میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سعودی عر ب پریمن کا 63 فیصد تیل چرانے کاالزام

سعودی عر ب پریمن کا 63 فیصد تیل چرانے کاالزام

منتظم
هفته, ۱۱ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

تازہ ترین اطلاعات سے انکشاف ہواہے کہ سعودی عرب اور امریکہ نے یمن کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے خفیہ طورپر گٹھ جوڑ کرلیا ہے اور اسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والے اتحاد کے طیارے یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ حکومت کے خلاف نبرد آزما مجاہدین پر اندھادھند بمباری کرکے ان کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ خبروں کے مطابق سعودی عرب اورامریکہ یمن کے تیل کے ذخائر پر قابض ہونے کے لیے یمن میں قتل عام کررہے ہیں اور پوری دنیانے اس کی جانب سے آنکھیں بند کرلی ہیں۔خبروں میں یہ بھی انکشاف کیاگیاہے کہ یمن میں سعودی عرب کے زیر قیادت فوجی کارروائی کابنیادی مقصدیمن میں موجود تیل کے وسیع ذخائر پر قبضہ کرنا ہے۔
یمن کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کی دلچسپی اور اس حوالے سے امریکہ سے اتحاد پر مبصرین حیران تھے اوران کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ آخر سعودی عرب اپنے اتحادیوں کے ساتھ پورے خلیج میں سب سے غریب ترین ملک پر کیوں برس پڑا ہے،لیکن بعد میں یہ ثابت ہوا کہ سعودی عرب کی یہ چابکدستی بلاوجہ نہیں ہے ،بلکہ اس کاسبب یہ انکشاف ہے کہ یمن میں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور یمن میں موجود تیل کے ذخائر اس پورے خطے میں موجود تیل کے ذخائر کی مجموعی مقدار سے بھی زیادہ ہیں، جبکہ بین الاقوامی سطح پر اس بات کی تصدیق کی جاچکی ہے کہ سعودی عرب کے تیل کے ذخائر خشک ہورہے ہیں اور مستقبل قریب میں سعودی عرب کے پاس دوسروں کو برآمد کرنے کے لیے تیل کاایک قطرہ بھی نہیں ہوگا، اس صورت حال نے سعودی شاہی خاندان کو بوکھلا کر رکھ دیاہے اور انہوں نے فوری طورپر ملک میں کفایت شعاری مہم شروع کرکے غیر ملکی ملازمین کو فارغ کرکے ان کے وطن واپس کرنے کاسلسلہ شروع کردیا ہے ، اس صورت حال میں ان کی للچائی ہوئی نظریں اس خطے کے انتہائی غریب اورکم وسیلہ ملک یمن میں موجود تیل کے ذخائر پر جم کر رہ گئی ہیں اور وہ ہر قیمت پر یمن کے تیل کے ان وسائل پر قبضہ کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔
مبصرین کاکہناہے کہ یہ ثابت ہوجانے کے بعد کہ یمن میں زیر زمین موجود تیل کے ذخائر اس پورے خطے میں موجود تیل کے مجموعی ذخائر سے بھی زیادہ ہیںسعودی عرب نے اپنی پوری توجہ یمن پر مرکوز کردی اور یمن کے تیل کو سعودی پائپ لائنوں میں لانے کو یقینی بنانے کے لیے اب وہاں قتل عام کرنے میں بھی اسے کوئی شرم محسوس نہیں ہورہی ہے۔
یمن کے ماہر تجزیہ کار محمد عبدالرحمان شراف الدین نے ایف این اے کو گزشتہ روز بتایا کہ سعودی عرب فی الوقت یمن کا 63 فیصد خام تیل چوری کررہاہے ،انہوںنے دعویٰ کیا کہ یمن کے خلاف فوجی کارروائی کا انعام حاصل کرنا اور اس کاپھل کھانا شروع کردیا ہے، انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب نے فرانس کی تیل کمپنی ٹوٹل کے تعاون سے یمن سے ملنے والے سعودی سرحد ی صوبے نجران کے قریب واقع خرخیر کے جنوبی علاقے میں تیل کی تنصیبات قائم کی ہیں اور یمن کے خام تیل کو ان میں منتقل کیاجارہاہے۔ اس کی وجہ سے اب اس سرحدی علاقے میںرہنے والے لوگ مصیبت میں پھنس گئے ہیں کیونکہ اب یمن کے اس علاقے میں سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات کو لاکھوں بیرل تیل پہنچانے والی پائپ لائنیں ان کے گھروں کے نیچے سے گزر رہی ہیںجہاں ان کے بچے سوتے ہیں۔
محمد عبدالرحمان شراف الدین کاکہناہے کہ سعودی عرب یمن سے چرائے ہوئے اس تیل سے حاصل ہونے والی رقم سے اسلحہ خرید کر یمن میں سعودی عرب کی ایما پر حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو فراہم کررہاہے،انہوں نے الزام لگایا کہ سعودی حکام نے ان کرائے کے فوجیوں کو واضح احکام دے رکھے ہیں کہ وہ یمن کے تیل سے مالامال علاقے کے لوگوں کاقتل عام کرنے سے دریغ نہ کریں تاکہ سعودی عرب کو تیل کے ان دریافت شدہ اور غیر دریافت شدہ ذخائر پر قبضہ کرنے میں آسانی ہو۔
اب یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ آخر یمن نے اب تک اپنی تیل کی اس دولت سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟ اس سوال کاجواب گزشتہ سا ل یمن کے ایک ماہر اقتصادیات نے دیا تھا انہوں نے دعویٰ کیاتھا کہ امریکہ اور سعودی عرب نے سابق یمنی حکومت کو اپنے تیل کے ذخائر کے لیے کھدائی نہ کرنے کے عوض بھاری رشوت دی تھی اور اس طرح سابق یمنی حکمراں تو دولت مند بلکہ امیر ترین ہوگئے لیکن یمن کے عوام اسی طرح غریب رہ گئے۔یمن کے ایک ماہراقتصادیات حسن علی الصنائری نے ایف این اے سے باتیں کرتے ہوئے دعویٰ کیاہے کہ سعودی عرب اور امریکہ نے یمن کو کم از کم 30سال تک اپنے تیل کے ذخائر دریافت کرنے سے روکے رکھنے کے لیے ایک خفیہ معاہدہ کررکھاتھا ۔اس خفیہ معاہدے کے تحت مسلسل بھاری رشوت وصول کرکے یمن کے سابق حکمران امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور یمن کے عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں کوترستے رہے۔
بین الاقوامی ڈرلنگ کمپنی کی جانب سی کی گئی سائنسی ریسرچ اور تجزیوںسے ثابت ہوچکاہے کہ یمن کے اب تک استعمال میں نہ لائے جانے والے تیل کے ذخائر تمام خلیجی ممالک کے پاس موجود تیل کے مجموعی ذخائر سے بھی زیادہ ہیں ،یمنی ماہر کاکہناہے کہ یمن کے علاقے مارب الجوف ،شابواہ اور حضر موت کے علاقے تیل کی دولت سے مالامال ہیں اور اس طرح یمن کوسونے کی کان کہاجاسکتاہے ۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یمن کے صوبے الجوف میں تیل کے جو نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں اس سے یہ ملک پوری دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔لیکن ایسا اسی وقت ہوسکتا ہے جب سعودی عرب اور امریکہ اس معاملے میں دخل اندازی سے باز آجائیں ۔
سعودی عرب یا امریکہ میں سے کسی نے بھی ابھی ان الزامات یادعووں کی تردید یا تصدیق کرنے سے گریز کیاہے جس سے ظاہر ہوتاہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے بلکہ دال مکمل طورپر کالی ہے۔
بیکسٹردمتری


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں