میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
گرانی پر قابو پانے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت

گرانی پر قابو پانے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت

جرات ڈیسک
بدھ, ۱۸ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

نگران حکومت کی جانب سے مہنگائی میں اضافہ روکنے کی کوششوں کے دعووں کے باوجود دن بدن اشیائے خورد و نوش اور تمام بنیادی ضرورت کی اشیاء مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔سرکاری طورپر جاری کردہ کنزیومر پرائس انڈیکس سے ظاہر ہوتاہے کہ گزشتہ ہفتہ بھی عام استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تاہم ارباب حکومت نے یہ نہیں بتایاکہ حکومت نے کس چیز کی قیمت میں اضافے کو روکنے کیلئے کیا اقدام کئے اور حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کے باوجود قیمتوں میں کمی کیوں ممکن نہیں ہوسکی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ مہنگائی پر کنٹرول کیلئے اقدام کئے جارہے ہیں اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ اس سے قبل بھی حکومتوں نے مہنگائی کو کم کرنے کی اپنے طورپر کئی کوششیں کیں۔ کئی کمیٹیاں بنیں، کئی جائزے ہوئے، کئی رپورٹیں پیش ہوئیں لیکن اس کا کوئی اثر مہنگائی پر نہ پڑااور مہنگائی نہ صرف یہ کہ جوں کی توں رہی بلکہ دن بدن اس میں اضافہ ہوتا گیا اور عوام کیلئے مشکلات پیدا ہوتی چلی گئیں۔ حکومت جس قدر بھی مہنگائی کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ ایک دلدل ثابت ہوتی ہے کہ جس طرح اس میں سے نکلنے کی کوشش کرنے والااندر دھنستا چلا جاتا ہے، اسی طرح حکومت جتنا مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہے، اتنا ہی اس کے اندر دھنستی چلی جاتی ہے اور نکلنے کا کوئی راستہ بظاہر نظر نہیں آرہا۔ اصل مسئلہ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنا بہت ضروری ہے اور ان کی شرائط میں سب سے بڑی شرط یہ ہوتی ہے کہ حکومت زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرے آئی ایم ایف جب کسی ملک کو قرضہ دیتا ہے تو ایسے ہی منہ اٹھا کر قرضہ نہیں دے دیتا بلکہ وہ پوری طرح جائزہ لیتا ہے تحقیق کرتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ آیا یہ ملک قرض واپس کرنے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ اگر وہ ملک مستقبل قریب میں قرض واپس کرنے کے قابل ہو تب تو اسے باآسانی قرضہ مل جاتا ہے اگر وہ واپس کرنے کے قابل نہ ہو تو پھر اس کو قرض نہیں دیا جاتا یا اگر دیا بھی جاتا ہے تو اس کو کڑی شرائط پر قرضہ دیا جاتا ہے گویا ان کڑی شرئط کے ذریعہ اسے اس قابل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ مستقبل قریب میں آئی ایم ایف کا قرض لوٹا سکے۔جن ممالک کی معیشتیں کمزور ہوتی ہیں آئی ایم ایف سب سے پہلے انہیں زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کر کے اپنا خزانہ بھرنے کیلئے کہتا ہے، خزانہ عوامی ٹیکسوں سے بھرتا ہے اور ٹیکس کیسے جمع ہوتا ہے ظاہر ہے کہ عوام پر ضرورت کی اشیامہنگی کر کے ٹیکس لگایا جاتا ہے جب ٹیکس لگایا جاتا ہے تو مہنگائی خود بخود بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان کو بھی جب آئی ایم ایف نے قرض دیا تو ملکی خزانہ بھرنے کیلئے عوام پر بے تحاشہ ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کی شرط عائد کی جسے حکومت نے من و عن تسلیم کر لیا اور اس کو پورا کرنے کیلئے کمر کس لی،لیکن حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے اس ملک کے غریب عوام کو نت نئے لازمی ٹیکسوں تلے تو دبا دیا لیکن اشرافیہ کو کھلی چھوٹ دے دی گئی یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے بعد مہنگائی کا ایک طوفان آگیا اور ہر چیز پر ٹیکس لگنے لگے اور تمام بنیادی ضرورت کی اشیاعوام کی پہنچ سے باہر ہوتی چلی گئیں، آج یہ حالت ہے کہ غریب لوگ گھر کا ماہانہ خرچ پورا کرنے سے بھی عاجز آچکے ہیں۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے حکومت سب سے پہلے اپنے اخراجات کم کرے، اگر وزیراعظم اپنے خاندان کے ساتھ ایک وقت کے کھانے پر 16-17 لاکھ روپے خرچ کرے گا،اگر کے پی کاگورنر اپنے پورے خاندان اور دوستوں کے ساتھ ہیلی کاپٹر پر سیر کرتارہے گا تو غریب عوام پر بوجھ کبھی کم نہیں ہوسکتا،ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت، وزرااور سرکاری افسران کے خرچے کم سے کم ہونے چاہیے ان کی تمام مراعات ختم کر کے صرف تنخواہ پر لانا چاہیے کیونکہ اس ملک کے تمام عام شہری صرف تنخواہ پر کام کرتے ہیں انھیں تو ایسی کوئی مراعت نہیں ملتیں، ماہانہ 20، 30 ہزار روپے کمانے والا شخص اپنے جیب سے پیٹرول خریدتا ہے، اپنے خرچ پر سواری کا انتظام کرتا ہے، بجلی،گیس کے بل اپنی جیب سے ادا کرتا ہے جبکہ وزرااور سرکاری افسران جو لاکھوں روپے مہینے کی تنخواہیں وصو ل کرتے ہیں تو گورنر کو اپنے خاندان کے لوگوں اور دوستوں کو ہیلی کاپٹر کی سیر کرانے کی اجازت دینے کا کیاجواز ہے یہ اس ملک کے غریب عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ سب سے پہلے تو اسے ختم کرنا چاہیے اس کے بعد ایسے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں جن کے ذریعے سے ملکی معیشت مضبوط ہو، ہماری برآمدات میں اضافہ ہو اور درآمدات کم ہوں، اس کیلئے ملک میں صنعتیں قائم کی جائیں اور بجلی کے بلز کی شرح کم کی جائے تاکہ صنعتیں پوری پیداواری صلاحیت کے تحت کام کرسکیں تاکہ ہمارے ملک کی پیداوار بڑھے اور ہماری برآمدات میں اضافہ ہو۔ یہ وہ اقدامات ہوں گے جن کے ذریعے سے ملکی معیشت مضبوط ہوگی اور مہنگائی خود بخود کم ہوتی چلی جائے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں