میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پیٹرولیم پرمحدود رعایت کی دھوکے بازی اور آئی ایم ایف!

پیٹرولیم پرمحدود رعایت کی دھوکے بازی اور آئی ایم ایف!

جرات ڈیسک
جمعرات, ۲۳ مارچ ۲۰۲۳

شیئر کریں

وزیر اعظم شہباز شریف کی جا نب سے ابھی پیٹرولیم پر محدود رعایت دینے کے اعلان کا طریقہ کار بھی سامنے نہ آیا تھا کہ آئی ایم ایف نے اس پر اپنے تحفظات ظاہر کردیے۔ وزیراعظم کے اعلان کے بعد وزیرمملکت پٹرولیم مصدق ملک نے کہا ہے کہ موٹر سائیکل والوں کیلئے پیٹرول پر 100 روپے سبسڈی دی جائے گی، موٹر سائیکل مالکان کو 21 لیٹر تک ماہانہ سبسڈی دی جائے گی، یومیہ2سے 3 لیٹر دیا جائے گا، 800 سی سی سے کم گاڑی پر 30 لیٹر اور اس سے اوپر کے مالکان کو ماہانہ ایک ٹینک بھرانے کی اجازت ہوگی، سبسڈائز پیٹرول یومیہ2 سے 3 لیٹر فراہم کیا جائے گا،موٹر سائیکل مالک خود کوشش کرے گا کہ 21 لیٹر سے زیادہ ماہانہ خرچ نہ کروں، 800سی سی سے کم گاڑی پر ماہانہ 30لیٹرپیٹرول پر سبسڈی دی جائے گی، 800سی سی گاڑی مالکان کوا یک ٹینک بھروانے پر سبسڈی ملے گی، گاڑی والے کو ایک تہائی پیٹرول پر موٹر سائیکل والے کو100فیصد پیٹرول پر سہولت ملے گی،سبسڈائز پیٹرول کیلئے گاڑی چلانے والے کے نام پر ہونی چاہئے، اس پالیسی سے گاڑی اپنے نام پر کرانے میں بھی اضافہ ہوگا، ہم چاہتے ہیں لوگ بڑی گاڑیاں چھوڑ کر چھوٹی گاڑیوں پر آئے، اس سے پیٹرول کی بھی بچت ہوگی۔ موٹر سائیکل اورچھوٹی گاڑیوں کے مالکان کو پیڑول پر محدود سبسڈی دینے کے حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وزیرمملکت پٹرولیم مصدق ملک کے اعلانات کا مقصد بظاہر یہی لگتا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کو پیڑول ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ملک میں آنے والے مہنگائی کے طوفان پر شدید تشویش ہے اور وہ ملک کو درپیش شدید معاشی مشکلات کے باوجود غریب عوام کی مدد کرنے کی نیت سے تمام ممکنہ اقدامات کر ر ہے ہیں،لیکن حکومت کے اس اعلان کا توجہ سے جائزہ لیاجائے تو واضح ہوجاتاہے کہ یہ اعلان پبلسٹی اسٹنٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ اس اعلان کے عملی جامہ پہننے سے متعلق موجود مشکلات اپنی جگہ ہے مگر دوسری طرف یہ بھی یقینی نہیں کہ آئی ایم ایف اس اعلان پر عمل درآمد کرنے بھی دے گا یا نہیں۔ اس غیر یقینی صورت حال کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ یہ منصوبہ عملاً ناقابل عمل بھی ہے۔ کیونکہ وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ایک جانب اعلان کررہے ہیں کہ موٹر سائیکل مالکان کو روزانہ 2-3 لیٹر پیٹرول سبسڈی پر یعنی کم قیمت پر دیاجائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ 3 لیٹر کی شرح سے 90 لیٹر ماہانہ میں دوتہائی حد تک کمی کرکے اس سبسڈی کو صرف21 لٹر ماہانہ تک محدود کرنے کااعلان بھی کررہے ہیں،کیا وزیر مملکت عوام کے معاملات اور زمینی حقائق سے اتنے ہی ناواقف اور لاعلم ہیں کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اب شہر اس قدر وسعت اختیار کرچکے ہیں کہ موٹر سائیکل پر شہر کے وسط سے دوسرے کنارے پر آنے جانے پر بھی 2 لیٹر سے زیادہ پیٹرول خرچ ہوجاتاہے یعنی اگر کوئی شخص صرف ملازمت پر آنے جانے کیلئے ہی موٹرسائیکل استعمال کرے تو بھی اسے ماہانہ 60 لیٹر سے زیادہ پیٹرول کی ضرورت ہوتی ہے۔اس اعلان کا مقصد صرف سستی شہرت حاصل کرنا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتاہے کہ حکومت نے ابھی تک یہ سبسڈی دینے کا تفصیلی طریقہ کار بھی طے نہیں کیا ہے جس کا اعتراف خود وزیر اعظم نے یہ کہہ کر کیاہے کہ انہوں نے ہدایت کی ہے کہ پیٹرولیم ریلیف کے اس پیکیج کا طریقہ کارطے کر کے جلد اس پر عملدرآمد شروع کر دیا جائے،اگر وزیراعظم غریب عوام کی مشکلات پر اتنے ہی پریشان ہوتے تو وہ تمام طریقہ کار طے کرکے سبسڈی کے اعلان کے ساتھ اس کا طریقہ کار بھی بتادیتے۔ وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ تمام متعلقہ ادارے باہمی تعاون سے سبسڈی پر موثر عملدرآمد کیلئے جامع حکمت عملی تیار کریں۔
آئی ایم ایف پروگرام کے حصول کیلئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جو غیر معمولی اضافہ کیا گیا ہے اس کے پس نظر میں وزیر اعظم نے یہ اعلان کرکے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ انھوں نے عوام کو سہولت دینے کیلئے آئی ایم ایف کی جانب سے پیٹرول پر سبسڈی کے خاتمے کی شرط کا توڑ نکال لیاہے،وزیراعظم کے اس اعلان پران کی مدح سرائی کرنے والے چینلز اور اخبارات یقینا تعریفوں کے ڈونگرے برسائیں گے،لیکن یہ بات عام آدمی بھی سمجھتاہے کہ آئی ایم ایف کے ارباب اختیار نہ تو اتنے بھولے ہیں اور نہ ہی اتنے بے خبر کہ یہ معلوم نہ ہوسکے کہ ان کی شرائط کو پامال کرنے کے کیا طریقے اختیار کیے جارہے ہیں،اور اگر وزیر اعظم کے اس اعلان سے آئی ایم ایف کو اپنی شرائط کی معمولی سی خلاف ورزی کا اندیشہ ہوا تو وہ امدادی رقم کی وہ قسط فوری روک دے گا جس کے انتظار میں ہماری پوری کابینہ ایک ایک لمحہ گن گن کر گزاررہی ہے،وزیر اعظم کی جانب سے عوام کیلئے اعلان کردہ اس مصنوعی ریلیف پر خرچ کا تخمینہ ایک کھرب 20ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اب سبسڈی کا میکنزم مرتب کیا جائے گا۔صارفین کو اس رعایت کے حصول کیلئے رجسٹریشن کرانا ہو گی جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ہوگی۔ پیٹرولیم ریلیف پیکیج جہاں ایک اچھا اقدام ہے، وہاں اس پر عملدرآمد میں بہت سی مشکلات کا بھی سامنا کرنا ہو گا۔ کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ کی رقم لوگوں سے زبردستی کاٹی جانے والی زکوٰۃ سے حاصل ہوتی ہے اور ہمارے ملک میں غریبوں کی ایک بڑی تعداد عسرت میں زندگی گزارنے کے باوجود زکوٰۃ کی رقم سے کوئی ریلیف لینا پسند نہیں کرے گی،جبکہ دوسری جانب مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بعض عملی پیچیدگیوں اور پیٹرولیم ڈیلرز کے منفی رویے کی وجہ سے اس پیکیج کی کامیابی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ملک کی آئل انڈسٹری زرمبادلہ کی صورت حال اور روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر کے باعث خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی کے حوالے سے پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے ایک بڑا عنصر اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ بھی ہے جس سے آئل کمپنیاں متاثر ہوئی ہیں۔ وہ حکومت پر زور دے رہی ہیں کہ بینک ان کیلئے قرضوں کی حد میں بہتری لائیں تاکہ وہ پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی سے پیدا ہونے والی صورتحال کا مقابلہ کر سکیں۔ ایک غور طلب معاملہ یہ بھی ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کا ضروریات زندگی کی ہر چیز کے نرخوں پر اثر پڑا ہے۔ اس وقت ملک میں مہنگائی کی بلند ترین سطح اسی کا نتیجہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ موٹر سائیکل رکشا اور چھوٹی گاڑیوں کیلئے پیٹرول کے فی لیٹر نرخ میں 50روپے کی کمی سے زندگی کی بنیادی اشیا کی قیمتوں کے حوالے سے عام آدمی کو کتنا ریلیف ملے گا؟ مہنگائی سے متاثر ہونے والے لوگوں کی بڑی تعداد تو گرانی کی چکی میں پستی رہے گی۔ اس لئے حکومت نے جو قدم اٹھایا ہے اس کی افادیت سے ایک بڑا طبقہ محروم رہے گا۔ اس کیلئے حکومت کو کچھ مزید اقدامات اٹھانا ہوں گے تاکہ ان کو بھی فائدہ پہنچے جو چھوٹی گاڑیاں رکشوں اور موٹر سائیکل کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔اگر یہ تسلیم کربھی لیاجائے کہ حکومت کو درپیش صورتحال کا پوری طرح ادراک ہے اور وہ غریبوں کے دکھ درد بانٹ رہی ہے مگرپیٹرول پر مخصوص اور محدود مقدار میں سبسڈی کی فراہمی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا،اس کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت موجود ہے جس پر غور کرنا چاہئے۔ غریب عوام کو سبسڈی دینے کے اعلان کے بعد وزیراعظم براہ راست سابق وزیراعظم عمران خان پر برس پڑے۔ حالانکہ اجلاس غریب اور کم آمدنی والے صارفین کے لیے پیٹرولیم ریلیف پیکیج کے حوالے سے تھا لیکن اس اجلاس میں بھی انہوں نے وہی طریقہ اختیار کیا جو سابق وزیراعظم نے چار سال تک اختیار کیے رکھا۔ اب پی ڈی ایم حکومت کو بھی تقریباً 11 ماہ ہونے کو ہیں۔ انہیں اب سابق حکومت کے کارناموں پر بات کرنے کے بجائے اپنے کاموں کی بات کرنی چاہیے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جو اجلاس کیا ہے اس میں ان کے معاشی ٹائیگر اسحق ڈار، مصدق ملک، سیکریٹری خزانہ، ان کے مشیر احمد چیمہ، طارق باجوہ اور دیگر شریک ہوئے۔ عوام تک تو اتنی خبر پہنچائی گئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ حکومت کے نزدیک کم آمدنی والوں کی زیادہ سے زیادہ آمدنی کی کیا حد ہے۔ کتنی آمدنی والوں کو وہ کم آمدنی والا سمجھتے ہیں۔ گاڑی کے سائز اور موٹر سائیکل کے ذریعے لوگوں کی غربت ناپنے والے یہ ماہرین صرف اتنا بتادیں کہ کیا ان کے پاس اس امر کے اعداد و شمار ہیں کہ ملک میں کتنے افراد موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں اور کتنے 8 سو سی سی تک کی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ پھر ان لوگوں تک سبسڈی پہنچانے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ مشکل تو یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ ہر کام میں چور دروازہ تلاش کرلیتا ہے بلکہ پہلے چور دروازہ بنایا جاتا ہے پھر منصوبہ،جس طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بنانے والوں نے اس پر عمل سے قبل چور دروازہ بنالیا تھا، اپنے ہاریوں کے شناختی کارڈ ہتھیالیے ان پر سپورٹ پروگرام کی رقم بھجوائی جاتی اور خود وصول کرلی جاتی تھی۔ ہزاروں سرکاری افسروں پر بے نظیر انکم کی رقم ہتھیالنے کا الزام ہے لیکن ملک کے غریب اور کم مایہ لوگوں کے نام پر سرکاری رقوم بٹورتے پکڑے جانے کے باوجود یہ تمام افسر نہ صرف بدستور اپنے عہدوں پر فائز ہیں ان کے خلاف کسی ایسی کارروائی کی خبر سامنے نہیں آسکی جس سے دوسروں کو عبرت ہوتی بلکہ اطلاعات کے مطابق ان میں سے بعض افسران غریبوں کی رقم ڈکارنے کی صلاحیت کی بنیاد پر اپنے عہدوں پر ترقی بھی حاصل کرچکے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق بے نظیر انکم سپورٹ کی کم و بیش 32فیصد رقم اب بھی ہڑپ کر لی جاتی ہے اب اگر پیٹرول سبسڈی کے لیے کوئی کارڈ جاری کیا گیا تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تمام کارڈز حقدار موٹر سائیکل سواروں اور چھوٹی گاڑیوں کے مالکان کو ملیں گے اور بڑے افسر اور حکمران طبقہ اپنے ملازمین کو گاڑیاں دے کر ان میں سستا پیٹرول ڈلواکر یہ سبسڈی بھی ہڑپ نہیں کرجائے گا۔ اس سبسڈی کی فراہمی کے لیے میکنزم بنانے اور مختلف طریقے اختیار کرنے پر خرچ کے بجائے پیٹرول ہی سستا کردیا جائے تو کیا ہرج ہے۔ یہ حکمران اپنی بڑی بڑی گاڑیوں میں سرکاری پیٹرول بھی ڈلوالیتے ہیں اور طرح طرح کے بہانوں سے دیگر سہولتیں بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ عوام کے نام پر لوٹ مار کا نیا نظام وضع کرنے کی محنت کرنے کے بجائے یہ ہمت کرکے پیٹرول پر 100 روپے فی لیٹر کی سبسڈی کا اعلان کریں۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جن رکشہ والوں کو سستا پیٹرول دیا جائے گا وہ اپنی سواریوں سے کرایہ کم وصول کریں گے۔ ہمارے حکمران عوام کو سہولت دینے کے لیے اچھی ٹرانسپورٹ تو مہیا نہیں کرتے انہیں رکشوں اور ویگنوں میں دھکے کھانے پر مجبور کرتے ہیں اور ویگنوں کی بڑی تعداد بھی پولیس اور دیگر سرکاری افسروں کی یا ان کے رشتے داروں کی ہوتی ہے اور جو نہیں ہوتی انہیں ان تمام لوگوں تک حصہ پہنچانا ہوتا ہے تو عوام کو کیا ریلیف ملے گا۔ لہٰذا حکمران شہرت اور ہمدردی حاصل کرنے والے اعلانات کے بجائے حقیقی ریلیف کے اقدامات کریں۔ یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ عوام عوام کی رٹ لگانے والے سارے ہی حکمرانوں کی سواریاں عالیشان اور بڑی بڑی ہوتی ہیں جبکہ عوام اور کم آمدنی والوں کی گاڑیوں کے لیے انہوں نے ازخود چھوٹی گاڑی، موٹر سائیکل اور رکشہ کا پیمانہ مقرر کرلیا ہے۔ یہاں لوگ عوامی سواریوں میں خود سفر نہیں کرسکتے، عوام کو ایسا ٹرانسپورٹ نظام دیں کہ جب انہیں خود بھی سفر کرنا ہو تو عوام کے درمیان سفر کرسکیں۔ عمران خان، نواز شریف، شہباز شریف، بلاول، آصف زرداری ان کی پارٹیوں کے دانشور قوم کو امریکہ یورپ اور دنیا بھر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہاں ایسا ایسا ہوتا ہے وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ان کے حکمران عوام کے درمیان رہتے ہیں عام گاڑیاں استعمال کرتے ہیں عام پروازوں سے سفر کرتے ہیں، حکمران بڑے چھوٹے کا فرق ختم کردیں، کسی سبسڈی کی ضرورت نہیں رہے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں