میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے ۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر13 )

پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے ۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر13 )

منتظم
جمعه, ۷ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

امریکا اور جرمنی کے بڑے بینک آف شور کمپنیوں کے غیرقانونی کام میں مصروف تھے
وکلا ،ایسیٹس منیجرز اور اکائونٹنگ کی فرمز کے علاوہ بینک بھی آف شور کاروبار کے بڑے کھلاڑیوں میں شامل تھے،بہت کم لوگ موفسون جیسے اداروں سے براہ راست رابطہ کرتے بلکہ ان کے بینکار یاوکلا ان کے مفادات کی نگرانی کرتے تھے
تلخیص وترجمہ : ایچ اے نقوی
موزاک فونسیکا اپنی نوعیت کی واحد کمپنی تھی جوبحران سے نمٹنے میں ماہر تھی بلکہ اس حوالے سے دوسروں کی بھی مدد کرتی تھی جس کی واضح مثال کامرس بینک کی تھی ۔کامرس بینک پر چھاپے کے دوسرے دن جرمنی کے دوسرے سب سے بڑے بینک نے صحافیوں کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ یقینا بینک سے کچھ غلطیاںہوئی ہوں گی لیکن یہ پرانے وقتوں کی باتیں ہیں کافی عرصے سے اس نے مشکوک ڈیلنگس کا سلسلہ بند کردیا تھا۔یہ سب کم وبیش 10 سال پرانے معاملات ہیں 2007سے بینک سختی سے اصولوں پر عمل کررہا ہے یہاں تک کہ پاناما میں شیل کمپنیوں کیلیے اپنے کھاتیداروں کی درخواست کو آگے بڑھانے سے بھی انکار کردیاہے۔
ہم نے یکے بعد دیگرے ڈیٹا چیک کرنا شروع کیا اور ہمیں یکے بعد دیگرے ایسی فرمز کاپتا چلانے میں کوئی دقت نہیں ہوئی جس سے یہ ظاہر ہوتاتھا کہ کامرس بینک 2005سے 2015 کے دوران اپنے جرمن کھاتیداروں کیلیے موزاک فونسیکا کو فرمز کے قیام کی ہدایت دیتارہاتھا۔ہمیں فنانشیل ایڈوائزرز کی جانب سے کی جانے والی ای میلز انکارپوریشن سرٹیفیکٹس ،کھاتیداروں کی جانب سے پاور اٹارنی سیفس تک رسائی کی اجازت اور بیڈن ویلر ایس اے سے کیلنڈسٹائن لمیٹیڈ اور پن گوئن ہولڈنگ ایس اے تک تمام کمپنیوں کے نام ،ان کمپنیوں کے مالکان کے نام جہاںتک ہم نے دیکھا کہ دولت مند افراد کو عوام نہیں جانتے تھے۔بلکہ ہمیں اس سے بھی زیادہ ایسی شیل کمپنیوں کے نام بھی مل گئے 2015 تک کامرس بینک جن کی دیکھ بھال اور نگرانی کے فرائض انجام دے رہاتھا۔
کامرس بینک زیادہ اچھا تاثر پیدا ہوتا اگر وہ سچ پر قائم رہتا،کیونکہ یہ ظاہر ہورہاتھا کہ بینک نے اس کاروبار کو مشکلات سے پر قرار دے کر 2008 میںاس سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ ہمیں بینک ملازمین کی بات چیت کے بارے میں ای میلز اور میموز بھی ملے جن میں بینک ملازمین موسفین کے عملے سے کہہ رہے تھے کہ انھیں اب اس طرح کی لین دین کی اجازت نہیں ہے،لیکن لگژمبرگ میں اس کی ذیلی کمپنی کامرس بینک انٹرنیشنل اس پر قائم نہیں رہ سکا دسمبر 2014 میں پاناما کمپنیوں کے کھاتیداروں کو آخری وارننگ اور ایک مبہم ٹیکس اسٹیٹس دیاگیاتھا اس میں یہ واضح اور صاف پیغام دیاگیاتھا کہ جو اپنا کام صاف ستھرا نہیں رکھنا چاہتاوہ دوسرے بینک سے رابطہ کرلے۔
اب اس بات کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنا رویہ کیوں تبدیل کیا ،جرمنی کی حکومت نے 2008-09 کے مالی بحران کے دوران کامرس بینک کو سہارا دینے کیلیے18بلین یورو دیے تھے،اس وقت کامرس بینک کے سربراہ ایرک سٹورٹزنے جرمن پارلیمنٹ کو یقین دلایاتھا کہ کامرس بینک کسی طرح کے مالیاتی جرائم میںملوث نہیں ہوگا اور غیر قانونی سرگرمیوں سے دوری اختیار کیے رکھے گا۔یہ بات بہت اچھی معلوم نہیں ہوتی کہ آپ ایک ہاتھ سے تو اپنی حکومت سے اربوں یورو حاصل کریں اور دوسری جانب اسی حکومت کو دھوکا دینے میں اپنے کھاتیداروں کی مدد کریں۔
وکلا ،اسیٹس منیجرز اور اکائونٹنگ کی فرمز کے علاوہ بینک بھی آف شور کاروبار کے بڑے کھلاڑیوں میں شامل تھے۔بہت کم لوگ موفسون جیسے اداروں سے براہ راست رابطہ کرتے تھے،بلکہ ان کے بینکار یاوکلا ان کے مفادات کی نگرانی کرتے تھے۔وہ آف شور کی مشین کو رواں رکھتے تھے وہ بدنام ترین ٹیکس چوروں کو بھی مشورہ دیتے تھے،آرڈر دیتے تھے اور پھر ان کی دیکھ بھال کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے۔ دستیاب ڈیٹا میں ایسی بیشمار مثالیں موجود تھیں جن میں ہوٹل کی لابیوں یا اپنے دفاتر میں میٹنگس کے دوران موزاک فونسیکاکو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ ان کے کھاتیدار ٹیکس کے معاملے میں مشکلات کاشکار ہیں۔ یقینا اس قسم کی گفتگو بند کمروں میں ہی ہوتی ہوگی۔
عام طورپر بڑی کمپنیاں ہی رقوم پوری دنیا میں بھیجتی ہیں، امریکا کے بڑے بینکوں کے علاوہ جرمن بینک بھی اس طرح کے کاروبار کیلیے زیادہ موزوں تھے۔چند سال قبل ڈوئچے بینک کو کمپنی کی جانب سے اپنی ویب سائٹ پر آف شور سروسز کا اشتہار دینے پر امریکی سینیٹ میں تنقید کاسامنا کرنا پڑاتھا، اس اشتہار میں ماریشس کو ٹیکس کے حوالے سے غیر جانبدار ماحول کاحامل قرار دیاگیاتھا لیکن یہ بات رپورٹروں تک پہنچ جانے کے بعد اس اشارے کوحذف کردیاگیاتھا۔
گزشتہ 10برسوں کے دوران بڑے بینک نہ چاہتے ہوئے اس کاروبار یعنی ایسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوئے کیونکہ ان کو خطرہ تھا کہ اس کاروبار میں پکڑے جانے کے خدشات اس سے ہونے والے منافع کے مقابلے میں زیادہ ہوگئے تھے۔اسے اخلاقی فیصلہ تصور کرنے والے کسی بینک کے نمائندہ بن گئے۔ہمارے پاس موجود ڈیٹا سے ظاہر ہوتاتھا کہ جرمنی کاکم وبیش ہر بینک کسی نہ کسی طرح آف شور کاروبار سے منسلک تھا۔ہم نے ڈوئچے بینک کوسرچ کیا تو ہزاروں ثبوت سامنے تھے، ڈریسڈنر بینک کابھی یہی حال تھا۔ متعدد ریجنل بینکوں کے بھی ایسے ہزاروں معاملات تھے۔یہ درست ہے کہ ہر بینک ٹیکس چوری میں معاونت نہیں کررہاتھا لیکن بیشتر ایسا کررہے تھے یہاں تک کہ سرکاری بینک بھی اپنے کھاتیداروں کو حکومت کو دھوکہ دینے میں مدد دے رہے تھے۔
کامرس بینک پر چھاپے کے فوری بعد ہائپو ویرینس بینک کے حکام خود ہی کولون میں پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر پہنچ گئے اور انھوںنے کہا کہ اس سے قبل کہ آپ ہمارے پاس آتے ہم خود ہی آپ کے پاس آگئے ہیں پھر انھوںنے بینک کی غلط کاریوں کااعتراف کیا ۔اس پر حکام اور ہائپو ویرینس بینک کے درمیان معاملات طے پاگئے اور ٹیکس کے حوالے سے بینک کے جرائم کی پاداش میں بینک کو نسبتا ًکمتر اور نرم سزا دی گئی اور بینک نے حکومت کو 10ملین یورو سے کچھ زیادہ رقم اد ا کردی۔اس کے بعد دوسرے بینکوں نے بھی اس کی تقلید کی ،خود کو حکام کے سامنے پیش کرنے والے بینکوں میں ایچ ایس نارڈ بینک جیسا ایک ایسا بینک بھی شامل تھا جس میں خود حکومت کے شیئرز بھی موجود تھے اس بینک کے معاملے میں ہمارے ساتھی کلاز کی تحقیق کے مطابق 22ملین ڈالر میں معاملہ طے ہوا ۔
ہمارے پاس اس حوالے سے ڈیٹا کاانبار جمع ہورہاتھا اس کاپہاڑ کھڑا ہوگیاتھا۔اس میں بعض اوقات ٹیکنیکل رکاوٹ پڑ جاتی تھی جبکہ بعض اوقات ایسا معلوم ہوتاتھا کہ کام بہت سست رفتاری سے ہو رہاہے لیکن زیادہ سے زیادہ معلومات کاذخیرہ جمع ہوتا جارہاتھا اوراب ہمارے پاس موجود ڈیٹا کاحجم 100گیگا بائٹس تک پہنچ گیاتھا ،ہمارے شعبے کاسربراہ ہر دوسرے دن ہم سے پوچھتاتھا کہ کیا معلومات کے پہاڑ میں اب بھی اضافہ ہورہاہے،وہ ہمارے جوش وجذبے سے بہت متاثر تھا جوکہ ہمارے اور اس پراجیکٹ دونوں کیلیے فائدہ مند تھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں