دہشت گردوں کو بلا امتیاز کیفر کردار تک پہنچایا جائے!
شیئر کریں
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور اور قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں گزشتہ روز شدت پسندی کے دو واقعات میں 3 اہلکاروں سمیت کم از کم 6 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ۔ حکام کے مطابق ان دونوں واقعات میں خودکش حملہ آوروں نے ایک سرکاری گاڑی اور ایجنسی ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا۔پشاور میں خودکش حملہ بدھ کی دوپہر حیات آباد کے علاقے میں ہوا جہاں ججوں کو لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔اس سے قبل بدھ کی صبح غلنئی میں ایجنسی ہیڈکوارٹر کے مرکزی گیٹ پر بھی خودکش حملہ ہوا۔پشاور پولیس کے ایس ایس پی سجاد خان کے مطابق حیات آباد میں موٹرسائیکل پر سوار خودکش حملہ آور نے سرکاری ویگن کو نشانہ بنایا۔اس حملے میں ویگن کا ڈرائیور ہلاک اور 3 خواتین سمیت 4 افراد زخمی ہوئے جنھیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے مطابق غلنئی میں ہونے والے خودکش حملے میں تین خاصہ داروں سمیت 5افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ جبکہ سیکورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک خودکش حملہ آور کے ہلاک ہونے کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔
پاک فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکورٹی اداروں کو افغانستان سے مہمند ایجنسی میں خود کش حملہ آوروں کے داخل ہونے کی اطلاع تھی۔ملک کے مختلف صوبوں میں یکے بعد دیگرے دہشت گردی کی یہ وارداتیں بلاشبہ وفاقی وزیر داخلہ اور ہماری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔ سب سے بڑا المیہ ہے کہ دہشت گردوں کی موجودگی اور دہشت گردی کے واقعات کے امکانات کی پیشگی اطلاعات کے باوجود ہماری وزارت داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ملزمان کو گرفتار کرنے اور عوام کو ان کی ہلاکت خیزی سے محفوظ رکھنے کے لیے کچھ نہیں کرسکے ،اس صورتحال سے یہ واضح ہوتاہے کہ ہماری وزارت داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے بعض اداروں میں دہشت گردوں کے ہمدرد موجود ہیں اور وہ اتنے بااثر ہیں کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے ادا روں کی جانب سے خطرے کی پیشگی اطلاع دئے جانے کے باوجود اچھے اوربرے طالبان کی آڑ میں ان دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور اس طرح دہشت گردوں کو معصوم اور بے گناہ شہریوں کو خون میں نہلانے کا موقع مل جاتاہے۔اس سے یہ بھی ظاہرہوتاہے کہ حکومت کی ‘ اچھے اور برے’ طالبان کی پالیسی بدستور موجود ہے اور دہشت گردی کی پے درپے وارداتوں سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جب تک یہ تقسیم رہے گی ملک میں مکمل امن قائم نہیں ہو سکتا۔
پاکستان میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات میں جنوری میں 61 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ فروری میں بھی اب تک مجموعی طورپر 26 سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ گزشتہ برس کے تقریباً 150 افراد کی ہر ماہ ہونے والی ہلاکتوں پر غور کیاجائے تو اس سے یہ اعدادو شماربہتر ہیں لیکن تشویش کا باعث پھر بھی ہیں۔پاکستان کی پچھلے 15 سالہ پرتشدد تاریخ میں اس طرز کے رجحانات پہلے بھی دیکھے گئے ہیں لیکن اس مرتبہ ان کی اہمیت حکومت کی جانب سے ضرب عضب کے نتیجے میں بہتری کے دعوے کرنے والے حکام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔امریکی انٹیلی جنس بہت پہلے یہ دعویٰ کرچکی ہے کہ اس خطے میں 20 شدت پسند گروپ آج بھی سرگرم ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتاہے کہ پاکستان میں شروع ہونے والی ان خونریز وارداتوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار پیش پیش ہیں۔ لشکر جھنگوی العالمی اور القاعدہ بھی اکا دکا واقعات کی ذمہ داری لے رہی ہیں لیکن میڈیا سے مسلسل رابطے میں پہلی دو تنظیمیں ہی ہیں۔کراچی میںگزشتہ روز ایک نجی ٹی وی کے صحافی کیمرہ مین کی ہلاکت کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے جبکہ لاہور کے دل ہلا دینے والی واقعے کی ذمہ داری جماعت الاحرار اپنے سر لے چکی ہیں۔ اس تنظیم کے تمام اہم کار پرداز افغانستان میں موجود ہیں اور وہیں بیٹھ کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرا رہے ہیں،پاکستان کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کے یکے بعد دیگرے ان واقعات سے یہ شبہہ بھی پیداہوتا ہے کہ ان دھماکوں کی پشت پر صرف جماعت الاحرار طرز کی تنظیمیں ہی کار فرما نہیں ہیں بلکہ ان وارداتوں کے لیے ان تنظیموں کو کسی اور جانب سے مدد اور معاونت فراہم کی جارہی ہے ، پاکستان میں ہونے والی حالیہ کارروائیوں سے بظاہر لگتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر ‘پراکسی جنگ’ پورے خطے میں تیز ہوتی جا رہی ہے۔
اس صورت حال میں یہ ضروری تھا کہ ہماری وزارت داخلہ اپنی ذمہ داریاں احسن طورپر پوری کرنے پر توجہ دیتی اور کم از کم نیشنل ایکشن پلان جس پر پوری قوم اور تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں پر پوری طرح عمل کیاجاتا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ مختلف حلقوں کی جانب سے ایک سے زیادہ مرتبہ اس طرح توجہ دلائے جانے کے باوجود نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہ درست ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عملدرآمد میں حکومت کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں جس میں مدرسوں میں اصلاحات قابل ذکر ہے جب کہ فاٹا میں اصلاحات پر بھی پوری طرح عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔
صورتحال کی سنگینی کاتقاضا ہے کہ ہماری وزارت داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اچھے اور برے طالبان کے چکر سے باہر نکلیں اور دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے حوالے سے پاک فوج کے سربراہ کی جانب سے ظاہر کیے جانے والے عزم کو کامیاب بنانے کے لیے کسی امتیاز کے بغیر ہر طرح کی دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف سخت کارروائی کرکے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو نشانِ عبرت بنادیں۔جب تک ایسا نہیں کیاجائے گا، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاک فوج کی قربانیاں رائیگاں جاتی رہیں گی اور دہشت گرد کسی نہ کسی صورت اپنے وجود کااحساس دلاکر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کامنہ چڑاتے رہیں گے۔