میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
روس کا نائن الیون، کیا دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر ہے؟

روس کا نائن الیون، کیا دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر ہے؟

جرات ڈیسک
جمعه, ۵ اپریل ۲۰۲۴

شیئر کریں

ایم آر ملک

٭داعش کو کور کے طور پر استعمال کرنے والا امریکہ پہلی بار بے نقاب ہوا،امریکہ ہی داعش کی سرپرستی کرتا ہے،روس کی فوج،اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے چند گھنٹوں کے اندر اصل ملزموں کو پکڑ لیا
٭دہشت گرد نے اعتراف کیا کہ مجھے 5400ڈالر دیئے گئے اور کہا گیا کہ جب تم بچ کر آؤ گے تو اگلے ٹاسک کیلئے ایک ملین ڈالر دیے جائیں گے
٭روس ان افراد کو بھی پکڑنے میں کامیاب ہو چکا ہے جنہوں نے ماسکو میں ہونے والے حملہ میں فنانس کیا،پیسہ لگایا،ان لوگوں کو بچانے کیلئے امریکہ،یورپ،اسرائیل،یوکرین نے پوری کوشش کی
٭یوکرائن،روس تنازعہ، امریکی منافقت نے کہاں کہاں انسانیت کا جنازہ نہیں نکالا، امریکہ نے ہمیشہ ثابت کیا کہ اس کی دوستی دشمنی سے زیادہ خطرناک رہی ہے،
٭بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشنکو نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ اگر مغرب نے روس پرحملہ کیا تو مینسک جنگ کے میدان میں کود پڑے گا، طالبان کا بھی روس کا ساتھ دینے کا اعلان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روسی صدر پیوٹن اور سابق امریکی صدر اوباما

روس کی انٹیلی جنس ایجنسی ایف ایس بی کے چیف نے برملا اعلان کردیا ہے کہ ماسکو کے کنسرٹ ہال میں ہونے والے حملہ میں امریکہ، برطانیہ اور یوکرائن براہ راست شامل ہیں۔ ہمارا پہلا ٹارگٹ یوکرائن کا انٹیلی جنس چیف ہے جسے ہم نے مارنا ہے،صورت حال کلیئر ہوچکی ہے کہ داعش کو صرف کور کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اصل میں یوکرین،امریکہ،برطانیہ اس حملے کے پیچھے ہیں۔داعش نہیں،یہ کسی عام فرد کا اعلان نہیں بلکہ ایک بڑی طاقت کا انٹیلی جنس چیف کہہ رہا ہے کہ داعش امریکہ کیلئے کام کرتی ہے۔امریکہ اس دہشت گرد تنظیم کا سرپرست ہے،روس کی فوج،اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو داد دیجیے کہ انہوں نے چند گھنٹوں کے اندر اصل ملزموں کو پکڑ لیا،دہشت گرد نے اعتراف کیا کہ مجھے 5400ڈالر دیے گئے اور کہا گیا کہ جب تم بچ کر آؤ گے تو اگلے ٹاسک کیلئے ایک ملین ڈالر دیے جائیں گے،مجھے کہا گیا کہ تم نے فلاں جگہ جانا ہے اور لوگوں کو مارنا ہے۔ کنسرٹ ہال ماسکو میں بے گناہ افراد کو گولیاں ماریں گئیں جن میں بچوں اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے اور اس وقت 100سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں،روس ان افراد کو بھی پکڑنے میں کامیاب ہو چکا ہے جنہوں نے ماسکو میں ہونے والے حملہ میں فنانس کیا،پیسہ لگایا،ان لوگوں کو بچانے کیلئے امریکہ،یورپ،اسرائیل،یوکرین نے پوری کوشش کی۔ مگر روسی تحقیقاتی ایجنسیوں نے کمال کر دکھایا،ایک مسلمان کمانڈر رمضان قادریف کا کردار ہراول کا تھا،روس نے یوکرین کی انٹیلی جنس ایجنسی کے چیف کو زندہ پکڑنے کا ہدف دیا ہے۔ اس شخص نے کچھ عرصہ پہلے اس حملہ کے بارے میں کہا تھا کہ روس کے اندر ایک ایسا حملہ ہوگا کہ روس ہل کر رہ جائے گا۔ یہ سی آئی اے کا ایجنٹ ہے،اسرائیل کا پٹھو ہے یہ حقیقت ہے اس حملے کے بعد اسی تناظر میں شام میں ایران کے سفارت خانے پر اسرائیل کا حملہ ہوا ہے،جس پر چائنا اور روس نے ایران کو گرین سگنل دے دیا ہے کہ آپ اسرائیل سے بدل لیں، اس کی ایمبسی تباہ کریں، اس صورت حال میں اقوام متحدہ کی ہنگامی میٹنگ کال کی گئی ہے،اسرائیل نے اس حملہ کے بعد دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو ہائی الرٹ کر دیا ہے،اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے امریکہ نے اسرائیل کو 20ارب ڈالر کے جنگی ہتھیار ہنگامی طور پر دینے کا اعلان کیا ہے۔
