میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسرائیلی درندگی اور امریکی بے شرمی جاری ہے

اسرائیلی درندگی اور امریکی بے شرمی جاری ہے

جرات ڈیسک
منگل, ۱۷ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

اسرائیلی درندگی جاری ہے اور امریکہ اس درندگی میں اسرائیل کا نہ صرف حمایتی ہے بلکہ ہر طرح سے مدد بھی کر رہا ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کے لیے اسرائیلی حکومت کی مدد کی درخواست کے بغیر ہی اپنا ایک بحری بیڑ ا حماس کے خلاف کارروائیوں کیلئے اسرائیل بھیج دیا ہے جس میں طیارہ بردار جہاز سمیت5 تباہ کن بحری جہاز شامل ہیں۔ امریکی فضائیہ نے بھی علاقے میں اپنی طاقت بڑھانے کااعلان کیاہے،امریکہ نے اس کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیاہے کہ اسرائیلی فوج کے لیے مزید فوجی سازو سامان، لڑاکا طیارے، ہتھیار اور گولہ بارود بھی اسرائیل بھیج رہے ہیں۔ امریکی ایئرفورس کے ایف 15، ایف 16، ایف 35 اور اے 10 لڑاکا طیارے بھی اسرائیل بھیج دیے گئے ہیں۔
ایک جانب فلسطین میں اسرائیلی مظالم کی یہ صورت حال ہے کہ کسی وقت بھی کوئی بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے مگر دوسری جانب مہذب، اصول پسند اور حق و انصاف کی علمبردار ہونے کی دعویدار مغربی دنیا کا حال یہ ہے کہ وہ ہر یکطرفہ ظلم و ستم ٹھنڈے پیٹوں برداشت ہی نہیں کر رہی بلکہ نہایت ڈھٹائی اور بے حیائی سے کھلم کھلا اسرائیل کی سفاکیت کی پشت پناہی بھی کر رہی ہے۔ مہذب دنیا کے سرخیل امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے واضح الفاظ میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کے اعلان کے ساتھ اسلحہ اور گولہ بارود سے بھرے جہاز تل ابیب پہنچا دیے ہیں تاکہ اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن خود اظہار یکجہتی کے لیے اسرائیل پہنچے ہیں اور وہاں بیٹھ کر اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں اپنے ساتھ یہ پیغام بھی لایا ہوں کہ آپ اپنے دفاع کے لیے خود کافی مضبوط ہو سکتے ہیں، لیکن جب تک امریکہ موجود ہے آپ کو اپنا دفاع نہیں کرنا پڑے گا۔برطانوی حکومت نے بھی اسرائیل کی مدد کے لیے دو بحری جہاز اور نگران طیارے مشرقی بحیرہ روم بھیج دیے ہیں اور برطانیہ کے بھارت نژاد وزیر اعظم رشی سوناک نے بیان دیا ہے کہ دیگر اتحادی ممالک کے ساتھ برطانوی بحری جہازوں کی مشرقی بحیرہ روم میں تعیناتی سے علاقائی استحکام یقینی بنانے کی کوششوں میں مدد ملے گی۔ جرمنی نے اسرائیل کو اپنے دو ہیبرون ٹی پی ڈرون طیارے فلسطینی عوام کی نسل کشی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ جرمن چانسلر اولاف شولز نے ملک بھر میں حماس کی سرگرمیوں پر پابندی کا اعلان بھی کر دیا ہے اور پارلیمنٹ میں اپنے ایک بیان میں اسرائیل پر حماس کے حملوں پر فلسطینی صدر کی خاموشی کو شرمناک قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے ایک اور فعال رکن فرانس نے اپنے ملک میں فلسطینی عوام کے حق میں مظاہروں پرپابندی عائد کر دی ہے۔ فرانسیسی وزارت داخلہ کے اعلامیہ میں نقضِ امن کے خدشے کے پیش نظر فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں پر پابندی کی تصدیق کرتے ہوئے ایسے مظاہروں کے منتظمین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ انہیں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پوری دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تازہ صورتحال مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا کے امن کے لیے سنگین خطرہ ہے،مغربی دنیا کا ظلم اور ظالم کی حمایت کا یہ طرز عمل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، بلکہ یہ سب کچھ دھڑلے سے ڈنکے کی چوٹ پر نہایت ڈھٹائی سے کسی شرم و حیا کے بغیر کیا جا رہا ہے۔ حماس کے اسرائیل پر تاریخی اور حیران کن حملے کے بعد اسرائیلی افواج کی مشتعل ہوکر ہفتے سے غزہ پر بمباری جاری ہے، اسرائیلی افواج بلاامتیاز رہائشی عمارتوں، خواتین اور بچوں کو بھی نشانہ بنارہی ہیں جس کے سبب ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔دنیا بھر کے ممالک نے اسرائیل کے غزہ کا محاصرہ کرنے اور بمباری کی شدید مذمت کی ہے اور فوری طور پر حماس اور اسرائیل سے جنگ بندی سمیت اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے،اسرائیل نے حماس کوخوفزدہ کرنے کیلئے غزہ کی پٹی پر زمینی حملے شروع کر دیے ہیں اور حماس کو مرعوب کرنے کیلئے ہزاروں فوجی، ٹینک اور توپ خانہ غزہ کی سرحد پر اکٹھے کیے رہے ہیں۔تاہم اسرائیلی اس تمام سازوسامان کے باوجود غزہ پر یلغار کی ہمت نہیں پڑرہی ہے کیونکہ اسرائیل کے فوجی جرنیلوں کا خیال ہے گنجان آباد غزہ میں فوجی بھیجنا خطرات سے خالی نہیں ہو گا۔ اسرائیلی فوج کے میجر جنرل ایموس گلیاڈ کاکہنا ہے کہ اسرائیل پہلے ایک اتحادی حکومت کی تشکیل کرے گا تاکہ مستقبل میں ہونے والے اقدامات کے لیے عوامی حمایت حاصل کی جا سکے۔حالیہ اعلیٰ سطحی امریکی اور یورپی سیاستدانوں کے دوروں سے اسرائیل بین الاقوامی سطح پر تو حمایت مضبوط کر رہا ہے لیکن امریکہ اور اسرائیل دونوں کو یہ خدشہ ہے اگر یہ جنگ طویل عرصہ جاری رہی اور عام شہریوں کی اموات میں اضافہ ہوا تومغربی دنیا کی جانب سے بھی اسرائیل کے ساتھ یکجہتی میں کمی بھی آ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ عسکری آپریشن میں بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت بھی اسرائیل کے عزم کو کمزور کر سکتی ہیں۔جہاں تک عسکری تیاریوں کا معاملہ ہے تو اسرائیل غزہ کی سرحد پر اپنی فوج اکٹھی کر چکا ہے۔ فوج کے ایک لاکھ 60 ہزار سپاہیوں کے علاوہ تقریبا تین لاکھ ریزرو فوجی بھی بلائے جا چکے ہیں۔اسرائیلی فوجیوں کے جو انٹرویو مغربی میڈیا میں آئے ہیں ان سے ظاہرہوتاہے کہ ان کی اکثریت چاہتی ہے کہ امن ہو لیکن بدقسمتی سے موجودہ اسرائیلی رہنماؤں کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں۔ مغربی میڈیا کا کہناہے کہ غزہ کی سرحد پر جمع فوج جتنا زیادہ انتظار کرے گی، ان کے حوصلے برقرار رکھنا اتنا ہی مشکل ہوتا جائے گا۔اسرائیلی فضائیہ حماس کی عسکری قیادت کو نشانہ بنا رہی ہے۔ گزشتہ چھ دن میں غزہ پر چھ ہزار سے زیادہ بم گرائے جا چکے ہیں۔ موازنے کے طور پر دیکھا جائے تو نیٹو اتحاد نے 2011 میں لیبیا کی پوری جنگ میں 7700 بم گرائے تھے۔ اب تک غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملوں میں 1500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔اسرائیل کے زمینی حملے کا منصوبہ خفیہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے برسوں سے اس کی تیاری کر رکھی ہے۔ اسرائیل نے اربوں ڈالر مالیت کا ’منی غزہ‘ نام کا ایک مرکز بنا رکھا تھا جہاں فوجیوں کو تربیت دی جاتی رہی ہے کہ کسی گنجان آباد علاقے میں کیسا لڑا جائے۔اس مرکز میں اسرائیل نے غزہ جیسے گنجان آباد علاقے اور سرنگوں میں جنگ کی تیاری کی ہے۔ یاد رہے کہ حماس نے غزہ میں ایک ہزار سے زیادہ زیر زمین سرنگوں کا جال بچھا رکھا ہے۔ اسرائیلی فوج میں ایسے آپریشن کے لیے مخصوص بریگیڈ تیار کئے گئے ہیں جن میں بکتر بند بلڈوزر اور انجینئر ٹینکوں اور پیادہ فوج کے ساتھ شامل ہیں۔لیکن ان تمام تیاریوں اور سازوسامان کی بہتات کے باوجود اسرائیلی فوج کے سابق کمانڈرمیجر جنرل یاکوو امیڈور اعتراف کرتے ہیں کہ حماس سے جنگ مشکل ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ حماس نے غزہ کے داخلی دروازوں اور تنگ گلیوں میں دھماکہ خیز مواد نصب کر رکھا ہو گا۔اسرائیل کا خیال ہے کہ حماس کے پاس 30 ہزار جنگجو ہیں جو آٹومیٹک رائفلوں، راکٹ گرینیڈ اور ٹینک شکن میزائلوں سے لیس ہیں۔ حماس کے پاس بڑی تعداد میں ایسے راکٹ بھی موجود ہیں جو وہ اسرائیل پر داغتا رہا ہے۔یاکوو کاٹز کہتے ہیں کہ حماس چھوٹے ڈرون بھی تیار کر رہا ہے جن میں خودکش ڈرون بھی شامل ہیں۔ ان کے مطابق حماس کے پاس زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کی بھی محدود تعداد ہے۔ تاہم حماس کے پاس بکتربند گاڑیاں، ٹینک اور توپ خانہ نہیں ہے۔لیکن اسرائیل کے لیے اصل مسئلہ ایک گنجان آباد علاقے میں لڑنا ہو گا۔ اسرائیل نے سرنگوں میں لڑائی کے لیے خصوصی ٹیمیں تو بنا رکھی ہیں جن میں ایک انجینئرنگ یونٹ ’یاہالون‘ شامل ہے۔ اس کے علاوہ ’اوکٹز‘ نامی یونٹ کتوں سے لیس ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیلی فوج اس وقت تک سرنگوں میں جانے کوتیار نہیں ہے جب تک ایسا کرنا انتہائی ناگزیر نہ ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ حماس ان سرنگوں کو اسرائیلی فوجیوں سے زیادہ بہتر جانتی ہے۔ ان سرنگوں میں جاکر اپنے قیدی بنائے گئے لوگوں کو تلاش کرنے کے بجائے اسرائیلی فوج کی بظاہر یہ خواہش ہے کہ ان سرنگوں کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کر دیاجائے۔میجر جنرل گلیاڈ ان مذاکرات میں شامل رہے تھے جن کے ذریعے 2006 سے 2011 تک حماس کے قبضے میں رہنے والے ایک اسرائیلی فوجی کو آزاد کرایا گیا تھا۔ ان کے بدلے اسرائیل نے ایک ہزار فلسطینی قیدی رہا کیے تھے۔میجر جنرل گلیاڈ کہتے ہیں کہ ’فوج کو یرغمالیوں کے بارے میں بھی سوچنا ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہم زیادہ بڑے مسائل میں گھر سکتے ہیں۔تاہم میجر جنرل امیڈور کا کہنا ہے کہ ’یرغمالیوں کی وجہ سے آپریشن نہیں رکے گا۔ ہم حماس کے خاتمے تک لڑیں گے اور اسی آپریشن کے دوران یرغمالیوں کو تلاش کرنا ہو گا۔اسرائیل کے مطابق اس کا مقصد حماس کو تباہ کرنا ہے۔اسرائیلی فوج میں 30 برس تک خدمات سرانجام دینے والے میجر جنرل گلیاڈ کہتے ہیں کہ یہ مقصد غزہ میں گزشتہ اسرائیلی کارروائیوں سے کافی بڑا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس بار کچھ بہت زیادہ ڈرامائی کرنے کی ضرورت ہے۔حماس کے خلاف کارروائی میں اسرائیل کے مقاصد میں اس بات کو یقینی بنانا شامل ہے کہ حماس آئندہ کبھی اسرائیل پر ایسا حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل نہ کر سکے۔تاہم حالیہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ زمینی حملے منصوبے کے مطابق نہیں چلتے۔دنیا کی سب سے جدید افواج بھی مسائل میں گھر سکتی ہیں جیسا کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ اور یوکرین میں روس کے ساتھ ہو رہا ہے۔صرف 25 کلومیٹر طویل غزہ کی پٹی میں عسکری کارروائی اتنی بڑی تو نہیں لیکن  اس کا انجام ابھی واضح نہیں۔حماس کی اس کارروائی پر جس طرح پوری دنیا میں عوامی ردعمل کا اظہار کیاگیاہے اس کو دیکھتے ہوئے اسرائیلی رہنما یہ سمجھ چکے ہیں کہ حماس کی عسکری تنظیم کو شکست دینے میں آپریشن جتنا بھی کامیاب ہو، حماس کی سیاسی اہمیت اور مزاحمت کے لیے عوامی حمایت جاری رہے گی۔’اسرائیل یا تو دوبارہ غزہ پر قبضہ کرے تاکہ اسے کنٹرول کر سکے یا پھر حملے کے بعد واپس نکل جائے گا جس کے نتیجے میں عوام کو ہی فتح حاصل ہو گی جن کے لیے مزاحمت ہی زندگی ہے۔ حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو زبردستی اپنی سرزمین سے بیدخل کرنے کی کوشش ناکام بنائیں گے۔عرب میڈیا کے مطابق اسماعیل ہانیہ نے گزشتہ روز یہ واضح کردیاہے کہ 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی کارروائی اسرائیل کیلئے زلزلے سے کم نہیں تھی۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ پٹی کے عوام کو ہجرت پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروپ اسرائیل کے ناپاک عزائم کو ناکام بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ نہ مغربی کنارے کے فلسطینی اپنی سرزمین چھوڑیں گے اور نہ ہی غزہ پٹی کے، غزہ پٹی سے ہجرت نہ کرنے سے متعلق مصر کو صاف الفاظ میں بتا دیا۔

ایک طرف اسرائیل اپنی تمام ترفوجی طاقت دکھاکر اور غزہ کے معصوم نہتے لوگوں پر بمباری کرکے حماس کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کر رہا ہے دوسری طرح اسرائیل کی غزہ پر بربریت رکوانے کیلئے روس میدان میں آ گیا ہے۔ روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد کا مسودہ پیش کردیا، 15 رکنی سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس میں روس نے مسودہ پیش کیا، جس میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔سلامتی کونسل میں روس کی جانب سے پیش کیے گئے مسودے میں کہا گیا کہ شہریوں پر تشدد اور ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کی جائے، یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنائی جائے۔روس کی جانب سے انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی اور شہریوں کا محفوظ انخلا یقینی بنانے کا مطالبہ بھی کیا۔ادھر امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی آنکھ بند کرکے حمایت کے خلاف خود امریکی ارکان کانگریس خم ٹھونک کر سامنے آگئے ہیں اور غزہ کی صورت حال پر امریکی کانگریس کے ارکان نے صدر بائیڈن کو خط لکھ کر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق ارکان کانگریس نے صدر بائیڈن کو خط لکھ کر کہا ہے کہ اسرائیل کے حملوں سے غزہ کی صورت حال پر شدید تشویش ہے، شمالی غزہ سے لاکھوں فلسطینیوں کے انخلا اور اس کے خطرناک نتائج پر تشویش ہے۔ امریکی ارکان کانگریس نے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کو روکا جائے، فلسطین اور اسرائیل دونوں طرف کے شہریوں کا جانی نقصان روکا جائے، غزہ کی مکمل ناکابندی کے اسرائیلی فوج کے بیان پر بھی تشویش ہے، صدر بائیڈن اسرائیل کی غزہ کے لیے انسانی ضروریات بند کرنے کے معاملے کو دیکھیں۔ارکان کانگریس نے کہا ہے کہ غزہ میں خوراک، پانی، بجلی اور ایندھن کی فوری بحالی کرائی جائے، شراکت داروں کے ساتھ مل کر غزہ تک انسانی امدادکے لیے راہداری بنوائی جائے، امریکا اور عالمی برادری خطے کے پائیدار امن کے لیے اقدامات کریں، غزہ اور مغربی کنارے میں انسانی بحران حل کیے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں۔برطانوی حکومت کی جانب سے بھی اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کے بعد اب مظلوم فلسطینیوں کے لئے آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں،بشپ آف کنٹربری نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ اسرائیلی حکومت کو فلسطینی عوام کو غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنانے سے روکا جائے،انھوں نے کہا کہ اگر اسرائیل حماس کو ٹھکانے لگانا چاہتاہے تو وہ حماس کا تعاقب جاری رکھے لیکن معصوم اور نہتے عوام کو سزا دینا دنیا کے کسی قانون کے تحت جائز نہیں ہوسکتی،انھوں نے کہا کہ آپ کسی کے گناہ کی سزا کسی اور کو نہیں دے سکتے۔انھوں نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ وہ اسرائیلی حکمرانوں پر اپنا اثر رسوخ کرتے ہوئے انھیں حقوق انسانی کی پامالی سے روکنے کیلئے مناسب اقدامات کرے۔ اقوام متحدہ اور امن کے ٹھیکیداروں کو چاہیے کہ وہ حالات کی سنگینی کو سمجھے اور اسرائیل کو لگام دی جائے اور اسے نکیل ڈالی جائے۔ عالمی برادری کو اب یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اسرائیل جتنا بھی ظلم کر لے فلسطینی آزادی اور اپنی سرزمین سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں