میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس: بے نتیجہ مشق، دباؤ میں لانے کا حربہ

چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس: بے نتیجہ مشق، دباؤ میں لانے کا حربہ

جرات ڈیسک
پیر, ۱۰ اپریل ۲۰۲۳

شیئر کریں

باسط علی
۔۔۔۔۔

٭ حکومت کی جانب سے کوئی بھی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بذریعہ صدر ہی جاسکتا ہے، ریفرنس کی جائزہ کمیٹی کا اجلاس بھی چیف جسٹس کو ہی طلب کرنا ہوتا ہے

٭ کسی جج کے خلاف ریفرنس کے مراحل مکمل ہو نے پرسپریم جوڈیشل کمیٹی کی جانب سے متعلقہ جج کو انکوائری نوٹس ملتا ہے، جس پر وہ سپریم کورٹ میں اس ریفرنس کو چیلنج کر سکتے ہیں

٭ حکومت نے چیف جسٹس عمر عطابندیال پردباؤ ڈالنے کی ایک منظم مہم اختیا رکررکھی ہے، استعفے کا مطالبہ، ریفرنس اور سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل اسی کا حصہ ہیں

 

یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے خلاف مسلم لیگ نون نے ایک منظم مہم برپا کر رکھی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے ہی ادارے کے اندر اور باہر سے مسلسل نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس کے خلاف سب سے پہلے مریم نواز نے گفتگو کا آغاز کیا۔ لندن واپسی کے بعد وہ ایک نئے بیانئے کی تلاش میں تھی۔ ابتدا میں یہ خبریں گردش کرتی رہیں کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کو نشانا بنانے والی ہیں۔ اس حوالے سے ایک دوبیان بھی اُن سے منسوب ہوئے مگر پھر یہ اطلاع گردش میں آئی کہ پہلے جنرل(ر) باجوہ کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا گیا کہ وہ موجودہ بندوبست کے حوالے سے تمام ثبوت سامنے لاسکتے ہیں۔ اور اگر وہ زد میں آئے تو محفوظ پھر کوئی بھی نہیں ہوگا۔ دوسری جانب سے بھیجے جانے والے پیغام میں باور کرایا گیا کہ اُن کی جانب سے جو اقدامات بھی اُٹھائے گئے وہ سب ”باس“ کے احکامات کا نتیجہ تھے۔ چنانچہ اُن کے پاس بھی ”کہنے“اور”دکھانے“ کو بہت کچھ ہیں۔ ان مبینہ اطلاعات کی تصدیق سے پہلے ہی ایک اثر یہ دیکھنے میں آیا کہ مریم نواز کی تقاریر سے دونوں ریٹائرڈ جرنیلوں کا ذکر غائب ہو گیا۔ تاہم وہ سپریم کورٹ کے حاضر جج صاحبان کو اسٹیبشلمنٹ کے قائم مقام ثابت کرنے پر تُلی رہیں اور اُنہیں عمران خان کے ”سہولت کار“کے طور پر ظاہر کرنے کی تکرار کرنے لگی۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ہی بیانیہ تھا۔ جس کی مضحکہ خیز حد تک تکرارسیاسی اور قانونی مبصرین کو حیران کرنے لگی۔ مگر سیاسی تجزیہ کار ساتھ یہ بھی تجزیہ کرتے رہے کہ موجودہ حالات میں مسلم لیگ نون کے پاس کسی بھی بیانئے کی کمی کے باعث یہ مجبوری ہے کہ وہ عدلیہ کو ہی نشانے پر رکھتے ہوئے رخصتی کی راہ لیں۔ مگر یہ سب کچھ اتنا سادہ بھی نہیں۔ کیونکہ سپریم کورٹ کے اندر جاری کشمکش کی تب تک خبریں سرگوشیوں میں ہی سہی سامنے آنے لگی تھیں۔ آج سپریم کورٹ کی یہی اندرونی کشمکش حکومت اور مسلم لیگ نون کے لیے گرجنے برسنے کا ساز گار ماحول مہیا کررہی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نوے روز کے اندر انتخابات کے جائز آئینی سوال پر فیصلے نے اس اندرونی اور بیرونی کھیل کو مہمیز کیا ہے۔ اندرونی طور پر اس جائز آئینی سوال کے جواب کی تلاش کے بجائے اِسے طریقہ کار کی بحث میں الجھا کر طرح طرح کے اختلافی نوٹ دیے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار پر سوالات پیدا کیے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے اور 14/ مئی کو انتخابات کے واضح حکم کے باوجود حکومت نے اس فیصلے کو سرے سے تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا ہے۔ اس حوالے سے لندن میں موجود مسلم لیگ کے سربراہ نوازشریف نے براہ راست بھی اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے سپریم کورٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان تین ججز(چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن) کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جانا چاہئے۔ نوازشریف کے بعد مریم نواز نے بھی اسی نوعیت کے مطالبے کو دُہرانا شروع کردیا۔ بعد ازاں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ایک انٹرویو میں واضح طور پر کہا کہ”سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطابندیال سمیت دیگر دو ججز کے خلاف ریفرنس زیر غور ہیں“۔
