میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مسئلہ کشمیر شنگھائی تعاون کونسل کے لیے بڑا چیلنج

مسئلہ کشمیر شنگھائی تعاون کونسل کے لیے بڑا چیلنج

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۸ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

چین کے معروف روزنامے گلوبل ٹائمز نے اپنے اداریے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پائی جانے والی کشیدگی کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے بجا طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے سب سے بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں مکمل رکن کی حیثیت سے پاکستان اور بھارت کی شمولیت بجا طور پر تاریخ ساز واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے تنظیم کے بنیادی مقاصد اور اہداف میں رکن ملکوں کے درمیان باہمی اعتماد اور اچھی ہمسائیگی کو فروغ دے کر خطے میں امن وسلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا شامل ہے۔ علاقائی تعاون کے حوالے سے یہ تنظیم اس لحاظ سے بلاشبہ ایک موثر تنظیم ہے کہ اس پلیٹ فارم پر تنظیم کے رکن ملک باہمی تنازعات کے حل کے لیے بھی آواز اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان شروع دن سے پرامن ہمسائیگی کی پالیسی پر کاربند ہے جبکہ بھارت نے ہر فورم پر پاکستان کے لئے مخاصمانہ رویہ اپنا رکھا ہے اور سارک تنظیم اس کے اس منفی رویئے کی وجہ سے بے اثر ہو کر رہ گئی۔ شنگھائی گلوبل ٹائمز نے ماضی میں اسی بھارتی رویے کے تناظر میں مسئلہ کشمیر اور پاکستان بھارت میں کشیدگی کو شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے ایک بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس حوالے سے تعاون تنظیم کے قائدین بھارت کو اس سے باز رکھنے کے لیے موثر اقدامات کریں گے اور جنوبی ایشیامیں پائیدار امن کی خاطر پاکستان بھارت کے درمیان کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے منصفانہ حل کی بھی موثر کوششیں کی جائیں گی ۔اسی طرح خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے افغانستان کا خلوص نیت سے اپنے ہمسایہ پاکستان سے تعاون کرنا ضروری ہے بھارت کے زیر اثر اس نے پاکستان کیخلاف جو بے بنیاد الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اسے بلاتاخیر ختم کرکے اپنے ہاں بھارت کا عمل دخل کم کرائے۔ شنگھائی تعاون تنظیم بلاشبہ پاکستان بھارت سمیت دنیا کے ایک بڑے حصے کے لیے نئے خوشگوار امکانات کی نقیب ہے، حکمت، تدبر کشادہ دلی اور معقولیت پر مبنی رویے اپنا کر اور اقدامات سے انہیں حقیقت بنایا جا سکتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی اسی اہمیت کے پیش نظروزیراعظم محمد نوازشریف نے اس کانفرنس کے موقع پر کہاتھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو اچھی ہمسائیگی کا 5سالہ معاہدہ کرنا چاہیے‘ پاکستان اس تنظیم کے چارٹر اور شنگھائی سپرٹ پر عملدرآمد کے لیے پرعزم ہے۔ گزشتہ روز قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں پاکستان کو اس تنظیم کی مستقل رکنیت ملنے کے بعد خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے کہا تھاکہ ہمیں مخاصمت کے سدباب کی پالیسی کے بارے میں باتیں کرنے کے بجائے سب کے لیے مشترکہ گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔ انہوں نے اگلے 5 سال کے لیے اچھی ہمسائیگی کے طویل مدتی معاہدے کی ضرورت کے بارے میں چین کے صدر ژی جن پنگ کی تجویز کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ ہمیں اپنی اگلی نسلوں کے لیے تنازعات‘ دشمنی اور زہریلی فصل کے بجائے امن اور ہم آہنگی وراثت میں چھوڑنی چاہیے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ہونے پر بھارت کو مبارکباد دیتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا تھاکہ یہ تنظیم ہمیں اعتماد سازی‘ امن اور معاشی ترقی کے لیے ایک طاقتور پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے عزم کی بھرپور توثیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے بہادری کے ساتھ اس برائی کیخلاف جدوجہد کی ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا بھی تذکرہ کیا۔
بھارت کو بھی پاکستان کے ساتھ ہی شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت حاصل ہوئی ہے اس تنظیم کے پلیٹ فارم پر بھارت کی موجودگی میں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اجاگر کرکے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اس تنظیم کے رکن ممالک کا دبائو ڈلوایا جا سکتا ہے جبکہ اس تنظیم کا اہم رکن ملک چین پہلے ہی کشمیر ایشو پر پاکستان کے موقف سے ہم آہنگ ہے اور چین کے سربراہ مملکت اس مسئلے پر پاکستان اوربھارت کے درمیان مصالحت کرانے کی پیش کش کرچکے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا پاکستان کو ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اس کانفرنس کی وجہ سے اس تنظیم کے دوسرے رکن ممالک کو پاکستان کیخلاف بھارتی عزائم اور سازشوں سے آگاہی حاصل ہوئی ہے اس لئے مستقبل میں پاکستان کیخلاف کسی بھارتی جارحیت پر اسے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی مزاحمت اور دبائو کا سامنا کرنا پڑیگا۔ بھارت ہمارا وہ ازلی دشمن ہے جو قیام پاکستان کے وقت سے ہماری سلامتی کے درپے ہے اس لئے وہ کسی بھی علاقائی اور عالمی فورم پر پاکستان پر دہشت گردی اور دراندازی کا ملبہ ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ شنگھائی تنظیم کے سربراہ اجلاس میں بھی بھارتی وزیراعظم مودی نے عالمی سربراہوں کی موجودگی سے خوب فائدہ اٹھایا اور انہیں سی پیک اور دہشت گردی کیخلاف پاکستان کے اقدامات کے حوالے سے بھڑکانے کی بھرپور کوشش کی تاہم روس کے صدر پیوٹن نے بطور خاص سی پیک کی خطے میں ترقی کے لیے افادیت کا تذکرہ کرکے بھارتی عزائم پر اوس ڈال دی۔ چین پہلے ہی سی پیک کیخلاف سازشوں پر بھارت کو اچھا جواب دے چکا ہے۔ اس لئے چین اور روس کی موجودگی میں شنگھائی تنظیم کے پلیٹ فارم پر بھارت کا پاکستان پر ملبہ ڈالنے کا کوئی حربہ کارگر نہیں ہو سکے گا تاہم ہمیں خود بھی اس تنظیم کے تمام رکن ممالک کو بھارتی بربریت اور پاکستان کے خلاف اسکی سازشوں سے ہر لمحہ آگاہ رکھنے کے لیے سفارتی سطح پر فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ہمارے حکمرانوں کی جانب سے بھارتی عزائم ثابت قدمی کے ساتھ بے نقاب کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے شنگھائی سربراہی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن سے رہنے کی بجا طور پر خواہش ظاہر کی مگر یہ خواہش یکطرفہ طور پر تو پوری نہیں ہو سکتی۔ اگر ہمارے ہمسائے بھارت نے ہماری سلامتی تاراج کرنے کی ٹھان رکھی ہے جس کے لیے وہ اپنی دفاعی عسکری استعداد بھی بڑھا رہا ہے اور پاکستان پر سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے تو اسکے ساتھ امن کی بات تبھی سودمند ہو سکتی ہے جب وہ خود بھی قیام امن کا قائل ہو اور ہمسایوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتا ہو۔ اگر وہ اس خطے میں بیک وقت چین اور پاکستان کی سلامتی پر وار کرنے کی بدنیتی رکھتا ہے جس کا اظہار گزشتہ روز بھارتی آرمی چیف نے بھی اپنی گیدڑ بھبکی کے ذریعے کیا ہے ایسی صورت میں بھارت کے ساتھ5 سال یا اس سے زیادہ عرصے کا امن معاہدہ کرنا اس کی کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کو تقویت پہنچانے کے مترادف ہوگا کیونکہ اس طرح باہم امن سے رہنے کی آڑ میں مسئلہ کشمیر سرد خانے میں چلا جائیگا اور پھر بھارت کو اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرنیوالے کشمیری عوام پر ظلم و جبر کے نئے ہتھکنڈے استعمال کرنے کا بھی نادر موقع مل جائیگا۔
یقیناً ہمیں اپنی اگلی نسلوں کو علاقائی امن و آشتی سے ہمکنار کرنا ہے مگر اس کے لیے ملک کی سلامتی کو بچانا اور مستحکم کرنا ضروری ہے جبکہ بھارت ہماری سلامتی ہی کے درپے ہے اور مقبوضہ کشمیر میں اپنے حقوق کی جدوجہد کرنیوالے کشمیریوں کی تیسری نسل کو ظلم و تشدد کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے جدوجہد کے راستے سے ہٹانے کی مذموم کوششیں کررہا ہے۔ اس صورتحال میں اب امن کی یکطرفہ ڈفلی نہیں بجائی جا سکتی۔ اگر بھارت کسی کے ساتھ امن سے رہنا ہی نہیں چاہتا اور توسیع پسندی پر مبنی جنونیت اسکی سرشت میں شامل ہے تو اس کے ساتھ امن کی بات کرنا اس پر اپنی کمزوریاں ظاہر کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس صورتحال میں ہمیں شنگھائی تنظیم کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم رکوانے کے لیے بروئے کار لانا چاہیے اور مجوزہ امن معاہدے کو مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ مشروط کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر بھارت کے ساتھ 5سالہ امن معاہدہ مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے کا معاہدہ بن جائیگا۔
امید کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اس پوری صورت حال کو سامنے رکھ کر کوئی قدم اٹھائیں گے اور یہ بات فراموش نہیں کریں گے کہ بھارتی رہنمائوں کے منہ میں رام رام تو ہر دم رہتاہے لیکن بغل میں سے چھری نکالتے دیر نہیں کرتے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں