میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے چشم پوشی ناقابل قبول ہے

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے چشم پوشی ناقابل قبول ہے

ویب ڈیسک
منگل, ۴ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا ہے کہ حق خودارادیت کیلئے کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت کرنیوالوں کو دہشت گرد قرار دینا اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے چشم پوشی ناقابل قبول ہے۔ دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے یہ بھی باور کرایا گیا کہ امریکہ کی جانب سے جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی کی بھارت کو منتقلی اور ہتھیاروں کی فروخت بھارت کو فوجی مہم جوئی پر اکسا رہی ہے جس پر پاکستان کو گہری تشویش ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان نے 27 جون کو جاری کئے گئے واشنگٹن اعلامیہ کا نوٹس لیا ہے۔ اس اعلامیہ کے ذریعے یکطرفہ انداز میں جنوبی ایشیامیں اسٹرٹیجک استحکام کا مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے اپنے بیان میں باور کرایا ہے کہ واشنگٹن اعلامیہ میں جنوبی ایشیامیں کشیدگی کی بنیادی وجہ کا ذکر کئے بغیر پہلے سے کشیدہ صورتحال کو مزید بگاڑ دیا گیا ہے۔واشنگٹن اعلامیہ میں جمہوری اقدار کی بالادستی کا ذکر کیا گیا ہے جس کا تقاضا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی‘ ملک بھر میں ریاست کی زیرسرپرستی مذہبی اقلیتوں پر جبر کو انسانی حقوق کی پاسداری اور مذہبی حقوق کے احترام میں تبدیل کرایا جائے۔
جہاں تک پاکستان کاتعلق ہے پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کشمیر کاز کی جائز اور قانونی حیثیت ہے کیونکہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعہ عالمی برادری نے کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم سے چشم پوشی اقوام متحدہ کے منشور کے منافی اور خطہ میں امن و سلامتی کیخلاف ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تنازعات بالخصوص مسئلہ کشمیر کو پرامن ذریعے سے‘ سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق طے کرنے کیلئے تیار اور پرعزم ہے۔ بھارت بھی اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری پوری کرے۔
بھار ت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد ہی جو پالیسیاں اختیارکیں ان سے ان کے توسیع پسندانہ عزائم پوری دنیا کے سامنے کھل کر سامنے آچکے ہیں،پوری دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ توسیع پسندانہ جارحانہ عزائم رکھنے والی جنونی مودی سرکار اس خطہ میں پاکستان ہی نہیں‘ چین کی سلامتی کیخلاف بھی سازشوں کے جال بچھانے میں مگن ہے۔ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا تو بھارت کا شروع دن کا ایجنڈا ہے اور اس مقصد کے تحت ہی بھارت نے تقسیم ہند کے فارمولے سے منحرف ہو کر کشمیر میں اپنی افواج داخل کیں اور اس کے غالب حصے پر اپنا تسلط جمالیا۔ اگر قیام پاکستان کے بعد بھارت کشمیر کا تنازعہ کھڑا نہ کرتا اور پاکستان کی تشکیل ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اسکی خودمختاری کی پاسداری کرتا جو اقوام متحدہ کے منشور کا تقاضا تھا تو پاکستان کا بھارت کے ساتھ کیا تنازعہ پیدا ہو سکتا تھا۔ بھارت نے اس تنازعہ کی خود بنیاد رکھی اور پھر اس کے تصفئے کیلئے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا تاہم جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی درجن بھر قراردادوں کے ذریعہ کشمیری عوام کے استصواب کے حق کو تسلیم کیا اور بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کے اہتمام کی ہدایت کی تو بھارت اقوام متحدہ کی ان قراردادوں سے بھی منحرف ہوگیا اور کشمیر پر بزور طاقت تسلط جما کر اسے اپنی ریاست کا درجہ دے دیا اور پھر اس پر اٹوٹ انگ کی رٹ لگانا شروع کردی۔ اس ساری بھارتی سازش کا واحد مقصد پاکستان کور کرنے کا تھا اور اسی کی خاطربھارت نے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیںاورآج بھی وہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہے جس کیلئے اس نے خود کو ایٹمی قوت بنایا اور امریکہ‘ فرانس‘ برطانیہ‘ جرمنی سمیت مختلف ممالک کے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے معاہدے کرکے ہر قسم کے ایٹمی اور جدید اسلحہ کے ڈھیر لگالئے۔