عرصہ پہلے جب فرانس میں ایک ورلڈ اکنامک فورم میں امریکی صدر باراک اوبامہ نے داعش کو دہشت گرد اور دنیا کیلئے خطرہ قرار دیا تو روس کے موجودہ صدر ولادی میر پیوٹن نے اس کے منہ پر یہ الفاظ دے مارے کہ ”منافقت بند کرو مقرر کے سامنے بیٹھے سارے سامعین بے وقوف نہیں ہوتے۔ داعش امریکہ کا پید کردہ ایک دہشت گرد گروہ ہے جس پر امریکی صدر نے ولادی میر پیوٹن کے موقف کی نفی کی مگر ولادی میر پیوٹن نے کہا کہ اگر یہ جھوٹ ہے تو میں اس کاجواب انتہائی عجلت میں دوں گا۔یوں اگلے روز روس کے صدر نے شام میں داعش کے ٹھکانوں پر جب بمباری کی تو نام نہاد سپر پاور کا صدر چیخ اُٹھا اور اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔روس میں ماسکو کے کنسرٹ ہال میں ہونے والے حملہ کے بعد روس شام میں داعش کے ٹھکانوں پر ایک بار پھر حملہ کرنے والا تھا کہ اسرائیل نے اس سے پہلے شام میں ایرانی قونصلیٹ کو اڑا دیا جس پر پوری دنیا میں اسرائیل کی مذمت ہورہی ہے۔ جب نائن الیون کا وقعہ ہوا تو اس روز چار ہزار یہودی چھٹی پر تھے، یعنی ان یہودیوں کو علم تھا کہ امریکہ میں حملہ ہونے والا ہے، اسی طرح ماسکو حملہ سے قبل بھی امریکہ نے اپنے شہریوں کو الرٹ جاری کردیا تھا۔
ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ امریکہ کی دوستی اس کی دشمنی سے زیادہ خطر ناک ہے۔پاکستان میں بھٹو سے لیکر ضیاء تک نے اس دوستی کی قیمت چکائی۔ ہم یوکرین کے تنازع کو بھی امریکی دوستی کے پس منظر میں دیکھتے ہیں جہاں ہمیں امریکہ کا منافقانہ کردار واضح نظر آتا ہے،بہت سے قارئین اس سوال کی کھوج میں نظر آتے ہیں کہ روس،یوکرین تنازع ہے کیا؟ کیوں روس نے یوکرین پر دھاوا بول دیا؟ کیایہ تناؤ مفادات کا چکرہے؟اگر مفادات کا چکر ہے تو کس کیلئے؟ اس تنازع کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ کو کھنگالنا ہوگا۔ ماضی کے اوراق کو پلٹنا ہوگا۔ اس خطہ کی تاریخ اور سیاست کے ساتھ مغرب کے مفادات اورامریکی کھیل کو بھی سمجھنا ہوگا۔ یوکرین تنازع کی جڑیں تلاش کرنے کے لیے سو سال پہلے 1920 کے حالات و واقعات کا جائزہ لینا ہوگا جب انقلاب روس کے بعد یوکرین سوویت یونین کا حصہ بنا۔مشرقی یورپ میں واقع یوکرین رقبے کے اعتبار سے روس کے بعد سب سے بڑا یورپی ملک ہے مگرچند ماہ سے یوکرین روس کے ساتھ فوجی اور جغرافیائی تنازع کی وجہ سے عالمی مرکز نگاہ بنا ہوا ہے۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے یوکرین سے علیحدگی اختیار کرنے والے دو علاقوں دونیتسک اور لوہانسک کو خود مختار اور آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرلیا تھا۔روس اور یوکرین کے اس جغرافیائی تنازع کی جڑیں گذشتہ سو سالہ تاریخ میں ہیں۔آج مغرب اور امریکہ کے ساتھ مل کر روس کو مشکل میں ڈالتا یوکرین 1920 سے 1991 تک سوویت یونین کا حصہ رہا۔نوے کی دہائی میں جب امریکی شیطنت سے سوویت یونین کا عروج ڈگمگانے لگا تو یوکرین ان پہلے ممالک میں سے تھا، جس نے 16 جولائی 1990 کو یونین سے امریکی آشیر باد اور خوشنودی کی خاطر علیحدگی کا اعلان کردیا۔ یہی نہیں تقریباً ایک برس بھی نہ گزرا 24 اگست 1991 کو یوکرین نے خودمختاری اور مکمل آزادی کا اعلان بھی کر دیا۔یوکرین نے آزادی تو حاصل کرلی لیکن وہاں موجود 17 فیصد روسی النسل آبادی سمیت روس کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی اکثریت اور امریکہ کے لے پالک گروہوں میں تنازعات کا آغاز ہو گیا۔یہ وہی عرصہ تھا جب روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کی چنگاریاں اپنی آخری سانسیں لے رہی تھیں۔ روس کو یورپ میں قابو کرنے کے لیے امریکہ نے ایک شیطانی چال یہ چلی کہ نیٹو کے ساتھ مل کر لیتھیوانیا، پولینڈ اور رومانیہ میں فوج رکھ لی اور ہتھیار نصب کر دیے۔ ان تین ممالک کی سرحدیں یوکرین سے جڑی ہوئی ہیں۔ 2014 آنے تک یوکرین کی سرحد کے ساتھ صرف بیلاروس ایک ایسا ملک تھا، جس کے تعلقات روس کے ساتھ مثالی تھے۔ 2014 روس اور یوکرین تنازع کا عروج تھا۔یاد رہے کہ 2014 میں یوکرین کے صدر وکٹر ینوکووچ تھے، جن کا جھکاؤ نہ صرف روس کی طرف تھا۔بلکہ ان کا موقف تھا کہ روس ہی ایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ کھڑا ہونا بنتا ہے۔ ان کے ذہن سے سوویت یونین کا تصور نہ نکل سکا۔انہوں نے روس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یورپی یونین سے منسلک ہونے کا معاہدہ مسترد کر دیا، یہ امر امریکہ کیلئے نہایت تکلیف دہ تھا جس کے بعد امریکہ نے وہاں کے گروہوں کو خرید کر بڑے پیمانے پر احتجاج شروع کرادیے، بالکل اسی طرح جس طرح روز ویلٹ نے مصدق حسین کو ایران میں عوام کی نظروں سے گرایا۔ اس احتجاجی لہر کے نتیجے میں وکٹوریا نوکووچ کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اسی دوران یوکرین کے مشرقی علاقوں سے روس کی سرحد پر مامور سکیورٹی افواج پر حملے ہوئے۔ یہ روس کیلئے ناقابل برداشت اقدام تھاجس کے نتیجے میں روس نے کریمیا پر چڑھائی کر دی جو تب سے روس کے کنٹرول میں ہے۔کریمیاپر روس کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد یوکرین کے علیحدگی پسند گروپوں نے بھی ملک کے مشرقی علاقوں میں پیش قدمی کی اور حالات نے خانہ جنگی کی سی صورت حال اختیار کرلی۔یہ کیادھرا بھی امریکا کا تھا۔امریکہ اور مغربی ممالک کی حمایت سے مسلح جتھے روسی النسل علاقوں میں خونریزی کر تے۔ مغربی ممالک نے موقف اختیار کیا کہ روسی حمایت سے شر پسند عناصر یوکرین میں بدامنی پھیلا رہے ہیں۔ دونوں اطراف سے الزامات کا سلسلہ جاری رہا اور اس دوران ایک محتاط اندازے کے مطابق 14 ہزار افراد خانہ جنگی میں مارے گئے۔ 2015 میں فرانس کے تعاون سے یوکرین کے تمام متعلقہ گروہوں میں معاہدہ تو ہوگیا لیکن جھڑپیں جاری رہیں۔تاہم روس کا یوکرین پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔مگر امریکہ جو ہمیشہ مفادات کے تحفظ کیلئے شیطانی چال چلتا رہا ہے نے میڈیا کے ذریعے روس کے خلاف ایک طویل پروپیگنڈے کی بنیاد رکھی۔روسی صدر نے بار ہا یہ باور کرایا کہ اس کا یوکرین پر حملے اور قبضے کا کوئی ارادہ نہیں مگر امریکہ دانستہ روس کو اس حملے پر اُکساتا رہا، ماہ فروری 2022میں امریکی صدرجو بائیڈن نے روسی صدر ولادیمیر پیو ٹن کے ساتھ فون پر ایک مرتبہ پھر دعویٰ کیا کہ اگر روس نے یوکرین پر ”حملہ” کیا تو اسے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ردعمل سے بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔ اس حوالے سے پوٹن نے زور دیتے ہوئے کہا کہ روس کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ امریکہ کیوں دانستہ میڈیا کے سامنے نام نہاد غلط معلومات افشاء کر رہا ہے کہ روس نے یوکرین پر ”حملے” کا منصوبہ بنایا ہے۔ اسی دن یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک بیان میں کہا کہ تاحال ”یوکرین“ میں کوئی مکمل جنگ نہیں ہے۔یہی نہیں واشنگٹن روس کے ”خطرے“ کو تیز کرتے ہوئے یورپ میں ایک خاص حد تک تزویراتی تناؤ پیدا کرنے کی کوشش کر تا رہا، تاکہ یورپی ممالک، بالخصوص مشرقی یورپی ممالک اور سابق سوویت ریاستیں اُس کے احکامات پر مزید قریبی عمل کریں۔ دوسرا، امریکہ کا مقصد جنگی بحرانوں کو بھڑکاتے ہوئے معاشی فوائد کے حصول کے لیے تصادم کو ہوا دینا تھا۔ اطلاعات کے مطابق یوکرین بحران میں شدت آنے کے بعد سے امریکہ نے بڑی تعداد میں یوکرین کو ہتھیار فراہم کیے اور اسے یہ باور کرایا کہ روس یوکرین پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور تین بالٹک ممالک سے امریکی ساختہ میزائل اور دیگر ہتھیار یوکرین منتقل کرنے کی بھی منظوری دی۔ اس کے پس پردہ فطری طور پر امریکی فوجی صنعتی گروپ کا مفاد رہا۔حالیہ دنوں میں تنازع کے دونوں فریقین یعنی روس اور یوکرین، متعدد مرتبہ جنگ نہ کرنے سے متعلق اپنی رضامندی کا اظہابھی کر چکے، لیکن دوسری جانب امریکہ، ایک ماورائے اختیار ملک کے طور پر ”جنگ قریب ہے” کے ماحول کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا۔ روس کے یوکرین پر حملے کے خطرے کو امریکہ کیوں بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا تھا؟محض اس لئے کہ سوویت ریاستیں جو روس سے علیحدہ ہوئیں وہ روس پر توانائی کے انحصار سے نجات حاصل کریں اور توانائی کے حوالے سے امریکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے حالات پیدا کریں،روس نے امریکی میڈیا پر چلنے والی خبروں کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔میڈیارپورٹس کے مطابق روسی وزارت خارجہ نے امریکی میڈیا پر چلنے والے بیانات کو ہیجان انگیز قرار دیتے ہوئے کہاکہ انہیں معلوم ہے روسی فیصلوں سے متعلق میڈیا کو غلط معلومات کیوں دی جا رہی ہیں؟ ہیجان انگیزی کا عالم یہ ہے کہ امریکیوں نے روسی حملے کی تاریخ بھی جاری کر دی۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنی قوم سے خطاب میں کہا کہ ہم اپنی ریاست کا اکیلے ہی دفاع کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا کے سب سے طاقتور ترین ممالک دور سے بیٹھے دیکھ رہے ہیں، انہوں نے سوال کیا کہ ”کیا روس لگائی گئی پابندیوں سے متاثرہوا“؟یوکرینی صدر کا کہنا تھا کہ ہم اپنے آسمانوں میں سن رہے ہیں اوراپنی زمین کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ یہ کافی نہیں ہے۔     اس سے قبل قوم سے خطاب میں یوکرین کے صدر نے یوکرینی اور روسی زبان میں روس سے سیز فائر کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’روس کو ہم سے جلد یا بدیر مذاکرات کرنے ہوں گے۔ دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکہ نے اپنی فوج یوکرین میں نہ اتارنے کا اعلان کیا ہے تاہم امریکہ نے روس پر نئی پابندیوں کا اعلان ضرور کیا ہے امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ پیو ٹن بین الاقوامی سطح پر کم تر ثابت ہوئے ہیں۔ امریکی فورسز یوکرین میں نہیں لڑیں گی۔
روسی صدر پیوٹن نے امریکہ کو براہ راست دھمکی دی۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی فریق یوکرین کی حمایت کرے گا اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکہ نے اس حملے کی شدید مذمت کی۔ امریکہ اور نیٹو بے بس ہیں اور روس کے صدر ولا دیمیر پیوٹن نے جو اپنے خطہ میں امریکی ومغربی اثرات اور دبدبہ کو ختم کرنے پر اٹل ہیں۔ امریکہ حیرا ن و پریشان ہے۔ کسی بڑی جنگ کے خدشے سے بھی خوف زدہ ہے۔
روسی حکومت نے یورپی یونین کے متعدد اعلیٰ عہدیداروں کوبلیک لسٹ کر کے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے۔ روسی وزارت خارجہ کے مطابق اِن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عہدیداروں کے ساتھ ساتھ قانون ساز اور انتظامی اداروں کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ ان پابندیوں کا مقصد نجی یورپی فوجی کمپنیوں کو روکنا ہے، جو دنیا کے مختلف خطوں میں سرگرم ہیں۔ قبل ازیں ای یو نے واگنر نامی ایک نجی فوجی کمپنی کے خلاف اقدامات کیے تھے، جسے روس کی ’شیڈو آرمی‘ خیال کیا جاتا ہے۔ اس گروپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مشرقی یوکرین میں بھی کام کر رہی ہے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ چِھڑ چکی جس کے باعث دنیا بالخصوص یورپ ایک بڑی جنگ کے دہانے پر ہے۔

روس اور یوکرین کا دفاعی موازنہ
دفاعی اعتبار سے یوکرین کا روس سے کوئی موازنہ نہیں ہے، دنیا بھر میں عسکری قوت اور دفاعی ساز و سامان کے اعتبار سے ملکوں کی درجہ بندی جاری کرنے والے عالمی ادارے گلوبل فائر پاور اور آئی آئی ایس ایس ملٹری پاؤر کے اعداد و شمار کے مطابق روس دنیا کی دوسری بڑی فوجی طاقت ہے جب کہ یوکرین کا نمبر 22 واں ہے۔روس نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی عسکری طاقت ہے بلکہ اس کے پاس بڑی تعداد میں جوہری ہتھیار بھی موجود ہیں تاہم یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ یوکرین کے پاس بھی کبھی بڑی تعداد میں جوہری ہتھیار تھے۔خیال رہے کہ یوکرین 1991 تک سوویت یونین کا حصہ تھا اور سوویت یونین سے علیحدگی کے وقت یوکرین کے پاس بڑی تعداد میں جوہری ہتھیار موجود تھے جو کہ تعداد کے لحاظ سے دنیا بھر میں اس وقت تیسرے نمبر پر تھے، یہ ہتھیار سوویت یونین کی جانب سے وہاں چھوڑے گئے تھے تاہم آزادی کے بعد یوکرین نے خود کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنیکا بڑا فیصلہ کیا۔یوکرین کے اس اقدام کے بدلے میں امریکا، برطانیہ نے 1994 میں یوکرین کی حفاظت یقینی بنانے کا معاہدہ کیا جسے ’بڈاپسٹ میمورنڈم‘کہا جاتا ہے۔موجودہ صورتحال میں یہ معاہدہ پھر زیر بحث ہے،روس کو اس لحاظ سے اخلاقی برتری حاصل ہے کہ اس نے یوکرین جنگ میں انسانی آبادیوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا تاہم یوکرین کے جوہری پاؤر پلانٹ پر ہونے والا کوئی بھی حملہ انتہائی خوفناک ثابت ہوسکتا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریاستی سربراہان کے درمیان کیا گیا یہ معاہدہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تاہم روس کے دارالخلافہ ماسکو میں کنسرٹ ہال میں ہونے والے حملہ میں روس نے ایک
تو بروقت حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا جن کو امریکہ کی طرف سے مالی اور عسکری امداد فراہم کی گئی اور امریکہ نے اس کا رخ اپنی لے پالک تنظیم داعش کی طرف موڑنے کی ناکام کوشش کی جسے روس نے بے نقاب کردیا کہ داعش در اصل امریکہ کے وہ لے پالک دہشت گرد ہیں جنہیں کسی بھی ملک میں عدم استحکام اور انسانی جانوں کے ضائع کیلئے امریکہ کثیر دولت خرچ کر رہا ہے۔موجودہ حملے کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ مغربی طاقتیں بالخصوص امریکا اور برطانیہ کیا اقدام اٹھاتے ہیں، 2014 میں بھی کریمیا میں روس کی کارروائی کے بعد یہی سوالات اٹھائے گئے تھے۔2014 کے بعد سے یوکرینی عوام میں اس سوال نے جنم لیا ہے کہ ان کے ملک نے جوہری اسلحے کی تخفیف کرکے عالمی امن کے لیے بڑا اقدام کیا تاہم اس کے جواب میں ہمیں کیا مل رہا ہے۔

طالبان اورصدر بیلاروس کا پیوٹن کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان
روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی بڑھنے اور مغربی ممالک کی جانب سے تحریک آمیز بیانات دیے جانے کے ساتھ بیلاروس کے صدر نے اس کشیدگی کے بارے میں واضح طور پر اپنے موقف کا اعلان کر دیا۔بیلاروس کے صدر کا کہنا ہے کہ اگر مغرب نے روس پر حملہ کیا تو ہم بھی میدان جنگ میں کود پڑیں گے۔بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشنکو نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ اگر مغرب نے روس پرحملہ کیا تو مینسک جنگ کے میدان میں کود پڑے گا۔روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی بڑھنے اور مغربی ممالک کی جانب سے تحریک آمیز بیانات دیئے جانے کے ساتھ بیلاروس کے صدر نے اس کشیدگی کے بارے واضح طور پر اپنے موقف کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے ٹیلی ویژن سے اپنے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ان کا ملک، امریکا اور مغربی ممالک کے کسی بھی فوجی اقدام کے وقت روس کا پوری طرح سے ساتھ دے گا۔
ہیل ویب سائٹ نے رپورٹ دی ہے کہ بیلاروس کے صدر نے جمعہ کے روز اپنے ٹی وی انٹرویو میں روس کے ساتھ بیلاروس کے بہترین تعلقات کے بارے میں بیان کرتے ہوئے ماسکو کو اپنا اتحادی اور دوست ملک قرار دیا اور یوکرین کے بارے میں روس کے ساتھ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی کشیدگی پر روشنی ڈالی۔بیلاروس کے صدر نے اپنے اس خطاب میں روس کے ساتھ اپنے ملک کے بہترین تعلقات اور دونوں ممالک کے درمیان اتحاد کی تعریف کرتے ہوئے عوام سے کہا کہ اگر مغربی ممالک جنگ ہو جائے گی اور مینسک اور ماسکو ایک دوسرے کی حمایت میں جنگ کے میدان میں اتر پڑیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے ملک کو جارحیت کا سامنا ہوا تو یہاں پر لاکھوں روسی فوجی موجود ہوں گے اور بیلاروس کے لاکھوں فوجی اپنے دوست فوجیوں اپنی پاک سرزمین کی حفاظت کریں گے۔یوکرین کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھنے والے بیلاروس کے صدر نے کہا کہ وہ ہمسایہ ملک سے جنگ نہیں چاہتے، ان کا کہنا تھا کہ خدا نہ کرے میں یوکرین سے جنگ کروں۔یہ حقیقت ہے کہ ولادی میر پیوٹن یعنی روس کی حمایت یافتہ حکومت کا 2014 ء میں تختہ الٹنے کے بعد سے یوکرین امریکہ کے قریب ہوا ہے، مبصرین یوکرین کے نیٹو اور امریکا سے بڑھتے ہوئے تعاون کو بھی روس کے حالیہ اقدامات کا سبب قرار دیتے ہیں۔ادھر روس کے صدر پیوٹن پہلی بار طالبان کے ساتھ معاہدہ کر چکے ہیں کہ جنگ اور امن میں وہ ہمارے دوست ہوں گے۔یقینا امریکہ کیلئے یہ ایک بہت بڑا دھچکا ہوگا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں