عدلیہ کو سیاسی جماعتوں میں تقسیم نہ کرو،حکومتی مسودے پر اتفاق ممکن نہیں،مولانا فضل الرحمن
شیئر کریں
سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آئینی ترامیم کے حوالے سے گزشتہ مؤقف پر قائم ہیں، ہماری شرائط مانی جائیں تو مناسب مسودے پر اتفاق ہوسکتا ہے۔اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ مسودے پر بات چیت کا آغاز کردیا ہے اور آج ہی کمیٹی کے اراکین کو کاپیاں دی ہیں، بلاول اس سے قبل بھی تشریف لائے تھے اور آج بھی آئے، ہم نے اتفاق کیا ہے کہ پی پی اور جے یو آئی ایک متفقہ مسودے کی طرف آگے بڑھیں گے، حکومت کے دوسرے اتحادیوں کو بھی اس مسودے کے بارے میں اعتماد میں لیا جائے اور اپوزیشن کو بھی سب مل کر اتفاق رائے کی طرف لائیں۔فضل الرحمان نے کہا کہ ہماری طرف سے پیپلز پارٹی کو یہ اطمینان کرایا گیا ہے کہ ایک مناسب مسودے پر اتفاق کرسکتے ہیں بشرط یہ کہ ہماری تجاویز بھی قبول کی جائیں، ابتدا میں حکومت نے جو مسودہ دیا تھا وہ آئینی اور قانونی اعتبار سے ناقابل قبول تھا ہم آج اپنے موقف پر قائم ہیں اور کوشش ہے کہ جو قابل اعتراض مواد ہے اسے مکمل صاف کردیا جائے اور جس پر اتفاق رائے ہوسکے اس سے آئین و عدلیہ میں اصلاحات لاسکیں۔سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ ہم نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین میں موجود ماضی کے بگاڑ کو ختم کیا تھا لیکن اس کے باوجود 19ویں ترمیم میں عدالتی اصلاحات میں جو پارلیمان کا کردار تھا اسے ختم کردیا گیا، ہم تجویز کرتے ہیں کہ 19ویں ترمیم کو ختم کیا جائے اور واپس 18ویں ترمیم کو بحال کیا جائے، ججوں کی تقرری سینیارٹی، کارکردگی اور صحت مندی کی بنیاد پر ہو جہاں عدالتی کمیشن کا کردار ہوگا وہیں پارلیمنٹ کا بھی کردار ادا ہوجائے گا۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے موقف کو عوامی پذیرائی ملی ہے ہمیں عوامی خواہشات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔کالعدم تنظیم سے متعلق سوال پر انہوں ںے کہا کہ وفاقی حکومت نے پابندی لگائی اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت میں کہا کہ اجازت نہیں ملنی چاہیے یہ فیصلہ ابھی برقرار ہے اور انہیں اجازت مل گئی ہے صوبائی حکومت تضادات کا شکار کیوں ہے؟ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو سیاسی طور پر تقسیم نہ کیا جائے جج، جج ہوتا ہے اسے جج ہی رہنا چاہیے، ججز بھی اپنے عمل سے عوام کو مطمئن کریں کہ وہ غیرجانب دار ہیں، 25 اکتوبر کو اگر چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ ہونی ہے تو ہوجائیں مگر نظام کو چلنا چاہے، عدلیہ کا اعتماد بحال کرنا ہے۔آئینی بینچ ہو یا آئینی عدالت یہ دونوں ایک دوسرے کے متبادل ہوسکتے ہیں اگر اس پر ہمارا تنازع ختم ہوجائے تو یہ کوئی بڑا ایشو نہیں ہے بات اصولوں کی ہے ہمیں عدلیہ سے یہ کام لینا ہے کہ آئینی اور عوامی مقدمات الگ الگ ہوجائیں۔ان کا کہنا تھا کہ کوشش ہے کہ پہلے ہم اور پی پی اتفاق رائے کریں اس کے بعد اسے پی ٹی آئی کے سامنے پیش کریں اور ادھر پی پی اپنے اتحادیوں کے سامنے پیش کرے، معاملے میں تاخیر نہیں چاہتے مگر اٹھارہویں ترمیم میں نو ماہ لگائے تو کم از کم نو دن تو دیے جائیں، ان کا کہنا تھا کہ فی الحال مسودہ کے تشہیر نہیں کرسکتے اسے صرف اسٹیک ہولڈرز کے سامنے پیش کریں گے، ہمیں اگر ووٹ دینا ہوتا تو دے چکے ہوتے ہم رکے اس لیے ہیں کہ ہمیں مسودہ قبول نہیں تھا ہماری شرائط تسلیم ہوجائیں گی تو مسودہ قبول کرلیں گے۔