اب اسے چین کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات بھی گراں گزر رہے ہیں اور وہ چین کو بھی آنکھیں دکھانے کی کوشش کررہاہے ،بھارتی رہنمائوں کی ان کوششوں پر چین نے بجا طور پر بھارتی رہنمائوں اور بھارتی فوج کے سربراہ کو یہ باور کرایاہے کہ بھارت 1962میں اروناچل پردیش میں چین کے ہاتھوں شکست کو فراموش نہ کرے اور تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ پاک چین مشترکہ منصوبوں سے امریکہ کو بھی اس خطے میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم پر زد پڑتی نظر آ ٓئی اس لئے اس کا سازشی ذہن بھارتی سازشی ذہن کے ساتھ مل گیا ہے۔
ٹرمپ درحقیقت پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے اور خطے کی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرات پیدا کرنے کی بھارتی سازشوں میں شریک ہوگئے ہیں۔ پاکستان کی سلامتی کیخلاف گھنائونی بھارتی سازشوں کا اندازہ تو بھارتی آرمی چیف جنرل راوت کی اس حالیہ گیدڑ بھبکی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو سبق سکھانے کیلئے ہمارے پاس سرجیکل ا سٹرائیک سے بھی بہتر آپشن موجود ہے جبکہ بھارت کے پاکستان پر سرجیکل ا سٹرائیکس کے دعوے بھی ’’ٹائیں ٹائیں فش‘‘ ہوچکے ہیں۔ اب بھارتی آرمی چیف کو پاکستان کی خلاف نئی گیدڑ بھبکی کی جرات یقیناً بھارت کو ملنے والی امریکی تھپکی سے ہی حاصل ہوئی ہے جبکہ بھارت نے کنٹرول لائن اور مقبوضہ کشمیر میں پہلے ہی اپنے وحشیانہ پن کی انتہاکر رکھی ہے جہاں بھارتی بربریت سے روزانہ بے گناہ انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ گزشتہ روز بھی کنٹرول لائن کے نکیال سیکٹر میں بھارتی فوج کی شیلنگ سے ایک شخص شہید اور ایک خاتون سمیت تین افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں نے عید اور ٹرو کے روز بھی نہتے کشمیریوں پر فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا جس سے کئی افراد زخمی ہوئے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نریندر مودی کے دورہ مریکہ کے موقع پربھارتی وزیر اعظم کواپنی وحشیانہ کارروائیاںروکنے اور مسئلہ کشمیر پرامن طورپر مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی تلقین کرنی چاہئے تھی لیکن ایسا کرنے کے بجائے انھوںنے بھارت کے ساتھ دوستی اور تعاون کو مثالی قرار دے کر اور پاکستان کے ساتھ بھارتی لب و لہجہ اختیار کرکے مودی حکومت کے جنونی عزائم کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ اسی بنیاد پر ایک مستند عالمی تنظیم پیور ریسرچ سینٹر نے اپنے سروے میں ٹرمپ کو مغرور اور انتہائی خطرناک قرار دیا ہے جبکہ بھارت کی سابق حکمران جماعت کانگریس نے ٹرمپ‘ مودی مشترکہ بیان کو علاقائی سلامتی کے حوالے سے مایوس کن قرار دیا ہے۔ دفتر خارجہ پاکستان نے بھی اسی بنیاد پر اقوام عالم کو باور کرایا ہے کہ ٹرمپ کی مودی کو تھپکی اور جدید امریکی فوجی ٹیکنالوجی کی منتقلی بھارت کو مہم جوئی پر اکسا رہی ہے۔ یہ مہم جوئی اس خطہ ہی نہیں‘ یقینی طور پر عالمی امن و سلامتی کیلئے بھی سنگین خطرات پیدا کررہی ہے اس لئے ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ پر عالمی اداروں اور عالمی قیا دتوں کو متفکر ہونا اور یہ گٹھ جوڑ توڑنے کی کوئی سبیل نکالنا چاہیے۔ یہ گٹھ جوڑ پاکستان کی سلامتی کیخلاف استعمال ہوگا تو پاکستان کو اپنے تحفظ و دفاع کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے کا پورا حاصل ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو بہرصورت ملک کی سلامتی کے تحفظ کی ہی فکر کرنا چاہیے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں