مقتدرہ کو مختار کل سمجھنا سیاسی رویہ نہیں!
شیئر کریں
حکومت اور اپوزیشن کے مابین باضابطہ مذاکرات کے پہلے دور میں بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا اور مذاکرات جاری رکھنے کی اسی خواہش کے تحت اب مذاکرات کیلئے آئندہ اجلاس 2جنوری کو ہوگا جس میں اپوزیشن تحریری طور پر چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس امید کا اظہار کیا کہ وسیع تر ملکی مفاد کیلئے مذاکرات میں مثبت پیشرفت ہوگی’ ملک کا مفاد سب سے مقدم ہے’ قومی سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ کسی کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہئے۔ابتدائی اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ کے مطابق دونوں مذاکراتی کمیٹیوں نے اجلاس کو مثبت پیش رفت قرار دیا’ اپوزیشن کمیٹی نے اپنے ابتدائی مطالبات کا خاکہ پیش کیا’ اجلاس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانیں نچھاور کر نے والے شہدا کے لیے فاتحہ خوانی کرتے ہوئے اس پختہ عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں ہم سب قوم کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔جبکہ اسد قیصر نے بتایا کہ عمران خان سمیت دیگر قیدیوں کی رہائی اور ڈی چوک فائرنگ پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے ابتدائی مطالبات پیش کر دئیے ہیں۔صاحبزادہ حامد رضا کا کہنا تھا کہ ہم کسی صورت اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اسٹیبلشمنٹ آن بورڈ ہے یا نہیں، اس کا جواب حکومت دے گی۔ وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللّٰہ کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ سو فیصد ہم ان کی یا وہ ہماری مان لیں’ مذاکرات میں درمیانی راستہ ہی نکلنا پڑتا ہے بات چیت کا کوئی ضامن نہیں۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی مذاکرات کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دے۔ سردار ایاز صادق نے کہا کہ مذاکرات میں اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی کا علم نہیں پاکستان کی خاطر ڈائیلاگ کی بات ہو رہی ہے اللّٰہ تعالیٰ برکت ڈالے نیک نیتی سے مذاکرات کی دعوت دی، میرا کام تو سہولت فراہم کرناہے بات چیت اور مکالمے سے ہی آگے بڑھا جا سکتاہے۔ اجلاس میں کچھ ماضی، حال اور مستقبل کی باتیں ہوئیں۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا ہے کہ اپوزیشن نے مذاکرات میں ابتدائی خاکہ پیش کیا، فریقین نے مذاکرات کو مثبت پیش رفت قرار دیا اگلے اجلاس میں اپوزیشن تفصیلی مطالبات دستاویزات کی صورت میں پیش کرے گی۔ اس ضمن میں خوش آئند بات یہ ہے کہ دونوں طرف سے کہا گیا کہ مذاکرات کو جاری رہنا چاہیے۔
مذاکرات کے ابتدائی دور کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیئے سے بظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ حکومت مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانا چاہتی ہے تاکہ ملک میں سیاسی استحکام کی راہ ہموار شروع ہوسکے لیکن حکومت کی اس خواہش کے برعکس تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات شروع ہوتے ہیں مسلم لیگ کے بعض سینئر رہنماؤں اور وزرا نے ء طنزیہ باتیں شروع کردی ہیں،، اس حوالے سے خواجہ آصف اور عطا تارڑ پیش پیش ہیں، ملک کے لئے حد درجہ اہم مذاکرات کے بارے میں وزرا کا یہ کہنا کہ کل تک بات نہ کرنے دھمکیاں دینے والے اب مذاکرات کے لئے منتیں کررہے ہیں سے ظاہرہوتاہے کہ مسلم لیگ میں اہم وزارتوں پر براجمان بعض رہنما ؤں کو اس کی خوشی نہیں کہ خدا خدا کرکے ڈیڈ لاک ختم ہوا ہے اور ملک جس منجدھار میں پھنسا ہوا ہے اس سے نکلنے کی کوئی امید ہو چلی ہے ہیسنجیدہ حلقے تو ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ دونوں فریقین اپنی اپنی انا کو چھوڑ کر آگے بڑھیں اور ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ ایسے موقع پر سینئر وزرا کے اس طرح کے طنز یہ بیانات اور ان پر وزیراعظم کی خاموشی معینی خیز ہے ،وزیراعظم شہباز شریف اگر واقعی مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں تو انھیں مصلحت کوشی سے نکل کر اپنے معاونین پر اچھی طرح واضح کردینا چاہئے کہ ان مذاکرات کی کامیابی کسی ایک فریق کیلئے نہیں بلکہ پورے ملک کیلئے ضروری ہے وزیراعظم کو اپنے معاونین پر واضح کردینا چاہئے کہ ہم ضد اور انا میں جو مرضی دعویٰ کرتے رہیں حقیقت یہ ہے کہ ملک چل نہیں رہا ہے حکومت کو بے شمار چیلنجز درپیش ہیں، فوجی عدالتوں سے 25سویلین کو سزائیں سنائی گئی ہیں تو بیرون ملک اس کا کوئی اچھا تاثر نہیں گیا اور بڑی طاقتوں کی جانب سے دباؤ آنا شروع ہوگیاہے یہ بات درست ہے کہ کسی بھی ملک کو ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا حق نہیں لیکن ہر ملک کو اپنی پالیسیاں ترتیب دینے کا تو حق ہے اگر پاکستان کی صورت حال پر ان کی تشویش دور نہ کی گئی تو وہ پاکستان پر مختلف طرح کی قد غنیں لگا سکتے ہیں یورپی یونی پاکستانی برآمدات کیلئے دی گئی خصوصی رعایت واپس لے سکتی ہے اگر ایسا ہوا تو پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات دھڑام سے نیچے گر سکتی ہیں ۔ ایک جمہوری و آئینی ملک میں ایسا ہونا کوئی نیک شگون نہیں۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ مذاکرات میں کھلے دل سے آگے بڑھا جائے۔ تحریک انصاف کی بھی ذمہ داری ہے اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ عمران خان نے اگرچہ مذاکرات کے لئے 2 شرائط پہلے سے رکھی ہیں تاہم بہتر یہ ہوگا۔ تمام معاملات کو ان مذاکرات میں زیر غور لایا جائے۔ دونوں فریقوں میں سے کوئی یہ کوشش نہ کرے کہ وہ دوسرے کو شکست دینے میں کامیاب رہے گا۔یہ مذاکرات اس سوچ کے ساتھ ہونے چاہئیں کہ ہم نے ملک کو جمود کی موجودہ صورت حال سے نکالنا ہے اور آئے دن کی کشیدگی سے نجات حاصل کرنی ہے۔ جن وزرا کا اوپر ذکر ہوا، وزیراعظم شہبازشریف کو چاہیے انہیں مذاکرات کے دوران زبان بندرکھنے کی ہدایت کریں تاکہ یہ عمل متاثر نہ ہو۔سینئر سیاستداں شروع دن سے کہہ رہے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت کو طاقت سے ختم کرنے کی کوشش نہ کی جائے اس سے جماعت تو خیر کیا ختم ہو گی ملک بے یقینی اور عدم استحکام کا شکار ضرور ہو جائے گا۔عمران خان سول نافرمانی کی بات کرتے ہیں تو وزرا اس کا بھی تمسخر اڑاتے ہیں حالانکہ یہ احتجاج کا سب سے آخری اور خطرناک آئینی آپشن ہوتا ہے۔دوسرا اس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں جو ایک منفی تاثر جنم لے سکتا ہے حکومت کو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ملک کو اس وقت جس صورت حال کا سامنا ہے اس کے پیش نظر حکومت کے لئے مناسب یہی ہوگا کہ وہ ان مذاکرات کو وقت گزاری کا ذریعہ نہ سمجھے۔ ملک کے لئے جو مناسب ہو سکتا ہے وہ کیا جائے، یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اگر یہ مذاکرات ناکام ہو گئے ان کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو ملک میں جاری بحران مزید شدت اختیار کرے گا جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ معاشی لحاظ سے ملک میں سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ عالمی سرمایہ کار ملک کی موجودہ صورتِ حال سے بے خبر نہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی بے چینی موجود ہے۔ حکومت کی پائیداری کے حوالے سے بھی چہ میگوئیاں معمول کی بات ہے۔ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو ڈیڑھ سال کے لئے وزیراعظم بنایاجا سکتا ہے۔ جب ملک سے آئے روز یہ خبریں جائیں گی کہ سیاسی سرگرمیوں پر ریاستی پابندیاں ہیں اور اس پر یہ خبر بھی آئے گی کہ ملک میں فوجی عدالتیں سویلینز کو سزائیں سنا رہی ہیں تو سوالات تو اٹھیں گے۔ آج کی دنیا میں ملک کا سیاسی اور جمہوری چہرہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارا یہ چہرہ پچھلے کچھ عرصے سے ماند پڑ چکا ہے۔ اب یہ اچھا موقع ہے کہ شہبازشریف اس جمہوری و سیاسی چہرے کوسامنے لانے کے لئے اقدامات کریں۔ کہیں اسٹیبلشمنٹ کو قائل بھی کرنا پڑے تو قائل کریں انھیں یہ سوچنا چاہئے کہ ، اتنے طویل عرصے سے ملک کو بے یقینی میں مبتلا کرکے ہم نے کیا حاصل کیا ہے، اس پر غور ہونا چاہیے۔بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے،اس سے ظاہرہوتا ہے کہ ہر مسئلے کا حل طاقت نہیں بن سکتی، اس کے لئے سیاسی سوچ اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو ناراض ہیں ان کی بات سنی جائے اور ان کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ سیاسی ماحول پیدا کرکے حالات کی سختی کو نرمی میں بدلا جا سکتا ہے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے اور اس کے ذریعے ہی ہم عدم استحکام سے استحکام کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔وزیر اعظم کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ انھوں نے جو مذاکراتی کمیٹی بنائی ہے وہ بھان متی کا کنبہ ہے،انھوں نے بظاہر اس کمیٹی کونمائندہ بنانے کیلئے اس میں تمام اتحادی جماعتوں کو شامل کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے اس کمیٹی کے پاس ایک سیاسی قوت موجود ہے اور اگر ان جماعتوں نے کھلے دل سے مسائل پربات کرنے کی سوچ اپنائی تو بڑا بریک تھرو ہو سکتا ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ اس کمیٹی میں مختلف سوچ رکھنے والی پارٹیوں کے نمائندے شامل ہیں مذاکرات کے دوران ہر پارٹی کو کسی ایک بات پر متفق کرنا مشکل ہوگا جس کے نتیجے میں یاتو کوئی پارٹی احتجاج کے طورپر مذاکرات سے الگ ہوجائے گی یا مذاکرات بے نتیجہ رہیں گے اور افہام وتفہیم کی اب تک کی تمام کوششیں رائیگاں چلی جائیں گی۔۔تحریک انصاف کا بنیادی مطالبہ سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کی رہائی ہے تاہم اس سے بھی بڑھ کر اسے ایسے معاملات پر آگے بڑھنا چاہیے جو آئندہ کے لئے سیاسی حوالے سے سازگار ماحول بنانے میں کارآمد ثابت ہو سکتے ہوں۔ ایک بڑا بریک تھرو تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان مذاکرات کے ساتھ ساتھ عمران خان کے کارکنوں کی رہائی کا عمل بھی شروع کردیا جائے ،حکومت کے پاس اگر مقدمات قائم کرنے کا اختیار ہے تو مقدمات واپس لینے کا بھی اختیار موجود ہے اس حوالے سے کسی قانونی قدغن سے بچنے کیلئے ابتدا ان کارکنوں کی رہائی سے کرنی چاہئے جن کو ابھی تک سزائیں نہیں سنائی گئیں حکومت ان پر قائم کئے گئے مقدمات واپس لے لے تو ان کی فوری رہائی میں کوئی قانی رکاوٹ نہیں رہے گی دوسری جانب سرکاری وکلاسے کہا جائے کہ جن کارکنوں کو سزائیں ہوچکی ہیں ان کی نظر ثانی کی اپیلوں کو منظور ہونے دیں اس طرح تمام کارکن بآسانی رہاہوسکتے ہیں ،مذاکرات کے ساتھ ساتھ وزیراعظم شہباز شریف کو عمران خان سے بھی براہ راست رابطہ کرنا چاہئے ، اس سے یہ پیغام جائے گا کہ دونوں فریق معاملات کو سدھارنے میں سنجیدہ ہیں۔ حکومتی صفوں کا یہ شک بھی دور ہو جائے گا کہ عمران خان شاید مذاکراتی کمیٹی کے فیصلوں سے اتفاق نہیں کریں گے مذاکرات کبھی یکطرفہ ایجنڈے کی منظوری پر کامیاب نہیں ہوتے، ان میں لچک دکھانا پڑتی ہے۔ کچھ لو اور کچھ دو کا اصول کارفرما ہوتا ہے تو بات بنتی ہے۔ اس لئے ان مذاکرات میں دونوں فریق مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں اور جن نکات پر اتفاق رائے ممکن ہے انہیں منظور کرنے میں دیرنہ کریں۔
اب جب کہ برف کے پگھلنے کا آغاز ہوا ہے تو ایسے میں مذاکرات کی کامیابی اور سیاسی و معاشی استحکام کے لیے ناگزیر ہے کہ فریقین سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، حکومت سیاسی کارکنوں پر قائم دہشت گردی کے مقدمات ختم کرے، نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف فوجی عدالتوں سے مقدمات خارج کرے، جوڈیشل کمیشن قائم کرکے آئین و قانون کے تحت سیاسی اسیروں پر قائم مقدمات کا فیصلہ کیا جائے ،مسائل کا حل مذاکرات میں ہی ہے ۔ امید ہے کہ کم سے کم وقت میں تمام مسائل کا نتیجہ خیز حل نکل آئے گا، دونوں کمیٹوں میں سنجیدہ لوگ ہیں، مذاکرات آگے ضرور بڑھیں گے۔وزیراعظم کو اپنے مشیر رانا ثناللہ کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات تک سسٹم آگے نہیں چل سکتا، سیاسی استحکام سمیت اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ سیاسی لوگ بیٹھ کر جمہوری انداز میں مسائل حل کریں۔اب وزیراعظم کو یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ تحریک انصاف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے جسے جماعت اور سیاسی انتظام میں لانا ضروری ہے ۔کیونکہ تحریک انصاف کے سیاسی حامیوں کو نہ تو بحیرہ عرب کے سُپرد کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہمالیہ کے پیچھے دھکیلا جا سکتا ہے لہٰذا اسے بطور جماعت تسلیم اور قبول کرنا ہو گا۔تحریک انصاف بھی مقتدرہ کی اہمیت سمیت دیگر سیاسی جماعتوں اور بیانیوں کو مسترد نہیں کر سکتی، سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت سے انکار اور مقتدرہ کو مختار کل سمجھنا کسی صورت سیاسی رویہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