میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکہ میں پاکستان کے خلاف مذموم کوشش

امریکہ میں پاکستان کے خلاف مذموم کوشش

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۲ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

اخباری اطلاعات کے مطابق امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان میں ایک بل پیش کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان کو دہشت گردی کی معاونت کرنے والا ملک قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس بل کو پیش کرنے والے بااثر رہنما ٹیڈ پو نے پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں ایک ’انقلابی تبدیلی‘ کی بھی کوشش کی ہے۔
ٹیڈ پو کانگریس میں ایوان نمائندگان میں دہشت گردی سے متعلق ذیلی کمیٹی کے صدر ہیں اور اس سے پہلے بھی وہ پاکستان کی پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ان کے پیش کردہ اس بل کے تحت صدر کو 90 دنوں کے اندر جواب دینا ہو گا کہ پاکستان بین الاقوامی دہشت گردی کو سپورٹ کرتا ہے یا نہیں۔ اس کے 30 دن بعد وزیر خارجہ کو ایک رپورٹ دینا ہوگی جس میں انہیں یا تو پاکستان کو دہشت گردی کا کفیل ملک قرار دینا پڑے گا یا تفصیل سے بتانا ہوگا کہ وہ کیوں اس زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ٹیڈ پو نے بل میں لکھا ہے ’پاکستان نہ صرف ایک ایسا ساتھی ملک ہے جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس نے برسوں سے امریکہ کے دشمنوں کا ساتھ دیا ہے اور مدد کی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن کو پناہ دینا ہو یا پھر حقانی نیٹ ورک کے ساتھ گٹھ جوڑ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کس کے ساتھ ہے اس کے کافی ثبوت ہیں اور یہ واضح ہے کہ وہ ’امریکہ کے ساتھ نہیں ہے۔‘ٹیڈ پو نے ایک ایسا ہی بل گزشتہ سال ستمبر میں پیش کیا تھا لیکن اس کے پاس ہونے کے آثار انتہائی کم تھے کیونکہ یہ اوباما انتظامیہ کا آخری دور تھا،ٹیڈ پو نے بل پیش کرتے ہوئے کہاہے کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ ہم پاکستان کو اس دھوکہ دہی کے لیے انعام دینے پر پابندی لگائیں اور اسے سرکاری طور پر دہشت گردی کو سپانسر کرنے والا ملک قرار دیں۔‘
امریکہ میں بھارتی لابی کے زیر اثر اور بھارت کے ساتھ تجارتی اور مالی مفادات رکھنے والے ایوان نمائندگان کی جانب سے پاکستان کو پریشان کرنے کے لیے اس طرح کے حربے نئی بات نہیں ہیں،غور طلب بات یہ ہے کہ ٹیڈ پو نے ایک ایسا ہی بل گزشتہ سال ستمبر میں پیش کیا تھا لیکن اس کے پاس ہونے کے امکانات انتہائی کم تھے کیونکہ یہ اوباما انتظامیہ کا آخری دور میں تھا اور اس پر بحث یا کسی فیصلے کا وقت ہی نہیں بچا تھا۔ ٹیڈ پو نے اس بل کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دی نیشنل انٹرسٹ میگزین میں سابق نائب وزیر دفاع جیمز لیڈ کے ساتھ ایک مشترکہ مضمون لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی کو بھارت اور پاکستان کے باہمی رشتوں سے ہٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ پالیسی پرانی ہو چکی ہے۔ان کا مشورہ ہے کہ جنوبی یا جنوب مغربی ایشیا میں پیدا کسی نئے بحران کی وجہ سے امریکہ کی توجہ نہیں بٹنا چاہیے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور دوسرے ایسے اداروں کا قرض ادا کرنے میں ناکام رہنے والے پاکستان کی مدد کے لیے دوڑنا نہیں چاہیے۔اس سے پہلے واشنگٹن کے کئی مشہور تھنک ٹینکس اور جنوبی ایشیا کے امور کے ماہرین نے بھی ایک انتہائی سخت رپورٹ کانگریس کے سامنے پیش کی تھی جس میں اسی سے ملتے جلتے مشورے دیے گئے تھے۔پاکستان کی دلیل رہی ہے کہ دنیا یہ نہیں دیکھ رہی کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کتنی قربانیاں دی ہیں اور ہمیشہ اس سے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے جسے عالمی برادرری ہمیشہ نظر انداز کرتی رہی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی میںبھارت کے ملوث ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں۔خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایک حالیہ بیان میں کہہ چکے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں ایک ہی ملک ہے جو خطے میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔جی 20 فورم پر بات گفتگو کے دوران پاکستان کی جانب واضح اشارہ کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا تھا کہ ایک ہی ملک ہے جو ہمارے خطے میں دہشت گردی کے عناصر پھیلا رہا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت ہی وہ ملک ہے جو خطے میں دہشت گردی کا ذمہ دار ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارتی ایجنسی را کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کے اقبالی بیان سے واضح ہوتا ہے کہ کون سا ملک دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔امریکہ کی جانب سے ’ڈو مور‘ کے مطالبے کے بارے میں ان کا کہنا تھا ایسے مطالبات کے ساتھ ساتھ امریکہ نے کئی بار پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو سراہا بھی ہے۔
امریکی حکام کو خود سابق امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور سینیٹر جان میک کین کے بیانات کو نظر انداز نہیں کرناچاہئے جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے کامیابی حاصل کی ہے۔پاکستان نے کہا ہے کہ وہ اپنی سر زمین پر دہشت گردوں کے خلاف نہ صرف کارروائیاں کر رہا ہے بلکہ وہ شدت پسندی کے خلاف لڑائی میں دنیا کی ہر ممکن مدد بھی کر رہا ہے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وہ بار بار یہ واضح کرتارہاہے اور اس کا عملی ثبوت بھی پیش کرتارہاہے کہ پاکستان اس خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے شدت پسندوں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا اور اپنی سر زمین کو دہشت گروں کی پناہ گاہیں نہیںبننے دے گا۔ امریکی کانگریس کے سینئر ارکان اور میڈیا کے نمائندے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ان مقامات کا دورہ کر چکے ہیں جنہیں شدت پسندوں سے پاک کر لیا گیا ہے اور وہاں ترقیاتی کام جاری ہیں۔ امریکی اہلکاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کے دورے کے دوران آپریشن ضربِ عضب میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو سراہا تھا اور ان پر اطمینان کا اظہار بھی کیا تھا۔
ایسی صورت میں ٹیڈ پو کی جانب سے پاکستان کے خلاف پیش کیے جانے والے اس بل سے ان کی نیت کی کھوٹ واضح ہے تاہم پاکستان کو اس حوالے سے اپنے اثر ورسوخ اور سفارتی کوششوں کو تیز کرنا چاہیے تاکہ ٹیڈ پو جیسے بھارت نواز ارکان ایوان نمائندگا ن کی مذموم کوششوں کو ناکام بنایاجاسکے ،بدقسمتی سے ٹیڈ پو کی جانب سے پاکستان کے خلاف یہ مذموم کوشش ایک ایسے وقت کی جارہی ہے جب پاکستان میں کوئی مستقل وزیر خارجہ ہی نہیں ہے جو امریکی عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کرکے ان کی ہمدردیاں حاصل کرسکے، موجودہ صورت حال میں امریکہ میں پاکستانی سفارتی نمائندوں کی ذمہ داریاں دوچند ہوجاتی ہیں اور ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ امریکہ میں پاکستان نواز حلقوں کوفعال اور متحرک کرنے کی کوشش کریں تاکہ ٹیڈ پو جیسے ایوان نمائندگان کے ارکان کی پاکستان مخالف کوششوں کو ناکام بنایاجاسکے۔
امید کی جاتی ہے کہ دفتر خارجہ کے ذمہ دار حکام اورامریکہ میں پاکستان کے سفارت کار اور امریکی حکومت میں اثر رسوخ رکھنے والے حلقے پاکستان کے خلاف بھارت کی شہہ پر کی جانے والی اس مذموم کوشش کوناکام بنانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے اور عالمی برادری کو بھارت اور ان کے ہمنوا امریکی عوام کی نمائندگی کے دعویدار ارکان کا اصلی اور کریہہ چہرہ دکھانے کی کوشش کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں