میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اردوگان کی محنت رنگ لائی.... روس اور ترکی، شام میں مکمل جنگ بندی پر متفق

اردوگان کی محنت رنگ لائی.... روس اور ترکی، شام میں مکمل جنگ بندی پر متفق

منتظم
بدھ, ۲۸ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

نئے منصوبے کا مقصد حلب ہونے والی جنگ بندی کو ترکی اور روس کی ثالثی میں ملک بھر کی سطح پر پھیلانا ہے
بشار الاسد کی موجودگی میں یہ منتقلی ممکن نہیں اور شامی اپوزیشن بھی اس کو قبول نہیں کرے گی،ترک وزیر خارجہ
ترکی اور روس نے شام میں مکمل جنگ بندی کے منصوبے پر اتفاق کرلیا جس کے تحت ملک بھر میں بدھ کی شب 12 بجے سے عمل درآمد شروع ہوگیا ہے۔ ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اناطولو نے بتایا کہ سیز فائر کے اس نئے منصوبے کا مقصد رواں ماہ شام کے شہر حلب میں ترکی اور روس کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کو ملک بھر میں پھیلانا ہے۔
اناطولو کے مطابق ماضی میں امریکا اور روس کے تعاون سے ہونے والی جنگ بندیوں کی طرح اس بار بھی دہشت گرد گروپس اس منصوبے میں شامل نہیں ہیں۔سیز فائر کا یہ منصوبہ حلب میں شامی فوج کے کنٹرول کے چھ روز بعد سامنے آیا ہے اور اب تک روس اور ترکی کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے تحت حلب سے ہزاروں عام شہریوں اور مزاحمت کاروں کو نکالا جاچکا ہے۔
اناطولو کے مطابق اگر سیز فائر کا یہ نیا منصوبہ کامیاب رہا تو اس سے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شامی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان روس اور ترکی کی نگرانی میں ہونے والے مذاکرات کے لیے ٹھوس بنیاد میسر آئے گی۔یہ بات واضح نہیں کہ کیسے اور کہاں اس منصوبے پر اتفاق ہوا تاہم گزشتہ ہفتوں کے دوران انقرہ میں ترکی، روس اور شامی اپوزیشن کے نمائندگان کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ شام کی خانہ جنگی میں ترکی اور روس ایک دوسرے کے مخالف ہیں، ترکی شام کے صدر بشارالاسد کے اقتدار کا خاتمہ چاہتا ہے جبکہ روس اور ایران بشار الاسد کے حمایتی ہیں۔تاہم گزشتہ چند ماہ سے روس اور ترکی نے شام کے معاملے پر تعاون کو بڑھایا ہے اور رواں سال دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں آنے والی بہتری کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا۔گزشتہ ہفتے روس کے حمایت یافتہ بشار الاسد کی افواج نے حلب کا کنٹرول سنبھال لیا تھا جو 5 سالہ خانہ جنگی میں شامی فوج کی سب سے بڑی کامیابی تھی تاہم ترکی اس معاملے پر مکمل طور پر خاموش رہا تھا۔یاد رہے کہ رواں برس ستمبر میں بھی امریکا اور روس نے شام میں جنگ بندی کا اعلان کیا تھا تاہم ایک ہفتے بعد ہی شامی فوج نے عسکریت پسندوں پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے روس اور امریکا کے تحت ہونے والے جنگ بندی معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا اور اس کے بعد ملک کے دوسرے بڑے اور اہم شہر حلب میں شدید بمباری کی گئی تھی۔
شام میں تقریباً 6 سال سے جاری خانہ جنگی میں 4 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، اس دوران شام میں جنگ بندی کے کئی معاہدے ہوئے لیکن کوئی بھی دیر پا ثابت نہ ہوسکا۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکا شام میں معتدل باغیوں کی حمایت کرتا ہے جبکہ بشارالاسد کی حکومت، داعش اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی مخالفت کرتا ہے۔امریکا کی سربراہی میں ایک عالمی اتحاد قائم ہے جو عراق اور شام میں داعش اور دیگر دہشت گرد گروپس کو نشانہ بناتا ہے۔
روس شامی صدر بشار الاسد کی حمایت کرتا ہے جبکہ داعش کی مخالفت کرتا ہے البتہ روس کے زیادہ تر فضائی حملے ان باغیوں کے ٹھکانوں پر ہوئے جو بشار الاسد کی اقتدار کا خاتمہ چاہتے ہیں۔روس شام میں موجود القاعدہ سے وابستہ تنظیم اور معتدل باغیوں کی بھی مخالفت کرتا ہے جنہیں امریکا کی خفیہ مسلح امداد حاصل ہے۔
ترکی شام میں امریکا کی سربراہی میں بننے والے عالمی اتحاد اور شامی باغیوں کی حمایت کرتا ہے۔اس کے علاوہ ترکی شامی صدر بشارالاسد کی حکومت، ترکی میں سرگرم باغی گروپ پی کے کے سے وابستہ کرد گروپس اور داعش کے خلاف ہے۔شام کے معاملے میں ایران بشارلاسد اور ان کی حکومت کی حمایت کرتا ہے جبکہ وہ داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ہے۔اس کے علاوہ برطانیہ اور فرانس بھی شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف ہیں، یعنی اس سارے معاملے میں روس اور ایران شامی صدر کے سب سے بڑے اتحادی ہیں۔
ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ان کا ملک مکمل فائر بندی اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی اقتدار کی منتقلی کا خواہش مند ہے تاہم بشار الاسد کی موجودگی میں یہ منتقلی ممکن نہیں اور شامی اپوزیشن بھی اس کو قبول نہیں کرے گی۔انقرہ نے شام میں فائربندی اور سیاسی حل کے لیے ماسکو کے ساتھ دو معاہدوں تک پہنچ جانے کی تصدیق کی ہے۔ادھر روسی ایوانِ صدر کرملن نے کہا ہے کہ شام میں فائر بندی کے حوالے سے روس اور ترکی کی تجویز کے سلسلے میں اس کے پاس مطلوبہ معلومات نہیں ہیں لہذا وہ اس پر تبصرہ نہیں کر سکتا۔دوسری جانب شامی اپوزیشن نے اعلان کیا ہے کہ شام کے تنازع میں با اثر طاقتوں کی سرپرستی میں جو اگر سنجیدہ نوعیت کے مذاکرات ہوں تو وہ ان میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔ترک میڈیا نے بتایا ہے کہ شام میں فائربندی کی شرائط پر روس اور ترکی کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔روس ، ایران اور ترکی نے گزشتہ ہفتے ماسکو میں بات چیت کے بعد امن معاہدے کے سلسلے میں ثالثی کے طور پر اپنی خدمات پیش کرنے کا اظہار کیا تھا۔ تینوں ملکوں نے چند بنیادی اصول متعین کیے تھے جن کو طے پائے جانے والے کسی بھی معاہدے کا حصہ بنانا ضروری ہے۔انقرہ اور ماسکو شامی تنازع میں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں کھڑے ہیں۔شام کے حوالے سے ترکی اور روس کئی ماہ سے تعاون میں مصروف ہیں بالخصوص ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کے بعد.. گزشتہ برس ترکی کی جانب سے روسی جنگی طیارہ گرائے جانے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سنگین بحران کا شکار ہو گئے تھے۔تاہم تعلقات بحال ہونے کے بعد روسی سفیر کے ترکی میں قتل سے بھی ان تعلقات میں کمی نہیں آئی بلکہ دونوں ممالک کاموقف یہ ہے کہ سفیر کے قتل کی سازش امریکا میں تیار ہوئی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں