میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بناؤٹی ہی سہی اب تو مقابلہ کر لیں!!

بناؤٹی ہی سہی اب تو مقابلہ کر لیں!!

جرات ڈیسک
بدھ, ۱۷ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

عدالت عظمیٰ کے شدید متنازع اور جمہوریت کے لیے انتہائی تباہ کن فیصلے کے بعد پاکستان میں انتخابی سرگرمیوں کی افادیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ تحریک انصاف سے بلا لے لینے کے بعد میدان میں پی ڈی ایم میں شامل وہ جماعتیں موجود رہ گئی ہیں، جو سولہ ماہ کی حکومت میں حلیف جماعتیں رہی ہیں اور جن کے بارے میں پہلے سے ہی یہ تاثر موجودد ہے کہ اسی بھان متی کے کنبے نے اگلی حکومت قائم کرنی ہے۔ بھان متی کا یہی کنبہ سولہ ماہ کے عوام کش اقدامات کو ”ریاست بچانے“ کے نام پر مسلسل اُٹھانے کے بعد عوامی نفرت وملامت کا ہدف بنا ہوا ہے، مگر یہی اصل میں ”پسندیدہ“ اور ”سلیکٹڈ“ بھی ہے۔اس کنبے نے سولہ ماہ کی حکومت ایسے کی تھی جیسے سکندر اعظم کی فوج نے زمینوں پر گھوڑے دوڑائے تھے اور راجہ پورس کے ہاتھیوں نے اپنے ہی فوجیوں کے ساتھ سلوک کیا تھا۔ عوام پر مہنگائی کا سیلاب مسلط کرتے ہوئے اس کنبے نے صرف اپنے ”مقدمات“ ختم کرنے کو ترجیح اول دے رکھی تھی۔ چنانچہ قومی اداروں کا پورا ڈھانچہ توڑ مروڑ کر قوانین کی روح کو پامال کرکے، پارلیمنٹ کے ذریعے آئین شکن قوانین منظور کرکے، پولیس، ایف آئی اے، نیب، عدلیہ سمیت ہر ادارے کے وقار کو داؤ پر لگاکے صرف اپنا الو سیدھا کرنے کو اہمیت دی گئی۔ اس دوران ڈالر کہاں گیا، روپیہ کہاں گرا، اشیائے خورو نوش کی قیمتوں نے آسمان سے کیسے کلام کیا، کرپشن کی منڈی کہاں پہنچی، اسٹاک مارکیٹ کا کچرا کہاں دفن ہوا، زمینیں کس کس نے نگل لیں، سرکاری فنڈز کہاں کھو گئے، امدادی رقوم کون ڈکار گیا، صحت کا معیار کتنا گرا، ادویات کی قیمتوں کا کنٹرول کتنا سست پڑا، ملاوٹ مافیا نے کیا کیا ہنر آزمائے، چینی کے گراں فروش کیسے چمکے، آٹے کاگھاٹا کرنے والے کیسے اُبھرے، دودھ والے کیسے دودھوں نہائے، اس سے کسی نے کوئی سروکار نہیں رکھا۔ یہ ساری جماعتیں صرف ماضی کو مٹانے، جیبیں بڑھانے، بیرون ملک دورے کرتے ہوئے مال چھپانے اور خفیہ جائیدادیں بڑھانے میں مصروف رہیں۔ ریاست نے بھی اپنے ”اولین دشمن“ کی فہرست پر نظرثانی کرتے ہوئے بھارت کے بجائے عمران خان کو اوپر کر لیا۔ بس اسی ایک ہدف کا ”فائدہ“ اُٹھاتے ہوئے ان جماعتوں نے ملک کے ساتھ جو برتاؤ کیا وہ ہر قسم کے احتساب، سوال و جواب اور بازپرس سے خارج کردیا گیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب جب ”بلا“ میدان میں نہیں ہے تو سولہ ماہ کی حلیف سیاسی جماعتوں کو اپنے ”حلیفوں“ کو ہی جعلی اور بناؤٹی انداز میں ”حریف“ کے طور پر پیش کرکے مہم آزما ہونا ہے۔خیال کیا جارہا ہے کہ اس سے انتخابی سرگرمیوں میں کوئی رنگ چوکھا آنے کے امکانات ہی معدوم ہیں۔ اس کا اندازا بلاول بھٹو کی انتخابی مہم سے لگایا جارہا ہے۔بلاول بھٹو ہر روز اپنے سیاسی نابالغ ہونے کا تاثر مستحکم کرتے ہوئے گلابی اردو اور حروف تہجی درست ادانہ کرنے کے باعث جہاں مفہوم کو کچھ کا کچھ کردیتے ہیں وہیں اپنے حریفوں کے تعین میں بھی ”بے سمتی“ کے شکار ہیں۔ وہ کبھی بوڑھوں سے نجات پانے کی جستجو کرتے ہیں تو اُن کے ہی 69 سالہ والد اُنہیں بچہ اور بالک کہہ کر سیاست کے ڈرائنگ روم سے نکالنے کا ہی اشارہ دے دیتے ہیں، وہ منہ بسور لیتے ہیں تو اُنہیں وزیراعظم کے امیدوار کا ”فیڈر“ دے کر پھسلا لیا جاتا ہے۔ وہ کبھی شہبازشریف کے ”وزیر خزانہ“ کو نشانے پر لیتے ہیں تو اُنہیں کوئی کہنی مارتا ہے کہ آپ اُسی شہباز شریف کی حکومت میں وزیر خارجہ تھے۔ یہ تضادات، ناممکنات، مناقشات اور سیاسی منکرات قدم قدم پر انتخابی مہم میں منہ پر آکر پھٹنے کے خدشات مسلسل بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ چنانچہ بلاول بھٹو جو کافی عرصے سے اپنی انتخابی مہم شروع کر چکے ہیں اور انوکھے لاڈلے کے طور پر کھیلن کو وزیراعظم کا بیلن مانگنے کی لجاجت آمیز، خجالت آمیز اور رقت آمیزاستدعا کیے جارہے ہیں، اپنا رنگ جمانے میں ناکامی سے دوچار ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کی اہم ترین جماعت اور متوقع حکومت یعنی مسلم لیگ نون اپنی انتخابی مہم ہی شروع نہیں کرپا رہی ہے، گزشتہ روز اوکاڑہ میں اپنے پہلے انتخابی جلسے کااہتمام کرنے والی مریم نواز نے ایک ایسا اکٹھ کیا ہے جو موسم کی طرح یاس وآس کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ اُن کے جلسے سے پہلے خواتین والی تیاریوں کی طرح سیاسی میک اپ اور ناز اُٹھانے کے مطالبات ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ پورے ملک کو سیاسی جاگیر کی طرح برتنے کے انداز و تیور میں موصوفہ بھی اپنے والد کی طرح یہ چاہتی ہے کہ عوام بھی مجھے دو، سروے بھی میرے حق میں تیار کراؤ، میڈیا کو بھی لے پالکوں کی طرح میرے پیچھے پیچھے دوڑاؤ، کوئی میرے گلاس کی طرح ناز بھی اُٹھاؤ، میں جہاں جاؤں، وہاں اسکول بند کراؤ، راستے بچھاؤ، پھول سجاؤ، پھر یہ سب آپ کر لیں تو میں تقریر میں اعلان کروں گی کہ ہمیں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے، پھر سب کسی مشاعرے میں شعر کی طرح داد و تحسین کے ڈونگرے بھی برساؤ۔ نون لیگ کی ان دنوں کی پوری سیاست اسی نوعیت کی”سہولت کاری“ پر انحصار کر رہی ہے۔ مگر وہ بضد ہے کہ اُنہیں اس ”خدمت“اور ”سہولت“ کا طعنہ بھی نہ دیا جائے۔ بدقسمتی سے ایک ہی سینے میں دو دل، ایک ہی وقت میں دوکشتیوں میں پاؤں اور ایک ہی تیر سے دو شکار کرنے کے اسی رویے کے باعث اُن پر ”وہ“ بھی بھروسا کرنے کو تیار نہیں، جو اُن کی راہ سے تمام کانٹے اُٹھا کر اُنہیں اگلی حکومت دینے کے لیے دنیا بھر سے سوالات اور عوامی مقبولیت کے خلاف بننے والی فضا میں مخالفت تک برداشت کرتے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف کے بطور جماعت انتخابات سے نکل جانے اور اُن کے امیدواروں کو بے سمت کردینے کے بعد اس صاف ستھرے میدان میں بھی اگر یہ پی ڈی ایم کا انگڑ کھنگڑ کوئی رنگ نہیں جماپا رہا تو پھر انتخابی سرگرمیوں کی افادیت پر سوال اُٹھنا بالکل فطری ہے۔
اب یہ ایک واضح منظر ہے کہ انتخابات کی موجودہ ناموافق فضا میں پی ڈی ایم کی حلیف جماعتیں ہی ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ حکومت بنائیں گی۔ان ہی جماعتوں کے پاس انتخابی مہم چلانے کی ”رعایت“ موجود ہے،انہیں ہی کسی رکاؤٹ کا سامنا نہیں۔ ان کے ساتھ نظام کے اندر سے سہولت کاری بھی کی جا رہی ہے۔اس کے باوجود یہ جماعتیں کوئی رنگ کیوں نہیں جما پا رہیں؟ نواز شریف ابھی تک ڈرائنگ روم سے ہی نہیں نکل رہے۔ بلاول بھٹو ایک ہی طرح سے ہاٹھ اُٹھا اُٹھا کر باتیں کرنے کے بے کیف مبتلائے شوق کی تسکین کے سوا کچھ نہیں کر پارہے۔ شہباز شریف کی ”خموش ملاقاتوں“کا دیرینہ شوق درونِ خانہ جو ہنگامے بھی برپا کیے ہوئے ہوں، منظر عام پر وہ لاپتہ ہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان عین انتخابات کے ہنگام افغانستان میں اپنا جوش وجنوں آزما رہے ہیں، مگر اپنے میدانِ شوق کو اپنی ”برکتوں“ سے محروم کیے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کی مرحوم بی اے پی تتر بتر ہوکر اپنے ٹکڑوں کے ساتھ اِ دھر اُدھر جہاں گری پڑی ہے وہاں ”باپ“ کی سرپرستی کے باوجود انتخابات سے دامن چھڑانے کی جستجو سے نکل نہیں پارہی۔ اس طرح ماضی کی حلیف ان جماعتوں کے اہم پرزے مل کر جس سیاسی انجن کو حرکت دیتے ہیں وہ ابھی تک ساکت پڑا ہے۔
سوال یہ ہے کہ پھر شو کیسے جاری رہے گا؟ تحریک انصاف سے بلا لے کر، ایک جماعت کے تشخص سے اُسے محروم کرکے بھی اگر شو نہیں چل سکا تو پھر کیا ہوگا؟ اگر ہرقسم کی حمایت پانے کے باوجود یہ حلیف جماعتیں مل کر انتخابات کا یہ ڈھونگ درست طور پر اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچاسکی اور انتخابی سرگرمیوں کی سطح پر ہی یہ دھوکا بے نقاب ہوا تو پھر کیا ہوگا؟ یہ”پھر“ ہر حکمت عملی میں گھوم پھر کر پھر سامنے کھڑا ہو کر منہ چڑانے لگتا ہے۔ اس لیے یہ درخواست ان حلیف جماعتوں سے ہی کی جاسکتی ہے کہ بناؤٹی ہی سہی، جعلی ہی سہی، ایک دوسرے کے ساتھ ہی سہی مگر خدارا کچھ تو مقابلہ کرلیں۔ کچھ تو سیاسی فضا بنالیں۔ کچھ تو جمہوریت کا مغالطہ پیدا کر لیں۔ کچھ تو اگلی حکومت کے اعتبار کا بندوبست کرلیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں