میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی لڑائی، حقیقی یا جعلی؟

پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی لڑائی، حقیقی یا جعلی؟

جرات ڈیسک
اتوار, ۱۹ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

ن لیگ کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ بلاول کے ساتھ 16 مہینے کام کیا ہے، رونے دھونے سے کچھ نہیں ہوگا، مل کر مسائل حل کرنا ہوں گے۔ بلاول زرداری میرے چھوٹے بھائی جیسے ہیں، ہم نے 16 ماہ اکٹھے کام کیا ہے،اب ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے سے کچھ نہیں ہوگا، ہمیں سنجیدہ سیاست کی طرف جانا ہوگا۔ملک کو درپیش سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل مل کر حل کرنے پڑیں گے۔ سیاسی زعما اور اسٹیک ہولڈر ماضی سے سبق سیکھیں۔ ہم سب کو الزام تراشی اور رونا دھونا چھوڑ کر اپنے گریبان میں جھانکنا پڑے گا۔ تجزیہ کرنا ہوگا کہ ہم سے کیا کیا اور کہاں کہاں غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ اس ملک کی ترقی اور حوش حالی ہی سے ہماری ترقی و خوش حالی وابستہ ہے۔ پاکستان ایک جوہری قوت ہے مگر معاشی طور پر ہمارا گزشتہ 75 برس میں جو حشر ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ہمیں اس حالت کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ الزام تراشی کرنا کوئی مناسب عمل نہیں ہے،عوام کے ووٹوں سے کوئی بھی وزیراعظم منتخب ہو، قوم اسے قبول کر لے گی۔ ہماری مخلوط حکومت میں تمام فیصلے مشاورت کے تحت ہوتے تھے۔ ن لیگ پربلاول کی موجودہ الزام تراشی کے حوالے سے شہباز شریف کی باتوں میں کافی وزن ہے اور ان کا یہ کہنادرست ہے کہ اس ملک کو درپیش مسائل مل جل کر ہی طے کیے جاسکتے ہیں،لیکن انھوں نے یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کہ 3 مرتبہ اس ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بنے رہنے اور معمولی وقفے کے ساتھ کم وبیش نصف صدی سے اس ملک کے سب سے بڑے صوبے پر مسلط رہنے کے باوجود وہ پورے ملک نہیں صرف پورے پنجاب میں ہی کوئی مثبت تبدیلی لانے میں کیوں کامیاب نہیں ہوئے،اگر انھوں نے اپنے دور حکومت میں صرف پنجاب میں ہی انصاف سے کام لیاہوتا اور پنجاب کے ہر علاقے کی ترقی کیلئے مساوی فنڈز فراہم کئے گئے ہوتے تو آج جنوبی پنجاب کے لوگوں کی حالت اس قدر ابتر نہیں ہوتی،اس لئے یہ کہناکہ اب وہ اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی غلطیاں درست کرلیں گے،معصوم ووٹر کو لالی پاپ دینے ہی کے مترادف ہے۔جہاں تک پیپلزپارٹی کی جانب سے ن لیگ پر الزامات کی بوچھار کا سوال ہے تو ابھی تک یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان سیاسی اختلاف جعلی ہے یا اصلی۔ بہت سے دوستوں کی رائے ہے کہ یہ اختلاف جعلی ہے۔ یہ اختلاف صرف ووٹر کو دکھانے کے لیے ہے۔ ورنہ اندر سے دونوں سیاسی جماعتیں ایک ہیں۔ اس وقت ملک میں انتخابات ہیں اس لیے اس انتخابی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دونوں جماعتیں سیاسی محاذ آرائی کا ماحول بنا رہی ہیں۔ اس حوالے سے ن لیگ کی جانب سے پیپلزپارٹی کے خلاف الزام تراشی سے گریز کا سبب یہ ہے کہ بلاول جو الزامات شہباز شریف پر عاید کررہے ہیں وہ بڑی حد تک درست ہیں اور ن لیگ کی جانب سے اگر اسی انداز میں پیپلزپارٹی کے خلاف محاذ آرائی شروع کی گئی تو پھر دونوں میں سے کوئی بھی پارٹی عوام کے سامنے جانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ پیپلزپارٹی ن لیگ پر لاڈلا ہونے کے الزامات لگا رہی ہے،اس کے جواب میں ن لیگ پیپلز پارٹی پر الزامات نہیں لگاسکتی بلکہ اس وقت ن لیگ خود ہی اس تاثر کو مضبوط بنانا چاہتی ہے تاکہ اسے کم از کم پنجاب میں تو تمام نشستوں کیلئے امیدوار میسر آجائیں،اگر مسلم لیگ ن کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا ہونے کیلئے پیٹا جانے والا ڈھنڈورا موثر ہوتا تو مسلم لیگ ن کو پنجاب میں جو اس کے دعوے کے مطابق اس کا گڑھ ہے الیکٹیبلز کو تلاش کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی الزام تراشی کے جواب میں ن لیگ خاموش ہے اور جواب میں کچھ کہہ ہی نہیں رہے۔ بلکہ جب میڈیا ان سے سوال کرتا ہے تو وہ معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ تو آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طرح جہاں پیپلزپارٹی ماحول کو گرمانے کی کوشش کر رہی ہے وہاں ن لیگ اسے ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس حوالے سے ایک رائے یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان حالیہ محاذ آرائی جعلی اورملی بھگت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ حقیقی محاذ آرائی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کو یہ گلہ ہے کہ ن لیگ نے اپنے لیے اقتدار کے راستے ہموارکر لیے ہیں۔جبکہ پیپلزپارٹی کے سربراہ جو خود کو بادشاہ گر کہلانے کے خواہاں ہیں کا خیال تھا کہ انھوں نے اگلے اقتدار کے لیے گیم سیٹ کر لیا ہے۔ اور اب ان کی باری ہے۔ لیکن انھیں علم نہیں ہو سکا کب وہ اس گیم سے آؤٹ ہو گئے۔ وہ میٖڈیا میں نعرے لگاتے رہے کہ اگلا وزیر اعظم بلاول ہے۔ اور انھیں اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ دوسری طرف نواز شریف کی واپسی کے لیے سب معاملات حل ہو گئے ہیں۔وہ سوچتے رہے کہ اب قبولیت کی معراج پر وہ ہیں۔ لیکن انھیں اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ وہ اب بھی دوسرے نہیں بلکہ تیسرے درجے پر ہیں۔ ن لیگ ان سے آگے ہے۔ وہ ن لیگ کو گیم سے آؤٹ کر چکے تھے۔ انھیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ گیم اب بھی ن لیگ کے ہاتھ میں ہے۔پیپلزپارٹی کا خیال تھا کہ وہ بلوچستان کی بادشاہ ہے۔ اقتدار کے لیے بلوچستان تو ان کی جیب میں ہے۔ آصف زرداری جو خود کو بلوچ کہتے ہیں۔ ان کے مطابق سب بلوچ ان کے ساتھ ہیں۔ اس لیے پیپلز پارٹی کی رائے میں جب انتخابات کا کھیل شروع ہونا تھا تو بلوچستان سے سب کی پہلی اور آخری چوائس پیپلز پارٹی ہی ہونی تھی۔ سب اتحاد پیپلزپارٹی کے ساتھ ہی بننے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔بلوچستان کے سیاسی سرداروں نے ن لیگ اور نواز شریف کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ پیپلزپارٹی سمجھ ہی نہیں سکی کہ جس بلوچستان کو وہ اپنی جیب میں سمجھ رہی تھی وہ اس کی جیب میں نہیں ہے۔ ان کی جیب خالی ہے۔ انھوں نے جس کو شامل ہونے کی دعوت دی اس نے صاف انکار کر دیا۔ اس انکار نے پیپلزپارٹی کو شدید سیاسی صدمے سے دوچار کیا۔ جس کا اندازہ ان کی گفتگو میں ہوتا ہے۔اسی طرح ان کا خیال تھا پنجاب میں ن لیگ ان کو سیٹیں دینے پر مجبور ہو جائے گی جیسے پی ڈی ایم کی حکومت میں وہ سیٹیں لے لیتے تھے۔ ویسے ہی انتخابات میں بھی لے لیں گے۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ن لیگ نے ایک بھی سیٹ پر ایڈجسٹمنٹ کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ تحریک انصاف سے لوگ چھوڑ کر پنجاب اور کے پی میں پیپلز پارٹی میں آئیں گے ایسا بھی نہیں ہوا اور دونوں صوبوں میں تحریک انصاف چھوڑنے والوں نے الگ نئی سیاسی جماعتیں بنا لی ہیں۔ جس کی ذمے دار بھی پیپلز پارٹی ن لیگ کو ہی سمجھتی ہے۔وہ سمجھتے ہیں ان کو پیپلزپارٹی میں آنے سے ن لیگ نے روکا ہے جب کہ دوسری طرف ن لیگ کا موقف ہے کہ انھوں نے کونسا ان کو اپنے اندر شامل کر لیا ہے۔ وہ کسی کو زبردستی پیپلزپارٹی میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ اگر وہ ن لیگ میں شامل ہوں تو گلہ ہے۔ اگر نئی سیاسی جماعت میں گئے ہیں تو ن لیگ سے کیسا گلہ ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کا موقف ہے کہ ن لیگ نے ان سب کو روکا ہے۔حالانکہ کے پی میں وہ کیسے روک سکتے ہیں۔اس سب صورتحال میں پیپلزپارٹی نے نواز شریف کو لاڈلااور ن لیگ کو کنگز پارٹی کہنا شروع کر دیا۔ اخباری خبریں یہی ہیں کہ ن لیگ اور بالخصوص نواز شریف کو یہ پسند نہیں۔ لیکن ایسا معلوم ہوتاہے کہ انھیں کوئی برا نہیں لگ رہابلکہ ان کی خواہش یہی ہے کہ ان کے لاڈلا ہونے کاتاثر زیادہ گہراہو۔ خبر یہی ہے کہ ن لیگ پیپلزپارٹی کے اس بیانیہ پر بہت خوش ہے۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اس کو جاری رکھے۔ اسی لیے وہ جواب نہیں دینا چاہتے بلکہ چاہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اس کو اپنی سیاسی فتح سمجھتے ہوئے جاری رکھے۔ن لیگ کی رائے ہے کہ وہ خود توووٹر کو نہیں کہہ سکتے کہ اگلی باری ان کی ہے۔ وہ خود تو نہیں کہہ سکتے وہ اقتدار میں آرہے ہیں ان کا گیم سیٹ ہو گیا ہے۔ اس لیے اگر پیپلزپارٹی ان کے لیے یہ کام کر رہی ہے تو لڑنے کے بجائے شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اگر پیپلزپارٹی ملک بھر میں یہ ماحول بنا دے کہ نواز شریف آرہا ہے تو پیپلزپارٹی سے لڑنے کے بجائے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔اگر پیپلزپارٹی کے لوگ ہر ٹاک شو ہر پریس کانفرنس میں کہیں کہ ن لیگ آرہی ہے تو ان کے لیے اس سے اچھی کیمپین کیا ہو سکتی ہے۔ اس میں برا منانے والی کوئی بات نہیں۔ بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔  اسی سوچ کی وجہ سے پیپلزپارٹی جس لڑائی کے بارے میں سوچ رہی تھی وہ نہیں ہوئی۔دوسری طرف ن لیگ یہ سمجھ گئی ہے کہ پیپلزپارٹی ن لیگ مخالف بیانیہ پر ملک بھر میں الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔ وہ تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین پر تنقید نہیں کریں گے بلکہ ساری تنقید ن لیگ اور شریف خاندان پر کی جائے گی۔ پیپلزپارٹی کی کوشش ہو گی کہ وہ ملک بھر میں تحریک انصاف کے ووٹر کی ہمدردی حاصل کر کے اس کو اپنی طرف متوجہ کر لے۔ اس لیے تحریک انصاف کے حامی کو ناراض نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ ن لیگ مخالف ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ن لیگ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ن لیگ کو تحریک انصاف مخالف بیانیہ پر الیکشن لڑنا ہے۔ ان کی تمام توجہ تحریک انصاف پر ہوگی۔ اس لیے وہ اپنی پالیسی پر قائم ہیں۔ ن لیگ9مئی کی بات کرتی ہے جب کہ پیپلزپارٹی اب 9مئی کی بات نہیں کرتی ہے۔ ن لیگ توشہ خانہ اور فرح گوگی کی بات کرتی ہے پیپلزپارٹی توشہ خانہ اور فرح گوگی کی بات نہیں کرتی۔ ن لیگ القادر ٹرسٹ کی بات کرتی ہے۔ پیپلزپارٹی نہیں کرتی۔ن لیگ سائفر کی بات کرتی ہے پیپلز پارٹی نہیں کرتی۔چند ماہ سے پیپلزپارٹی کے رہنما لیول پلیئنگ فیلڈ کا بہت ذکر کر رہے ہیں۔لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ بہتر اور اچھا ہے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطلب واضح ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کوآزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ وہ جو کچھ بھی مانگ رہے ہیں وہ سب کچھ ان کے ذہن میں ہے مگر کھل کر بات نہیں کر رہے، اگر آسان فہم میں بات کی جائے تو پیپلزپارٹی مانگ رہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کا مساوی موقع ملنا چاہیے، لیکن ابھی تک تمام سیاسی جماعتیں سامنے ہی نہیں آسکی ہیں کیونکہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود موجودہ نگراں حکومت اپنے نادیدہ نگرانوں کے مبینہ اشارے پر ان تمام جماعتوں کو جو انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہیں خاص طورپر تحریک انصاف کو کارنر میٹنگ کرنے کی اجازت دینے سے بھی گریزہیں، اگر دیوار کے پار جھانکا جائے تو یہ صاف نظر آئے گا کہ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ تحریک انصاف کو بھی موقع ملنا چاہیے اس کا مطلب ہوا پنجاب میں تحریک انصاف مسلم لیگ کے مقابلے میں آکر پیپلزپارٹی کے لیے راہ ہموار کرے۔ پیپلز پارٹی صرف یہ چاہتی ہے کہ کسی طرح مسلم لیگ کا راستہ روکا جائے۔پیپلز پارٹی اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے یہ بات اگلے چند دنوں میں سامنے آجائے گی،یہی نہیں بلکہ موجودہ نگرانوں کی جانب سے تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیوں پر غیر اعلان شدہ پابندیاں بھی اب زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رہ سکیں گے کیونکہ تحریک انصاف ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہے اور اس کے پاس نامور وکلا کی مضبوط ٹیم موجود ہے جو موجودہ نگراں حکومت کے اقدامات کو عدالت میں چیلنج کرکے نگراں حکومت کو غیر اعلانیہ پابندیاں ختم کرنے اور پولیس کو قانون کے دائرے میں رکھنے پر مجبور کردیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں