میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نگراں حکومت کے جاتے جاتے معاشی حملے

نگراں حکومت کے جاتے جاتے معاشی حملے

جرات ڈیسک
اتوار, ۱۸ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

پاکستان اس وقت شدید مہنگائی کی لپیٹ میں ہے اور نگراں حکومت نے جاتے جاتے پیٹرول و ڈیزل اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرکے بظاہر چند روز بعد برسراقتدار آنے والی متوقع حکومت کا کام کچھ آسا ن اور پاکستان کے عوام کیلئے زندگی کچھ زیادہ مشکل کردی ہے۔ کیونکہ نگراں حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اس اضافے کی وجہ سے اب مہنگائی کی ایک نئی لہر یقینی ہے۔پاکستان میں الیکشن ہوتے ہی نگران وفاقی حکومت کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد وفاقی کابینہ نے بھی اس کی توثیق کر دی ہے۔ملک میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ کا فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب صارفین بجلی کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ڈیزل و پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ملک میں مہنگائی کی شرح 28 فیصد سے زائد کی بلند شرح پر موجود ہے۔پاکستان میں 8 /فروری کو ہونے والے انتخابات کے بعد حکومت سازی کیلئے جوڑ توڑجاری ہے اور نگران حکومت اس وقت اپنے اختتامی دن گزار رہی ہے۔تاہم اس کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافے سے گھریلو اور صنعتی صارفین پر اضافی بوجھ پڑا ہے۔وفاقی کابینہ کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافہ یکم فروری 2024 سے نافذ العمل ہو گا یعنی فرور ی کے مہینے میں گیس استعمال کرنے پر صارفین کو مارچ کے مہینے میں اس کے بل کی ادائیگی کرنا پڑے گی۔حکومتی فیصلے سے صنعتی صارفین بھی متاثر ہوں گے تاہم اس کے ساتھ گھریلو صارفین کو بھی گیس کے استعمال پر زیادہ قیمت ادا کرنا پڑے گی۔گھریلو صارفین کی کیٹگری میں پروٹیکیڈ اور نان پروٹیکیڈ صارفین دونوں کے لیے گیس کی قیمت بڑھا دی گئی ہے۔گیس کی سلیبز میں 0.25 ہیکٹرومیٹر سے 0.90 ہیکٹرو میٹر تک ماہانہ گیس استعمال کرنے والے صارفین پروٹیکیڈ کیٹگری میں شامل ہیں اور اس سے زیادہ گیس استعمال کرنے والے نان پر وٹیکیڈ صارفین میں شمار ہوتے ہیں۔ان دونوں کیٹیگریوں کے لیے گیس کی قیمت میں 5 سے 67 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔اس شعبے کے امور پر نظر رکھنے والے افراد کے مطابق موجودہ اضافے سے قبل نگران حکومت نے نومبر 2023 میں بھی گیس کی قیمت میں اضافہ کیا تھا جو حالیہ اضافے سے بھی زیادہ تھا۔گیس و بجلی کے شعبے کے امور پر رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافیوں کا کہناہے کہ نومبر کے اضافے کی شدت اس لیے بھی زیادہ محسوس ہوئی تھی کیونکہ گیس کے بلوں میں فکسڈ چارجز کو بہت زیادہ بڑھا دیا گیا تھا۔ جن صارفین کے بلوں میں فکسڈ چارجز 10 روپے تھے وہ 400 روپے ماہانہ تک کر دیے گئے تھے۔ نومبر میں مختلف کیٹگریوں میں ماہانہ فکسڈ چارجز کو400 روپے سے ایک ہزار اور 2ہزار روپے تک کر دیا گیا تھا۔گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں پروٹیکیڈ صارفین یعنی کم گیس استعمال کرنے والے صارفین جو کم آمدنی والے افراد ہوتے ہیں، ان کے گیس کے نرخوں میں البتہ کوئی اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔تاہم اب نگران حکومت کے حالیہ اقدام میں ان صارفین کے لیے بھی گیس کی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔پاکستان میں نگران حکومت کی مدت ختم ہونے کو ہے اور نئی حکومت بنانے کی تیاریاں جاری ہیں۔تاہم اس کے باوجود نگران حکومت نے گیس کی قیمت میں اضافہ کر دیا۔واضح رہے کہ پاکستان اس بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کا حصہ ہے جس کی وجہ سے گذشتہ مہینوں کے دوران بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا تھا اور اب گیس کی قیمت میں اضافے بھی قرض کی شرائط کی وجہ سے ہوا ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے گذشتہ مہینے جاری ہونے والی کنٹری رپورٹ میں پاکستان کو 15 فروری 2024 تک گیس کی قیمت بڑھانے کا کہا گیا تھا۔توانائی شعبے کے ماہرین کا کہناہے کہ یہ فیصلہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کی روشنی میں کیا گیاکیونکہ ’آئی ایم ایف کہتا ہے کہ گیس کی قیمت پر جو خرچ آ رہا ہے، اسے صارفین کو متنقل کیا جائے تاکہ ملک کا مالیاتی نظم و ضبط برقرار رہے۔ایسا اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ملک میں گیس سپلائی کرنے والی کمپنیوں کی ریونیو ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ پاکستان میں سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس سپلائی کرتی ہیں اور ان کے اخراجات ہیں جو انھوں نے گیس سپلائی کے لیے کیے ہیں، اسی طرح انھیں او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل سے گیس بھی زیادہ قیمت پر مل رہی ہے، ایسی صورت میں انھیں اپنی ریونیوکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گیس کی قیمت بڑھانا پڑے گی۔ اس سے عام گھریلو صارفین کے گیس کے بل میں 10 سے 15 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ گذشتہ سال نومبر کے مہینے میں جو اضافہ ہوا تھا اس میں پروٹیکیڈ صارفین کے لیے گیس کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا گیا تھا تاہم ان کے ماہانہ فکسڈ چارجز کو10 روپے سے بڑھا کر 400روپے کر دیا گیا تھا۔اسی طرح نان پروٹیکیڈ صارفین کے لیے فکسڈ چارجز کے علاوہ گیس کے نرخ بھی شامل تھے جس کی وجہ سے کافی اضافہ ہوا۔ موجودہ اضافے کو دیکھا جائے تو گیس کے بل تو بڑھ جائیں گے تاہم یہ اضافہ10 سے 15فیصد تک ہو سکتا ہے۔یعنی ایک صارف جس کا بل 3 سے4 ہزار روپے آ رہا تھا اس کے بل میں 4 سے 500 روپے کا اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح معلوم کرنے کے پیمانے کنزیومر پرائس انڈیکس گیس کے نرخوں کا ویژن 0.66 فیصد ہے اور حالیہ اضافے سے مہنگائی کے اس انڈیکس میں کچھ اضافہ ضرور ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں گھریلو صارفین جہاں سوئی سدرن اور سوئی نادرن کی جانب سے پائپ لائنوں کے ذریعے فراہم کی گئی گیس استعمال کرتے ہیں وہیں بڑی تعداد میں صارفین سلنڈر میں ایل پی جی بھی گھروں میں استعمال کرتے ہیں۔ملک کے ان حصوں میں جہاں پائپ لائن نیٹ ورک موجود نہیں یا گیس کی کمی کی وجہ سے شہروں میں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، تو وہاں گھروں میں صارفین کے پاس ایل پی جی کا آپشن بچ جاتا ہے۔ پاکستان میں ایل پی جی کی قیمت آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے مقرر کی جاتی ہے تاہم بلیک مارکیٹ کی وجہ سے یہ ملک کے اکثر حصوں میں حکومت کی مقرر کردہ قیمت سے زیادہ پر دستیاب ہوتی ہے۔اوگرا کی جانب سے فروری 2024 کے لیے ایل پی جی کی قیمت 257.60 روپے فی کلو مقرر کی گئی ہے تاہم یہ ملک کے مختلف حصوں میں 300 روپے فی کلو سے زیادہ پر بک رہی ہے جس کی وجہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے ادارے کی نااہلی اور اس میں راشی افسران اور عملے کی موجودگی ہے۔حکومت کی جانب سے گیس کی قیمت میں اضافے کے باوجود گھریلو صارفین کے لیے قدرتی گیس سستی ہے اور ایل پی جی مہنگی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ’ابھی بھی ایل پی جی قدرتی گیس کے مقابلے میں 200 فیصد تک مہنگی ہے۔ایل پی جی ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن کے چیئر مین کاکہناہے کہ بلیک مارکیٹنگ کی وجہ سے ایل پی جی کی قیمت زیادہ ہے تاہم ’جس طرح گیس کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ مستقبل میں ایل پی جی سے مہنگی ہو جائے گی۔
پاکستان کے قومی ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے مطابق عمومی کنزیومر پرائس انڈیکس کے اعتبار سے مہنگائی میں جنوری 2023 تک گذشتہ برس کے مقابلے میں 27.6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دیگر اعداد و شمار کے علاوہ مہنگائی کا تعین بھی پاکستان شماریات بیورو کے ذمہ ہے اور اس کے لیے یہ کنزیومر پرائس انڈیکس کے طریقہ کار کا استعمال کرتا ہے۔اس کے لیے بنیادی ضروریات اور خوراک کی کئی چیزوں کی ایک تصوراتی باسکٹ یا ٹوکری بنائی جاتی ہے اور پھر دیکھا جاتا ہے کہ پہلے ایک ہفتے، ماہ یا سال میں اس ٹوکری کو خریدنے کے لیے کتنے پیسوں کی ضرورت تھی اور اب کتنے کی ضرورت ہے۔اس ٹوکری میں شامل اشیا میں خوراک کی مد میں چکن، گندم، چاول، آٹا، پیاز، دودھ، دالیں، دیگر سبزیاں اور پکانے کا تیل جیسی اشیا ہیں۔اسی طرح کچھ چیزیں خوراک نہیں مگر بنیادی ضروریات ہیں مثلاً گھر کا کرایہ، بجلی، گھریلو
آلات، ایندھن، ٹرانسپورٹ وغیرہ۔اس طریقہ کار کے مطابق جنوری 2022 سے اب تک قومی سطح پر اس پوری ٹوکری کی قیمت میں 27.55 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔تاہم چند ماہرین کے مطابق کچھ چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ اس ڈیٹا سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتا ہے اوراس طریقہ کار سے ہمیشہ مہنگائی کی درست عکاسی نہیں ہوتی۔ لیکن فی الوقت پاکستان میں مہنگائی دیگر ممالک کی طرح اسی طریقے کے ذریعے جانچی جاتی ہے۔ماہرین اقتصادیات کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی کئی وجوہات ہیں۔اُن کا کہناہے کہ بڑھتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی قرضوں، سرکاری اداروں کو بھاری سبسڈیز سمیت دیگر غلط اقتصادی فیصلوں اور گورننس کے متعدد مسائل کی وجہ سے ہم اس صورتحال تک پہنچے ہیں۔اس کے علاوہ یوکرین میں امریکہ کی پراکسی جنگ، چین اور امریکہ کے تنازعے میں اضافے سمیت دیگر جیوپولیٹیکل معاملات کا بھی اثر مہنگائی پر پڑ رہا ہے جو سب سے زیادہ ایندھن اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔چونکہ پاکستان اپنی گندم کا بہت بڑا حصہ بیرون ملک سے درآمد کرتا ہے جبکہ خوردنی تیل وغیرہ بھی ہم زیادہ تر دوسرے ممالک سے درآمد کرتے ہیں، اس لیے اگر ان چیزوں کی قیمتیں عالمی سطح پر بڑھتی ہیں تو ہمیں یہ چیزیں پاکستان میں بھی مہنگی ملیں گی۔اس کے علاوہ ڈالر کی بڑھتی قیمت کی وجہ سے بھی جو چیز پہلے کم پیسوں میں پاکستان پہنچ رہی تھی اب اس کے لیے کہیں زیادہ پیسے ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔کسی بھی ملک کا مرکزی بینک مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے شرحِ سود میں اضافہ کرتا ہے جس کی وجہ سے معیشت کچھ حد تک سست ہو جاتی ہے اور چیزوں کی قیمتیں نیچے آنے لگتی ہیں۔اسٹیٹ بینک نے پہلے ہی شرحِ سود اس وقت 17 فیصد مقرر کر رکھی ہے جو پاکستانی تاریخ میں شاید ہی کبھی اتنی بلند رہی ہو، لیکن مہنگائی پھر بھی قابو میں نہیں آ رہی۔جس سے ظاہرہوتاہے کہ پاکستان میں روایتی طریقہ کار شاید وہ نتائج فراہم نہ کر پائیں جن کی توقع ہے بلکہ شاید یہ مسائل میں اضافہ کر دیں۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ عالمی سطح پر ان چیزوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں جو پاکستان خریدتا ہے اور انھیں خریدنے کے لیے درکار ڈالرز بھی مہنگے ہو رہے ہیں۔ پاکستان کو اس کے بنیادی مسائل حل کرنے اور مستحکم ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے راستے تلاش کرنے ہوں گے کیونکہ اب مرہم پٹیوں‘ سے کام نہیں چلے گا۔یہ بنیادی مسائل کیا ہیں؟ بے روزگاری، توانائی کے شعبے میں موجود مسائل، اور مہنگائی کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے لوگوں کو پیسے دینا وہ چیزیں ہیں جو حکومت کے مالی خسارے میں اضافہ کر رہی ہیں۔کاہلی یہ ہے کہ اسے دور کرنے کے لیے مزید نوٹ چھاپ لیے جائیں مگر اس سے مسائل حل نہیں ہوں گے نہ ہی مہنگائی کم ہو گی۔موجودہ حالات میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سی چیزیں اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکی ہیں اور لوگوں نے یا تو وہ خریدنی چھوڑ دی ہیں یا لوگ ان کے متبادل تلاش کر رہے ہیں بہت سی چیزوں کی طلب کم ہونے کی وجہ سے بالآخر شاید ان کی قیمتیں نیچے آ جائیں مگر عمومی طور پر مہنگائی میں کسی کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔مختلف اقتصادی ماہرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ طلب میں
کمی اگر صرف قیمتوں کی وجہ سے ہو تو ان کے واپس بڑھنے کا امکان رہتا ہے جب تک کہ لوگ مستقل طور پر ان کے متبادل پر نہ منتقل ہو جائیں۔اب سوال یہ ہے کہ گندم، چینی اور چاول کا کیا متبادل ہو سکتا ہے؟اس وقت اجرتیں اور تنخواہیں بھی مہنگائی کے حساب سے نہیں بڑھ رہیں بلکہ نجی شعبے میں جو ملک میں سب سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرنے والا شعبہ ہے تنخواہوں پر گزشتہ کئی سال سے جمود طاری ہے۔جس کی وجہ سے نچلا طبقہ تو کجا متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقے کے لوگ بھی مہنگائی کی دہائی دیتے ہوئے بچت کرنے کیلئے اپنا طرز زندگی تبدیل کرتے نظر آرہے ہیں،اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس بھیانک صورت حال میں برسراقتدار آنے والی کوئی بھی حکومت عوام کو ریلیف دینے کیلئے کیا کرسکے گی،یہی وہ حقائق ہیں جن کا ادراک کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے وزارت عظمیٰ سنبھال کر عوام کی بد دعائیں لینے کے بجائے اپنے چھوٹے بھائی کو آگے کردیاہے،شہباز شریف اس سے قبل پی ڈی ایم کی حکومت میں وزیر اعظم ہونے کے ناتے عوام کی لعنت ملامت کا مرکز بن چکے ہیں اور نواز شریف نے ایک دفعہ پھر انھیں قربانی کا بکرا بنا کر جوتوں کا ہار پہننے کیلئے آگے کردیاہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں