بے رحم احتساب ہی اس ملک کو بچا سکتا ہے
شیئر کریں
سپریم کورٹ میں شریف خاندان کے مالی معاملات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ پر تیسری سماعت کے دوران گزشتہ روز، وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرلیے، جس کے بعد وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے وکیل نے دلائل کا آغاز کیا۔پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران عدالتی بینچ نے ریمارکس دیئے کہ منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں دیا گیا، فنڈز کہاں سے اور کیسے منتقل کیے گئے، بنیادی سوال کا جواب مل جائے تو بات ختم ہو جائے گی۔سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس تھے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد نمبر 4 میں کافی خطرناک دستاویزات موجود ہیں، ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کے بچوں حسن، حسین اور مریم نواز سے ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ پر تیسری سماعت کے دوران معزز جج صاحبان کے ریمارکس سے ظاہرہوتاہے کہ معاملات اتنے صاف ستھرے اور سادہ نہیں ہیں جتنا وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے وزرا او ر مشیر ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور نواز شریف اور شہباز شریف کے یہ دعوے مکمل طورپر درست نہیں ہیں کہ وہ مسٹر کلین ہیں اور ان کے دامن پر کوئی داغ نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ پیپرز کی تفتیش کیلئے جے آئی ٹی کی تشکیل اور خاص طورپر جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کئے جانے کے بعد سے ملک میں حالات ہر روز گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہے ہیں ،جے آئی ٹی رپورٹ کی جوباتیں اب تک منظر عام پر آئی ہیں ان سے ظاہر ہوتاہے کہ عوام کامینڈیٹ حاصل ہونے کادعویٰ کرنے والے ہمارے حکمرانوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد عوامی فلاح کے بجائے اپنی فلاح کو ترجیح دی ، اس کا نکشاف کسی مخالف جماعت کی جانب سے نہیںکیاگیا بلکہ بیرون ملک کی جانے والی تحقیقات میں ہوا جس میں دنیا بھر کے تحقیقی اخبار نویس شامل تھے جنہوں نے دنیا بھر میں بااثر لوگوں کی جائیدادوں کا سراغ لگایا اور اس کو عوام کیلئے جاری کر دیا کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ جن سیاستدانوں کو وہ اپنا حکمران منتخب کرتے ہیں وہ اپنے اقتدار کو اپنی ترقی کیلئے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔اس سے ہمارے ملک کے عوام کو بھی یہ معلوم ہوگیا کہ ہمارا حکمران طبقہ بھی ملک کی غربت کا رونا رونے کے ساتھ اس غریب ملک کے وسائل کو اپنی ذاتی ترقی کیلئے استعمال کررہا ہے۔
وزیر اعظم نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب میں کہا کہ وہ اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے آخری دم تک لڑیں گے۔ وزیر اعظم کا کہنا اور اس طرح کی سوچ رکھنا بالکل بجا ہے کہ ان کو یہ تیسرا اقتدار جلا وطنی کے بعد ملا ہے اور ان کی یہ کوشش ہے کہ اس اقتدار کے دن پورے کیے جائیں اور جو وعدے انھوں نے کیے تھے ان کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے تا کہ آیندہ الیکشن میں اپنی پارٹی کے دوبارہ اقتدار کے لیے ان کی راہ ہموار ہو جائے۔جبکہ پاناما کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد عمومی رائے یہ بن چکی ہے کہ اس تحقیقات میں چونکہ نواز شریف اور ان کے خاندان کو مورد الزام ٹھہرادیا گیا ہے اس لیے ان کی نااہلی تو لازمی ہے اور اب بحث نواز شریف کی حکومت ختم ہونے کے بعد کی چل رہی ہے کہ کیا وزیر اعظم اسمبلیاں ختم کر کے الیکشن میں چلے جائیں گے یا پھر اقتدار کا ہما اپنی پارٹی میں سے ہی کسی کے سر پر بٹھا دیں گے جو کہ بظاہر مشکل بلکہ انتہائی ناممکن لگتا ہے کہ اقتدار میں شراکت مشکل سے ہی برداشت ہوتی ہے۔
نواز شریف کے انداز سے معلوم ہوتاہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں گے اور اپنی بھر پور کوشش کریں گے کہ وہ اپنے اور اپنے خاندان پر لگائے گئے الزمات کے دفاع میں کامیاب ہو سکیں کیونکہ اس سے آزمائش سے سرخرو ہونے کے بعد ہی وہ اور ان کا خاندان اس ملک میںمزیدسیاست کر سکتا ہے کیونکہ اب پاکستانی عوام اس قدر باشعور ہو چکے ہیں کہ ان کو ہمارے سیاستدان مزید بے وقوف نہیں بنا سکتے ہاں عوام کے لیے فلاحی کام کر کے عوام کو اپنا بنایا جا سکتا ہے۔
نوازلیگ نے پاناما کے کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا کیونکہ ان کاخیال تھا کہ پاکستانی عوام ایک بڑی جلدی بھولنے والی قوم ہے اور یہ اس پاناما کو بھی بھول جائے گی، اس بات کا اظہار ہمارے وزیر اعظم کے انتہائی قریبی معتمد اور وفاقی وزیر خواجہ آصف نے اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران بھی کیا تھا لیکن پاناما تحقیقات کے بعد اس کیس کا پیچھاعمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید نے کیا اور انھوں نے بطور مدعی ایک سال تک سپریم کورٹ کی پیشیاں بھگتیںاور ڈٹے رہے۔ اس سے ظاہرہوتاہے کہ یہ تینوں مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، انھوں نے اس کیس کی پیروی دلجمعی سے کی اور اب اس امید پر ہیںکہ وہ اس ملک میں احتساب کا عمل نواز شریف اور ان کے خاندان کی ناا ہلی سے شروع کرائیں گے بلکہ عمران خان نے تو اس حد تک بھی کہہ دیا ہے کہ اگر نواز شریف کے ساتھ مجھے بھی نا اہل کیا گیا تو میں اس قربانی کے لیے بھی تیار ہوں۔
حا لات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس حوالے سے ابھی کچھ بھی کہنا یا کسی بھی قسم کا دعویٰ کرنا قبل از وقت ہو گا لیکن ایک بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو ان کی نااہلی سے اس ملک میں سیاست کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گااور یہ نااہلی ملک میں احتساب کے عمل کا نقطہ آغاز ہو گی کیونکہ اس کے بعد بے لاگ احتساب کا نعرہ لگے گا جس کی زد میں کوئی اور نہیں ہماری اشرافیہ آئے گی اور کوئی اس سے بچ نہیں پائے گا جو اس ملک کی تقدیر بدلنے کی جانب عملی قدم کا آغاز بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بے رحم احتساب ہی اس ملک کو بچا سکتا ہے اور یہ احتساب بلا تفریق سب کا ہونا چاہیے جو سب کو نظر بھی آنا چاہیے نا کہ صرف مخصوص لوگوں کو سیاسی احتساب کا نشانہ بنایا جائے۔