میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آصف زرداری سیاسی کشیدگی میں کمی کراسکیں گے؟

آصف زرداری سیاسی کشیدگی میں کمی کراسکیں گے؟

جرات ڈیسک
بدھ, ۱۳ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں دوسری مرتبہ صدر پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ تقریب میں چاروں صوبوں کے گورنر اور 3 صوبائی وزائے اعلیٰ موجود تھے،وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور نے صدارتی انتخاب کوتسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اس لئے وہ تقریب میں شریک نہیں ہوئے۔تقریب میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم شہباز شریف، قائد مسلم لیگ ن نواز شریف، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، بلاول زرداری، بختاوراور آصفہ زرداری شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ، آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے بھی تقریب میں شرکت کی۔ نو منتخب صدر آصف زرداری کو صدارتی پروٹوکول اور سیکورٹی فراہم کر دی گئی ہے اور وہ ایوانِ صدر منتقل ہوگئے ہیں۔قبل ازیں نو منتخب صدر آصف زرداری کی پرسنل سیکریٹری رخسانہ بنگش کی نگرانی میں صدر کا اہم سامان ایوان صدر منتقل کیا گیا ہے۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ ا سلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے(آصف زرداری جن کی عدالت میں بطور مجرم پیش ہوتے رہے تھے اور انھوں نے متعدد بار آصف علی زرداری کی ضمانتوں پر تاریخیں دی تھیں) صدارتی انتخابات میں پریزائیڈنگ افسرکی حیثیت سے سنیچر کی شام کو آصف علی زرداری کے بطور صدر نتیجے کا اعلان کیا اور میمو گیٹ ا سکینڈل میں انھیں کلین چٹ دینے والے جج چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ان سے حلف لیا۔ اب نہ صرف آصف زرداری کو ضمانت مل چکی ہے بلکہ وہ ایک بار پھر ریاست کے سربراہ بن چکے ہیں۔ وہ فوجی صدر پرویز مشرف کو گھر رخصت کر کے پہلی بار اس مسند پر2008 میں براجمان ہوئے تھے۔ اپنے دور صدارت میں ان کے قابل ذکر فیصلوں میں اسمبلی کی معطلی کے اختیارات پارلیمان کو واپس کرنا، 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری بحال کرنا، فاٹا اصلاحات، آغاز حقوق بلوچستان اور نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے فارمولے کی از سر نو تشکیل، گلگت  بلتستان کی خودمختاری اور صوبہ سرحد کو خیبر پختونخوا کا نام دینا شامل ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بار آصف زرداری کے سامنے اہداف کیا ہیں اور انھوں نے دوبارہ اس ’علامتی‘ سمجھے جانے والے آئینی عہدے کو اپنے لیے کیوں چُنا؟ آصف زرداری کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ ان سے ہر کوئی مل سکتا ہے اور ہر ایک ان سے کوئی بھی بات کر سکتا ہے۔ آصف زرداری نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک بھی سفارتکاروں اور حکمرانوں کو اپنا گرویدہ بنانے کا گُر جانتے ہیں۔ ان کے مطابق چین کے صدر سے ان کے اس وقت کے مراسم ہیں جب ابھی وہ صدر نہیں بنے تھے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپنے ان تعلقات کو انھوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا۔تاہم آصف زرداری کا یہ دور پہلے دور سے کئی حوالوں سے مختلف ہے۔ پہلے دور میں وہ خود وزیر اعظم اور وزراء کا چناؤ کرتے تھے جبکہ 3 صوبوں میں ان کی اپنی حکومت قائم تھی اور انھوں نے تمام اہم اختیارات بھی وزیراعظم، عدلیہ اور صوبوں کو تفویض کر دیے تھے۔ اس بار جب وہ منصب صدارت پر بیٹھے ہیں تو بقول بلاول زرداری ان کے پاس برطانوی بادشاہ جیسے اختیارات ہوں گے۔تاہم امید کی جاسکتی ہے کہ شاید وہ اپنی مفاہمت کی قابلیت اور صلاحیتوں سے تقسیم کی شکار قوم کو کسی حد تک متحد کر سکیں اور سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر بٹھا دیں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ آصف زرداری صوبوں کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں اور یہی وہ نکتہ ہو گا جس پر پی ٹی آئی ان کے قریب آئے گی اور وہ اس جماعت کو بھی ساتھ ملا کر ملک میں سیاسی استحکام کے ذریعے معاشی استحکام کی راہ ہموار کر سکیں گے۔تاہم ملک کے حالات کا تقاضا ہے کہ کوئی اختیار نہ ہونے کے باوجود آصف زرداری کے سامنے منزل یا ہدف ملک کا معاشی استحکام ہونا چاہئے۔جب وہ پہلی بار صدر بنے تو ان کے پاس نسبتاً بہت زیادہ اختیارات تھے اوروہ کسی بھی وقت منتخب وزیراعظم کو گھر بھیجنے کا اختیار بھی رکھتے تھے لیکن چونکہ یہ اختیار خود ان کی بیگم یعنی بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی استعمال ہوچکاتھا اس لئے انھوں نے پہلی فرصت میں یہ اختیار واپس کرکے صدر کو بے اختیار اور وزیراعظم کو با اختیار بنا دیا،اس دور میں دیگر ممالک کے ساتھ ان کے مراسم بڑھے اور انھوں نے اہم منصوبوں کی راہ بھی ہموار کی۔ یہ آصف علی زرداری ہی تھے جنھوں نے سی پیک جیسے منصوبے کی بنیاد رکھی اور چین کے کئی دوروں میں اس منصوبے کے خدوخال پر کام کیا۔خیال کیاجاتاہے چینی رہنماؤں کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کی بنیاد پر اس بار بھی آصف زرداری کا یہ ہدف ہو گا کہ سی پیک منصوبے کو دوبارہ پٹری پر لایا جائے اور بیرون ملک سے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری پاکستان لائی جائے۔ آصف زرداری نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے منصوبے کا افتتاح کیاتھا اس لئے اب وہ اس کی تکمیل کو بھی یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہوں گے۔ حالیہ دنوں میں ایران گیس پائپ لائن پر پاکستان نے طویل وقفے کے بعد پھر دوبارہ کام شروع کیا ہے۔ اس سے قبل پاکستان حکام اس منصوبے کی راہ میں حائل عالمی سطح پر کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں اور پابندیوں کا اس تاخیر کی وجہ قرار دیتے تھے۔پارلیمانی امور کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ آصف زرداری اس بار ’چارٹر آف مفاہمت‘ اور ’چارٹر آف معیشت‘ لے کر آ رہے ہیں۔ان کے مطابق آصف زرداری کا یہ ویژن ہے کہ کیونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس لئے اس ملک میں صحیح رعایت کا مستحق یہاں کا کسان ہے۔ وہ اب زرعی شعبے کو ریلیف دینا چاہتے ہیں۔سی پیک آصف زرداری کی نظر میں رہے گا آصف زرداری نے پہلے ہی سندھ کے تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کو چینی زبان سکھانے پر لگا رکھا ہے۔ آصف زرداری یہ کہتے ہیں کہ جن ملکوں میں قومیں بوڑھی ہوجائیں وہاں اپنے نوجوانوں کو تربیت دے کر ملازمتوں کے لیے بھیجیں۔بظاہر معلوم ہوتا ہے آصف زرداری ایوان صدر میں بیٹھ کر حکومت کے خلاف کوئی سازش نہیں کریں گے لیکن اگر وہ پی ٹی آئی کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے تو بلاول زرداری کسی بھی وقت شہباز شریف کو گھر بھیجنے کی پوزیشن میں آجائیں گے اور زرداری کو وزیراعظم یا وزیرخارجہ سمیت کسی نمایاں عہدے پر لانے کا خواب پورا کرنے کا موقع مل جائے گا۔ فی الوقت صدر کو حاصل اختیارات کے تحت سیاسی طور پر ایوان صدر کا ایک نگہبان اور سہولت کار کا کردار ہو گا۔پی ٹی آئی کے ساتھ مفاہمت عین ممکن ہے۔ اس سے پہلے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو بھی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے مل کر منتخب کیا تھا اور آگے بھی دونوں جماعتوں میں مفاہمت ممکن ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب سے پیپلز پارٹی کی قیادت آصف زرداری کے پاس آئی ہے، انھوں نے کوشش کی ہے کہ پی پی پی کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی شبیہ کو تبدیل کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے آج تک کوئی احتجاجی تحریک نہیں چلائی اور اگر اسٹیبلشمنٹ سے کوئی رنجش ہوئی بھی تو اس کو فی الفور دور کر لیا ان کی قیادت میں اب شاید یہی حکمت عملی ہے کہ اب ہم کونہ جیلیں بھگتنی ہیں اور نہ کوڑے کھانے ہیں۔ شاید یہی سوچ ہے کہ جب مشکل وقت آتا بھی ہے تو وہ بخوبی اس سے نمٹ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ان کے مطابق جب وہ ایوان صدر میں تھے تو میمو گیٹ اسکینڈل آیا تو اس تنازع کو بھی انھوں نے فوجی قیادت کے ساتھ مل کر حل کر لیا۔ایک حلقے کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں سپریم کورٹ کے ماضی کے متعدد فیصلوں پر بطور صدر آصف زرداری نظرثانی کریں گے۔ وہ یا تو قوانین میں ترمیم کا راستہ اختیار کریں گے یا ان فیصلوں کو بھی ریفرنس بنا کر عدالتوں کو ہی اصلاح کے لیے بھیج دیں گے۔گزشتہ کچھ عرصے میں عدالتوں نے انتظامیہ کے کام میں بہت زیادہ مداخلت کی ہے اور ایسے بھی فیصلے دیے ہیں کہ جن سے ادارے مفلوج ہو کر رہے گئے۔ان کے مطابق ٹرانسفرنگ اور پوسٹنگ کا مقدمہ بھی ان مقدمات میں سے ایک ہے، جن میں ججز نے ایگزیکٹو کے اختیارات کو چھیڑا ہے۔ ان کے مطابق ’اس وقت عدلیہ کی صورتحال یہ ہے کہ ایک جج پوری حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر دیتا ہے۔ ایسے میں عدالتی اصلاح آصف زرداری کے اس ایجنڈے پر سرفہرست ہوسکتی ہے اور شریف برادران بھی ان کا ساتھ دیں گے کیونکہ وہ بھی ایسی مداخلت سے ماضی میں نقصان اٹھاچکے ہیں۔یہ بھی خیال کیاجاتاہے کہ آصف زرداری کے ساتھ پی ٹی آئی بھی اس اصلاحاتی پروگرام میں شامل ہو جائے گی اور آصف زرداری ملک سے سیاسی مخالفین کے احتساب کے کلچر کو ختم کردیں گے اور قوانین کے غلط استعمال کو روکیں گے۔ آصف زرداری میں بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں سیاسی حریفوں کے لیے کسی قسم کے انتقام کا جذبہ نہیں ہے، وہ خود ایسے کلچر کے متاثرین میں شامل ہیں اور انھوں نے زندگی کے کئی قیمتی سال جیل میں گزارے ہیں،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایک صلح جو رہنما کی حیثیت سے اپنی شناخت بنانے کی کوشش کی ہے،اس لئے بظاہر وہ اتحادی حکومت کے لیے چیلنج نہیں بنیں گے اور نہ کوئی مشکل کھڑی کریں گے اور اگر وہ ایسا کرنا بھی چاہیں تو نہیں کرسکتے کیونکہ صدر کے موجودہ اختیارات انھیں اس حد تک ہاتھ بڑھانے کی اجازت نہیں دیتے۔اس کے علاوہ آصف زرداری کو معلوم ہے کہ وہ ن لیگ کے ووٹوں کے بغیر صدر نہیں بن سکتے تھے اورجب تک وہ پی ٹی آئی کے ساتھ کسی قسم کارشتہ قائم نہیں کرتے اس وقت تک ان سے کسی قسم کی مہم جوئی کی توقع نہیں کی جاسکتی لیکن توڑ جوڑ میں یکتا ہونے کی وجہ سے وہ بے اختیار رہتے ہوئے موجودہ حکومت کیلئے بڑی مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں کیونکہ موجودہ حکومت پیپلز پارٹی کے بغیر کوئی بڑا قدم نہیں اٹھاسکتی،اس لئے  توقع کی جاتی ہے کہ اپنے اختیارات کو دیکھتے ہوئے فی الوقت وہ خاموشی سے وقت گزارنے اور جمہوری روایات کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں گے اور ملک کو سیاسی انتشار سے بچانے کے لئے نہایت تعمیری کردار ادا کر یں گے۔تاہم اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ آصف زرداری محض علامتی صدر نہیں ہوں گے کیونکہ صدر کا عہدہ اتنا علامتی نہیں ہے جتنا اسے پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق اس وقت صدر مملکت نہ فضل الہٰی کی طرح بے بس ہیں اور نہ ہی حکومتوں کو گھر بھیجنے والے اختیارات کے حامل صدر غلام اسحاق خان کی طرح مکمل با اختیار۔ ان کے مطابق یہ عہدہ اعتدال اور اتحاد کی علامت ہے اس لئے آصف زرداری کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرتے نظر آئیں گے۔ صدر کو آرٹیکل 48 ٹو کے تحت اب بھی یہ اختیارات ہیں کہ وہ وزیراعظم کی مشاورت کا پابند نہیں ہے۔ ان کے مطابق اگر کسی موقع پر وزیراعظم اکثریت کھو جاتے ہیں تو پھر ایسی صورتحال میں صدر کا کردار بڑھ جاتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں