میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکا کی تمام 50ریاستوں میں داعش کے نیٹ ورک کا انکشاف

امریکا کی تمام 50ریاستوں میں داعش کے نیٹ ورک کا انکشاف

منتظم
جمعرات, ۱۲ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

داعش نے امریکی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ کرنے اور بدترین تباہی پھیلانے کی صلاحیت حاصل کر لی (ایف بی آئی رپورٹ)

شہلا حیات
امریکا کی تمام50ریاستوں میں داعش کے نیٹ ورک کے موجود اور فعال ہونے کے شواہد سامنے آگئے ہیں ،ان شواہد سے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومے کی ان اطلاعات کی تصدیق ہوتی ہے جس میں کہاگیاتھا کہ داعش نے امریکا میںاپنے پیر مضبوطی سے جمالیے ہیں۔ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومے نے اپنی رپورٹ میں لکھاتھا کہ میرے دوستوں کے جمع کردہ اور ان کی جانب سے” ڈس اوبیڈینس میڈیا ڈاٹ کام “ میں شائع کرائے جانے والے شواہد سے یہ ثابت ہوگیاہے کہ امریکا کی تمام 50ریاستوں میں داعش کافعال نیٹ ورک موجود ہے۔ انھوں نے اپنی رپورٹ میں لکھاتھا کہ اس بات کے شواہدموجود ہیں کہ نہ صرف یہ کہ داعش کانیٹ ورک پورے امریکا میں خطرناک حد تک فعال ہے بلکہ وہ امریکا کی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ کرنے اور تاریخ کی بدترین تباہی پھیلا نے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیاگیا ہے کہ داعش نے امریکا کی مختلف ریاستوں میں اپنے تربیتی مراکز قائم کررکھے ہیں جو کہ امریکا میں ان کی فوجی قوت کی موجودگی کا ایک ثبوت ہے، رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیاگیا ہے کہ داعش مختلف ریاستوں میں قائم ان تربیتی کیمپوں کو جو کہ آپریشنز سینٹر/ سیلز کو فرنچائز کررہی ہے، رپورٹ میں یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیاگیا ہے کہ داعش کے قائم کردہ ان تربیتی مراکز سے عام آدمی بھی واقف ہیں لیکن میڈیا بوجوہ ان کو عوام سے چھپائے رکھنے کی کوشش کررہاہے، رپورٹ کے مطابق ان میں سے کم از کم ایک تربیتی مرکز سے لوگ 1980سے واقف ہیں۔
دوسری جانب سین ہینی ٹی کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ داعش نے امریکا میں جماعت الفقرا کے نام سے اپنا نیٹ ورک پھیلایاہے،اور اس جماعت کے دفاتر اور اڈے امریکا میں 35مقامات پر قائم ہیں، رپورٹ میںامریکا میں اسلامی جہادیوں جیسی فوجی تربیت کی ویڈیو فلمیں بھی شامل کی گئی ہیں۔ ”نیوز سائٹ ڈبلیو این ڈی“ کی رپورٹ میں ان کیمپوں کی تعداد کم از کم 22بتائی گئی ہے۔ کلیرین پراجیکٹ نے ایف بی آئی کے ڈاکومنٹس کے حوالے سے ایک رپورٹ دی ہے جس میں کہاگیاہے کہ 2014 میں ایف بی آئی نے بعض ایسی رپورٹوں اورحقائق کی بنیاد پر جن سے اس تنظیم کے بین الاقوامی دہشت گردی میں ملوث ہونے یا اس کی تیاری کے حوالے سے سرگرمیوں کی بنیاد پر اس تنظیم کے خلاف تفتیش کی تھی۔یہ تفتیش ان کے کمپاﺅنڈ میں فائرنگ کے تبادلے کے ایک اتفاقی واقعے کے بعد کی گئی تھی۔
رپورٹ میںانکشاف کیاگیا ہے کہ ٹیکساس میں جماعت الفقرا کا ایک کیمپ محمود برگ میں قائم ہے ۔ جماعت الفقرانے یہ جگہ خریدنے کے بعد یہاں اپنا کیمپ قائم کیاتھا۔رپورٹ کے مطابق جماعت الفقرا پاکستان میں قائم کی گئی ایک تنظیم ہے اور اس کا سربراہ مبارک علی گیلانی امریکی صحافی ڈینیل پرل کے اغوا اورقتل میںمبینہ طورپر براہ راست ملوث تھا۔اس حوالے سے اس سے پوچھ گچھ کی گئی لیکن اسے گرفتار نہیںکیاگیاتھا۔یاد رہے کہ ڈینیل پرل کو قتل کرنے والے گروہ کا تعلق عراق میں قائم القاعدہ سے تھا،جو کہ داعش کی اولین شکل تھی۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے2002سے داعش کااس نیٹ ورک سے رابطہ تھا۔
ہینیٹی کی رپورٹ اور ڈبلیو این ڈی کی ویڈیو ز دونوں سے اس حقیقت کی تائید ہوتی ہے کہ جماعت الفقرا نے اللہ کے سپاہی کے نام سے ایک ویڈیوتیار کی تھی جس میں مبارک علی گیلانی کو یہ کہتے سنا جاسکتاہے کہ دشمن کو نیست نابود کرنے کے لیے جنگ کررہے ہیں۔ ہم شیطان اور اس کی جڑوں کے خلاف لڑ رہے ہیں اور شیطان کی جڑ امریکا ہے۔ان تمام حقائق کے باوجود امریکی محکمہ خارجہ نے جماعت الفقرا کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل نہیں کیاہے۔ایسی بہت سی ویڈیوز موجود ہیں جن میں ان اسلامی جہادی نیم فوجی گروپوں کی فوٹیج دیکھی جاسکتی ہیں جن میں ان گروپوں کے بارے میں رپورٹیں اور فلمیں شامل ہیں۔
امریکا کی 50ریاستوں میں داعش کی موجودگی اور ان کے فعال ہونے کے حوالے سے ان انکشافات نے امریکی انٹیلی جنس کے اداروں کے علاوہ پوری انتظامیہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب جبکہ چند دن بعد ہی نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے عہدے کاحلف اٹھانے والے ہیں،امریکا کی ہرریاست میں داعش کی موجودگی کی خبریں امریکی سیکورٹی فورسز کے علاوہ خود ایف بی آئی اور دیگر انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہیں، ان خبروں کے سامنے آنے کے بعد امریکی سی آئی اے کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ان خیالات کو تقویت ملے گی کہ امریکی سی آئی اے ایک ایسے سفید ہاتھی سے زیادہ کچھ نہیں ہے جو خزانے سے بھاری تنخواہیں مراعات اور دیگر سہولتیں تو حاصل کرتاہے لیکن اس ادارے نے اب تک کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا جس پر فخر کیاجاسکے۔ امریکی سی آئی اے کے بارے میں نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات کے حامی حلقوں کاکہناہے کہ سی آئی اے انٹیلی جنس کا وہ ادارہ ہے جو ہمیشہ کسی بڑی کارروائی اورتباہ کاری کے بعد ہوش میں آتا ہے۔اس حلقے کاکہنا ہے کہ اگر سی آئی اے واقعی فعال اور ملک کی سلامتی کے لیے کارآمد ہوتی تو شاید 9/11کاسانحہ کبھی رونما نہ ہوتا اور امریکا کو عراق پر فوج کشی کرکے پوری دنیا میں رسوا نہ ہونا پڑتا۔
سی آئی اے کے مخالف حلقوں کاکہناہے کہ ملک میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے بعد ہوش میں آنے کے حوالے سے شہرت رکھنے والا یہ ادارہ بعد از وقت ہوش میں آنے کے بعد بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے کسی بڑے نیٹ ورک کو پکڑنے اورناکام بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکی عوام آج پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں ، اور امریکی نوجوان اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند نظر آتے ہیں۔
دوسری طرف بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے صدارت سنبھالنے سے پہلے امریکی اسٹیبلشمنٹ ایک خاص خوف کی فضا پیدا کررہی ہے جس کے لیے داعش کا نام استعمال کیا جار ہا ہے تاکہ اس خوف کی فضا میں نو منتخب صدر کو اپنی مرضی کے فیصلوں پر مجبور رکھا جائے۔ جہاں تک جماعت الفقراءاور مبارک علی گیلانی کے حوالے سے حقائق کا تعلق ہے تو ماضی میں بھی اس حوالے سے خاصی باتیں افسانوی رنگ میں بیان کی جاتی رہی ہیں مگر اس میں سے اکثر باتیں بعد ازاں غلط ثابت ہو ئی ہیں۔ اس لیے ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ایک طرف امریکا او رداعش کے درمیان خفیہ تعلقات کے حوالے سے حقائق سامنے آرہے ہیں اور دوسری طرف اُسے خود امریکا کے لیے ایک خطرہ بنا کر بھی پیش کیا جارہا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں