میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
 اسٹریٹ کرمنلز 3 ماہ میں 50 انسانوں کو نگل گئے!

 اسٹریٹ کرمنلز 3 ماہ میں 50 انسانوں کو نگل گئے!

جرات ڈیسک
جمعه, ۵ اپریل ۲۰۲۴

شیئر کریں

کراچی میں وزیراعلیٰ سندھ اور پولیس کے سربراہ آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود اسٹریٹ کرائمز میں کمی نہیں آسکی ہے بلکہ یہ ناسور روز بروز بڑھتا ہی چلاجارہاہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب لوگ عید کی خریداری کیلئے بھی گھر سے نکلتے ڈرنے لگے ہیں،اسٹریٹ کرائمز کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ لوگوں سے نقدی اور موبائل فون چھیننے والے بے لگام درندے اب قیمتی اشیا چھین لینے کے بعد بھی شہریوں کو گولی ماردیتے ہیں جس سے ہنستا بستا گھر اجڑجاتا ہے اور پولیس کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ تفتیش جاری ہے،سندھ پولیس کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے ابتدائی 3 ماہ کے دوران کراچی میں 48 افراد ا سٹریٹ کرائم اور ڈکیتی کی وارداتوں کے دوران مزاحمت میں مارے جا چکے ہیں جبکہ جرائم کی مانیٹرنگ اور روک تھام کے لیے قائم تنظیم سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے 3 ماہ کے دوران کراچی میں 50 افراد سٹریٹ کرائمز کے دوران مزاحمت میں مارے گئے ہیں جن میں سے 10 اموات صرف رمضان کے مہینے میں رپورٹ ہوئی ہیں۔پولیس کی کارکردگی اگر بہتر ہوتی تو اب تک بیشتر مجرم قید میں ہوتے لیکن پولیس کی کارکردگی صفر ہے۔ اگر شہر میں ڈاکوؤں کے بجائے پولیس کا راج ہوتا تو یہ واقعہ بھی رونما نہ ہوتا۔ شہر میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز کے معاملے پر اتوار (31 مارچ) کو سندھ کے نئے تعینات ہونے والے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس غلام نبی میمن نے ایک اہم اجلاس کی صدارت کی، جس کے دوران اہم فیصلے کیے گئے اور ا سٹریٹ کرائم کے مقدمات کی تفتیش کے لیے 60 اعلیٰ افسران کو تفویض کیا۔ آئی جی سندھ نے ہدایت کی کہ ڈکیتی میں مزاحمت پر قتل یا زخمی ہونے کے واقعات کی تفتیش ماہر افسر کو دی جائے اور 7 بہترین نامزد افسران کیس پر کام کر کے ملزمان کو گرفتار کریں۔ پولیس کا کہناہے کہ ہر کیس کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور کوشش ہے کہ پولیس شہر میں امن و امان برقرار کرنے میں کامیاب ہوگی۔پولیس کی جانب سے اقدامات کے دعوے تو کیے جا رہے ہیں لیکن کراچی کے شہری اب گھروں سے باہر نکلنے پر خوف محسوس کرتے ہیں۔سوشل میڈیا پر وائرل ڈکیتی وارداتوں کی ویڈیوز پر آنے والوں تبصروں سے اندازہ ہو رہا ہے کہ شہری اب نہ تو گھر سے باہر نکلتے ہوئے جیب میں زیادہ نقد رقم رکھتے ہیں اور نہ ہی مہنگا فون کیونکہ بقول ان کے ’پتہ نہیں ہوتا کہ کب کوئی ڈکیت آجائے اور واردات کرکے چلا جائے۔دوسری جانب شہریوں نے سی سی وی فوٹیج کی مدد سے مبینہ ڈاکوؤں کی تصاویر حاصل کرکے انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے، تاکہ پولیس ان افراد کی شناخت کرکے انہیں گرفتار کرسکے لیکن ایسا محسوس ہوتاہے کہ پولیس کو مجرموں کو گرفتار کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جرائم کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ مجرموں کو گرفتار کرنے میں پولیس کی آنا کانی کے علاوہ دوسری وجہ سزا کا نہ ہونا ہے۔ مجرم جیل جاتے ہیں لیکن کچھ ہی دنوں یا ایک ہفتے میں جیل سے رہائی حاصل کرلیتے ہیں۔ انہیں عدالتوں سے سزا ہی نہیں ملتی کیونکہ پولیس ایف آئی آر میں اتنی سقم چھوڑ دیتی ہے کہ عدالت کے پاس مجرم کو رہا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ہمارا کرمنل جسٹس سسٹم مضبوط نہیں ہے جبکہ اسٹریٹ کرائم کے سیکشن میں بھی ترمیم کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔پولیس کے دو شعبے ہیں آپریشن اور انویسٹی گیشن۔ آپریشن میں ایس ایچ او کو اپنی کار کردگی دکھانی ہوتی ہے اور وہ اپنی کارکردگی کو بہتر دکھانے کیلئے اول توایف آئی آر درج ہی نہیں کرتا اور اگر ایسا کرنے پر مجبور بھی ہوجائے تو اس میں اتنا جھول رکھتاہے کہ ملزم بعض اوقات گرفتاری کے چند گھنٹے بعد ہی سڑکوں پر دندنا رہاہوتا ہے، لیکن اگر کوئی کیس انوسٹی گیشن کے شعبے میں جاتا ہے تو تفتیشی پولیس پر ملزم کو سزا دلوانے کا کوئی ایسا دباؤ نہیں ہوتا، لہٰذا وہ عدم دلچسپی دکھاتے ہیں کیونکہ اس میں عدالت جانا ہوتا ہے اور شواہد اکٹھے کرنے کا سارا خرچہ ان کی جیب سے ہی ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جرائم پیشہ لوگوں سے پیسہ لے کر انہیں آزاد کر دیا جاتا ہے۔حال ہی میں آئی جی سندھ نے سٹریٹ کرائمز کے مقدمات کی تفتیش کے لیے 60 اعلیٰ افسران کو تفویض کیا ہے۔ یہ اقدام اچھا ہے لیکن سندھ حکومت، پولیس اور عدلیہ کو اس میں ترمیم کرنی پڑے گی اور جرائم پیشہ افراد کی ضمانتوں کے حوالے سے نظر ثانی کی ضرورت ہے۔سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے گزشتہ دور حکومت میں شہر قائد میں امن و امان کی صورت حال تسلی بخش نہیں تھی، جو نگران حکومت کے دوران مزید بگڑ گئی تاہم اب صوبائی حکومت صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے پر عزم ہے۔منگل کو سینیٹ کے الیکشن کے موقعے پر سندھ اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو میں وزیر اعلیٰ سندھ نے ا سٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے متعلق سوال کے جواب میں بتایا کہ انہوں نے ’اپنی گزشتہ حکومت کے دوران صوبے میں امن و امان کو کنٹرول کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے تھے۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز پر بڑی حد تک قابو پالیا تھا اور کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کو روکنے کے لیے دریائے سندھ کے پشتے کے ساتھ پولیس ناکے لگائے گئے تھے۔اگرچہ انہوں نے اعتراف کیا کہ ’امن و امان کی صورت حال تسلی بخش نہیں تھی، لیکن یہ اتنی خراب نہیں تھی جتنی (رواں برس) جنوری اور فروری میں دیکھی گئی،ان کا کہناتھاکہ ’ان کی حکومت ا سٹریٹ کرمنلز اور ڈاکوؤں کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کر رہی ہے اور جلد ہی صورت حال بہتر ہو جائے گی۔ تاہم وزیر اعلیٰ سندھ تسلیم کریں یانہ کریں یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے 15 سالہ دور میں امن و امان بحال نہیں ہوا۔
اس شہر میں ایک نہیں، دو نہیں چار آپریشن ہوئے فوجی آپریشن، پولیس آپریشن اور سب کا مشترکہ آپریشن 1992 سے 2013تک۔ لیکن1989سے آج تک ہم میرٹ پر ایک ایسی پولیس فورس نہیں تشکیل دے پائے جس کے بعد یہاں رینجرز کی ضرورت نہ رہے، جنہیں سالانہ اربوں روپے دئے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے 2011میں شروع ہونے والے5 رکنی سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کراچی میں امن وامان کے حوالے سے 5 رکنی سپریم کورٹ کی کارروائی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں شروع ہوئی اور اس کا 156 صفحات پر مشتمل فیصلہ بہت سوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ 2013کیآپریشن کا پس منظر بھی یہی ہے۔جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اسی فیصلے میں شاید پہلی بار کسی مقدمہ میں فیصلے پر عمل درآمد کا طریقہ کار بھی طے کیا یعنی ہر ماہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، چیف سیکریٹری، آئی جی سندھ اور ایجنسیوں کے سربراہان کراچی بدامنی کیس پر عمل درآمد کا جائزہ لیں گے۔ خود چیف جسٹس پاکستان بھی ہر ماہ عمل درآمد کا جائزہ لیں گے۔اسی فیصلے میں سندھ حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ نے یہ بیان حلفی بھی جمع کرایا تھا کہ سندھ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ (1)کراچی میں امن و امان قائم کر سکتے ہیں اور (2) کچے کے علاقہ کو ڈاکوؤں سے صاف کر سکتے ہیں۔ لیکن آئی جی سندھ کے اس اعتراف کے باوجود کہ سندھ پولیس امن وامان قائم کرسکتی ہے کچے کے علاقوں پر آج بھی ڈاکو راج ہے شہری اغوا ہوتے ہیں تاوان دیتے ہیں یا مارے جاتے ہیں اور ہر سال سندھ حکومت رینجرز کو 400 ملین دیتی ہے لیکن اتنی بھاری رقم لینے کے باوجود سندھ میں رینجرزکوئی قابل ذکر کارروائی نہیں کرسکی ہے اگر رینجرز فعال ہوتی تو شاید اسٹریٹ کرمنلز کو اس طرح سر عام اسلحہ لے کر چلنے اور بے قصور لوگوں کو مارنے کی ہمت نہ ہوتی۔
اگر حقیقت؛پسندی سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی ایک بڑی وجہ اس شہر کی پولیس میں شہر کے لوگوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور پولیس میں زیادہ تر ایسے لوگ بیٹھے ہیں جنھیں اس سے قبل شاید اتنے بڑے شہر میں رہنے کا بھی موقع نہیں ملا، کراچی شروع سے مقامی پولیس نہ ہونے کی مشکل کا شکار ہے۔ پہلے کراچی میں پنجاب اور سرحد کے لوگ پولیس میں ہوتے تھے تمام خفیہ اداروں میں میانوالی اور پنجاب کا غلبہ تھا۔ اس وقت بھی مقامی پولیس کے لیے آواز اٹھائی گئی تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کراچی کا شاید ہی کوئی تھانہ ایسا ہو جہاں کوئی مقامی فرد ایس ایچ او ہے۔ یعنی پہلے پنجاب اور کے پی کے کا رونا تھا اب اندرون سندھ کے افسروں، جوانوں اور عملے کا رونا ہے۔ اس مسئلے کو میئر افغانی کے دور میں یہ اصول رائج کرکے حل کیا گیا تھا کہ اس شخص کو مقامی تصور کیا جائے گا جس کی رہائش کراچی میں ہو اور تدفین بھی کراچی ہی میں ہو۔ اس کی زبان علاقہ کوئی بھی ہو یعنی ہر طرح سے اس کا جینا مرنا اس شہر میں ہو لیکن آج کل جو صورت حال ہے ایسی نہیں ہے۔ قانون کی خلاف ورزی الگ ہے کہ مقامی افراد کا کوٹا جس قدر ہے اس کا ایک فی صد بھی انہیں نہیں مل رہا ہے۔ اور اندرون سندھ سے جیالوں اور رشوت دے کر بھرتی ہونے والوں کو لا کر بھرتی کیا جارہا ہے۔ یہ ساری باتیں خلائی یا سنی سنائی نہیں ہیں بلکہ خود پولیس کے درجنوں افسر اور اہلکار سنگین جرائم میں ملوث نکلے ہیں ان کے خلاف کارروائیاں بھی کی گئی ہیں چونکہ نیچے سے اوپر تک ایک ہی زنجیر ہے اس لیے بہت سے معاملات تو دبا ہی دیے جاتے ہیں جبکہ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کراچی میں مقامی پولیس کے بغیر جرائم پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔اس شہر کو جرائم سے پاک کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ترجیحی بنیادوں پر مقامی افراد کو پولیس میں بھرتی کیا جائے۔سب سے زیادہ سنگین مسئلہ بھی یہی ہے اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ پولیس مقامی ہو یا غیر مقامی کم از کم پولیس تو ہو۔ مسئلہ یہی ہے کہ پولیس کو دیکھ کر عام آدمی میں احساس تحفظ نہیں ہوتا بلکہ وہ خوفزدہ ہوجاتا ہے ایسے حالات میں محض مقامی پولیس نہیں پولیس اور ایماندار پولیس کا ہونا ضروری ہے۔ کیا وزیراعلی سندھ صوبے میں اپنی پسند کے آئی جی کے تقرر کے بعد ملک کے اس سب سے بڑے شہر اور کاروباری حب میں امن وامان قائم کرنے اور اسٹریٹ کرمنلز کا سرکچلنے کیلئے کوئی قدم اٹھانے کو تیار ہوں گے،یہ ایسا سوال ہے جس کے جواب میں ہی اس شہر کا امن وسکون پنہاں ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں