۔عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کو تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی، پنجاب حکومت بھی اپنا تفصیلی و تحریری جواب جمع کرائے۔