حکومت نے چیف جسٹس عمر عطابندیال کے خلاف مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالنے کی ایک منظم مہم اختیا رکررکھی ہے جس میں ایک طرف سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 منظوری کے لیے صدر مملکت کے پاس بھیجنا ہے جسے صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا ہے۔دوسری طرف وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کی ایک دھواں دار پریس کانفرنس میں چیف جسٹس سے استعفے کا مطالبہ ہے۔ اس مطالبے کی تکرار تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد کے دیگر رہنماؤں سے بھی کرائی جا رہی ہے۔ جن میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی پیش پیش ہیں۔اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ایمل ولی خان نے بھی یہی مطالبہ دُہرا دیا ہے۔ اس دوران میں حکومت اپنے زیر اثر وکلاء تنظیموں اور بار کونسلوں سے بھی اس مطالبے کی حمایت کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم اس دوران میں اصل سوال سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف جوڈیشل ریفرنس دائر کرنے کا ہی ہے۔ واضح رہے کہ مقتدر حلقوں کے زیراثر سمجھے جانے والے ایک وکیل راجہ سبطین نے دو روز قبل پنجاب کے پی انتخابات کیس کو بنیاد بناتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی برطرفی کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک درخواست بھی دائر کردی ہے۔ اس تناظر میں چیف جسٹس کے خلاف جوڈیشل ریفرنس دائر کرنے کا طریقہ اور نتیجہ دونوں ہی کا جاننا اہمیت اختیار کرگیا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے حوالے سے نوازشریف، مریم نواز اور راناثناء اللہ سمیت حکومتی حلقوں کی تمام خواہشات اور بیانات کے برعکس اس کا قانونی طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ حکومت کی جانب سے کوئی بھی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں اگر جائے گا تو وہ بذریعہ صدر ہی جاسکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 209(5)بی کے تحت مس کنڈکٹ پر سپریم جوڈیشل کونسل کو متعلقہ جج کے خلاف کارروائی کا اختیار حاصل ہے، مگر وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت ہی مس کنڈکٹ پر کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیج سکتا ہے۔واضح رہے کہ اس ضمن میں اہم نکتہ یہ ہے کہ جج کے خلاف کوئی بھی ریفرنس اس بنیاد پر نہیں بن سکتا کہ اُس کا فیصلہ قابل قبول ہے یا نہیں، یا پھر پسندیدہ ہے ناپسندیدہ۔ درحقیقت کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس کے لیے کسی مِس کنڈکٹ کا ہونا ضروری ہے۔اگر فیصلوں کی بنیاد پر ریفرنس دائر کرنے کی کوئی بھی گنجائش ہوتی تو کسی بھی جج کے خلاف ہر فیصلے پر دوسری متاثرہ پارٹی ریفرنس دائر کر رہی ہوتی۔
حکومت کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس بھیجنے کے لیے وزیراعظم کی ایڈوائس کے باوجود صدر مملکت کے دفتر کا کردار انتہائی اہم ہونے کے باعث حکومت کے لیے یہ راستا تو بے حد دشوار محسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ وکیل سبطین خان کی جانب سے جمع کرائے گئے ریفرنس نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ مگر اس معاملے میں بھی طریقہئ کار حکومت کے لیے کسی ”خوش خبری“ کا سامان نہیں کررہا۔ سبطین خان نے 7اپریل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی برطرفی کے لیے ریفرنس جمع کروایا۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ”یہ ریفرنس دو رکنی بینچ کے کہنے پر ازخود نوٹس کی تحقیقات کے لیے دائر کیا جارہا ہے“۔ ریفرنس کے مطابق”سینئر ججوں کو بینچ میں نظر انداز کرنا اور من پسند ججوں پر مشتمل بینچ بنانا چیف جسٹس کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔۔27فروری کو دو ججوں کی معذرت کے بعد اختلاف کرنے والے مزید دو ججوں کو نئے بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، یکم مارچ کا فیصلہ تین دو کی نسبت سے تھا اور اگر جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو بینچ کا حصہ رہنے دیا جاتا تو یکم مارچ کا فیصلہ وہ نہ آتا جو چیف جسٹس چاہتے ہیں اور شاید چیف جسٹس کو اس کا ادراک تھا اس لیے انہوں نے جان بوجھ کر اختلاف کرنے والے دو ججوں کو بھی نئے بینچ میں شامل نہیں کیا۔۔۔حالیہ تمام معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال مِس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں اس لیے آرٹیکل 209 شق چھ کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جائے“۔مذکورہ موقف پر غور کرنے سے ہی اندازا ہوتا ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف ”مس کنڈکٹ“ کی ناگزیر شرط پوری کرنے کے لیے کس قدر زور صرف کیا جارہا ہے۔ جبکہ چیف جسٹس نے اس معاملے میں جو کچھ بھی کیا وہ اُن کے اختیارات کے واضح اور طے شدہ قانونی طریقے کے دائرے میں آتا ہے۔ اس کے باوجود اسی ریفرنس کو کارروائی کے لیے بنیاد بنا بھی لیا جائے تو اس سے کچھ بھی برآمد ہونے کی کوئی توقع اس لیے نہیں کی جاسکتی کیونکہ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے بعد اس کا بھی ایک طریقہ کار موجود ہے۔ کسی جج کے خلاف ریفرنس دائر ہونے کے بعد سب سے پہلے سپریم جوڈیشل کمیٹی کی جانب سے ریفرنس میں موجود مواد کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ کیا ریفرنس میں ایسا مواد موجود بھی ہے کہ نہیں، جو مس کنڈکٹ کے ذمرے میں آتا ہے۔ مگر اس میں بھی ایک دشواری یہ ہے کہ ریفرنس کے جائزہ کے لیے مذکورہ کمیٹی کا اجلاس چیف جسٹس کو ہی بلانا ہوتا ہے۔ چاہے وہ ریفرنس خود چیف جسٹس کے ہی خلاف کیوں نہ ہو۔ چیف جسٹس اپنے ہی خلاف ریفرنس کمیٹی کا اجلاس بُلانے کے بعد صرف یہ کرتے ہیں کہ وہ خود اُس ریفرنس کی جائزہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوتے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو چیف جسٹس کی جانب سے ریفرنس کمیٹی کے جائزہ اجلاس کی طلبی کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ اگر یہ اجلاس جلدیا بدیر بلا بھی لیا جائے تو پھر موجودہ حالات میں چیف جسٹس کے اجلاس میں شریک نہ ہونے کے باعث جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن کمیٹی میں شامل ہوں گے اور اگر جسٹس اعجازالاحسن کے خلاف بھی ریفرنس ہوتا ہے تو فہرست میں ان کے بعد کا سینئر ترین جج شامل ہو گا۔
مذکورہ طریقے پر اجلاس کے انعقاد کے بعد سپریم جوڈیشل کمیٹی یفرنس کا جائزہ لینے کے بعد اپنی سفارشات صدر کو بھیجے گی۔ یہاں ایک بار پھر صدر کے اختیار کا سوال پیدا ہو جاتا ہے، کیونکہ صدر بھی اس مرحلے اور موقع پر اپنا اختیار استعمال کرسکتے ہیں۔ مذکورہ طریقہ کار پر اگر غور کیا جائے تو سب سے پہلے چیف جسٹس کا اپنے ہی خلاف ریفرنس پر جائزہ کے لیے کمیٹی کے اجلاس کا انعقاد ایک سوال ہے۔ پھر اگر اجلاس بلا لیا جائے تو جائزہ کمیٹی سے مواد کے مس کنڈکٹ کے ذمرے میں تصدیق کا مرحلہ دوسرا سوال ہے۔ پھر اگر یہ بھی ہو جائے تو صدر کے دفتر میں اس کا قابل پزیرائی ہونا تیسرا بڑا سوال ہے۔اس دوران جتنا وقت لگ سکتا ہے، اس میں چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ آجائے گی۔ تب تک موجودہ حکومت کے مستقبل پر بھی کچھ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا۔ نیز اس عرصے میں طاقت ور حلقوں کی حکمت عملی برقرار رہنے کی بھی کوئی پیش گوئی ممکن نہیں۔
مزید برآں مذکورہ ریفرنس کے حوالے سے ایک اور طریقہ بھی موجود ہے۔ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس کے مذکورہ تمام مراحل مکمل ہو جائے توسپریم جوڈیشل کمیٹی کی جانب سے متعلقہ جج کو ایک انکوائری نوٹس ملتا ہے۔ متعلقہ جج ایسی صورت میں نوٹس ملنے کے فوراً بعد سپریم کورٹ میں اس ریفرنس کو چیلنج کر سکتا ہے۔ چنانچہ ریفرنس کو چیلنج کرنے کے بعد جب تک اس درخواست کا فیصلہ نہ ہو جائے ریفرنس کی کارروائی روک دی جاتی ہے۔ یہی کچھ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اپنے خلاف ریفرنس میں ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف ریفرنس کی کارروائی سپریم کورٹ میں چیلنج کی تھی جس پر لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے مذکورہ طریقہ کار پر غور کیا جائے تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے خلاف کسی ریفرنس کو نتیجہ خیز بنانا تقریباً ناممکن لگتا ہے۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے اگر ریفرنس کا براہ راست ڈول ڈال گیا تو بھی اس ریفرنس کے بذریعہ صدر جانے کے مسئلے کا کوئی فوری حل نکالنا ممکن نہیں لگتا۔ اس پورے معاملے کے درست تناظر میں اب یہ بات قطعی طور پر کی جا سکتی ہے کہ حکومت اس کھیل میں اپنا غصہ نکالنے، نوازشریف اور مریم نواز کی خواہشات پوری کرنے کے علاوہ کوئی نتیجہ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے۔ البتہ مرکزی ذرائع ابلاغ کے ذریعے رونق میلہ لگانے، چیف جسٹس کے خلاف ایک محاذ گرمائے رکھنے اور اُنہیں دباؤ میں لانے کے لیے یہ حربہ کچھ اتنا بُرا بھی نہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں