میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جے آئی ٹی کے حوالے سے پاک فوج کی وضاحت‘ شکوک کاخاتمہ

جے آئی ٹی کے حوالے سے پاک فوج کی وضاحت‘ شکوک کاخاتمہ

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۶ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت کور کمانڈرز اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ فوج اپنے ارکان کے ذریعے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس کیس کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں شفاف اور قانونی طریقے سے کردار ادا کرے گی۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کے ٹوئٹر پیغام کے مطابق آرمی چیف کی زیر صدارت جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) راولپنڈی میں 202ویں کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی۔ترجمان کے مطابق اجلاس کے شرکا نے پاناما لیکس کیس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بنائی جانے والی جے آئی ٹی کے معاملے پر بھی بات چیت کی۔آئی ایس پی آر ترجمان کے مطابق شرکانے اس عزم کا اظہار کیا کہ ادارہ اپنے نمائندوں کے ذریعے جے آئی ٹی کے سلسلے میں شفاف اور قانونی کردار ادا کرے گا اور سپریم کورٹ کے اعتماد پر پورا اترے گا۔
رواں ماہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 دن کے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جانی ہے جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، قومی احتساب بیورو (نیب)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کا نمائندہ شامل کیا جائے۔
پاناما پیپرز کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد پورے ملک میں ہلچل مچ گئی ہے،اس حوالے سے اپوزیشن کی جانب سے جو مطالبات اور جو تبصرے سامنے آئے ہیں ان میں سے کسی میں بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیاگیا ہے،اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے مطابق چونکہ مقدمے کی سماعت کرنے والے پانچوں جج اس بات پر متفق ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے اپنے دفاع میں پیش کیے جا نے والے دلائل اور ڈاکومنٹس سے ان کا معصوم ہونا ثابت نہیں ہوتااس لیے انہوں نے ان پر لگائے جانے والے الزامات کی تفیصلی تحقیق کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے ،اس حوالے سے اپوزیشن کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ چونکہ جے آئی ٹی میں شامل کیے جانے والے افسران سرکاری افسران ہوں گے اور وہ سب ہی حکومت کے مقرر کردہ اور حکومت کو جوابدہ ہیں اس لیے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل سے قبل وزیر اعظم عبوری طورپر سہی ،اپنے عہدے سے علیحدگی اختیار کرلیں اور اقتدار خود اپنی پسند اور اعتماد کے اپنے کسی ساتھی خواہ وہ ان کارشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ،کے سپرد کردیں تاکہ جے آئی ٹی میں شامل کیے جانے والے افسران وزیر اعظم سے عدالت کے مقررہ سوالوں کے جواب آسانی سے اور کسی دباﺅ کے بغیر حاصل کرکے انہیں سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرسکیں، یہ کوئی ایسا مطالبہ نہیں ہے جسے نامناسب کہاجائے ۔دیانتداری کا تقاضا تو یہ تھا کہ وزیر اعظم اپوزیشن کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آنے سے قبل ہی از خود اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کااعلان کردیتے ،اگر وہ ایسا کرتے تو نہ صرف یہ کہ اپوزیشن کو اس طرح کے مطالبات پیش کرنے اور انہیں منوانے کے لیے تحریک چلانے کی تیاریاں کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی اور وزیر اعظم کے اس فیصلے سے ان کی اور ان کی پارٹی کی ساکھ میں بھی اضافہ ہوجاتا۔
جے آئی ٹی کے حوالے سے پاک فوج کی اس دوٹوک وضاحت کے بعد اس حوالے سے پائے جانے یاظاہر کیے جانے والے شکوک وشبہات کا تدارک ہوجانا چاہیے،تاہم اس ضمن میں نیب کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک وشبہات اپنی جگہ قائم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے نیب کے موجودہ چیئرمین کے خلاف ریفرنس لے کر عدالت سے رجوع کرنا پڑا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے اعلان کردہ فیصلے میں ججوںکے ریمارکس کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے قومی احساب بیورو (نیب) کے چیئرمین قمر زمان چوہدری کی نا اہلی کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی دائر کردیا ہے۔پی ٹی آئی نے اپنے ریفرنس میں مو¿قف اپنایا ہے کہ نیب چیئرمین اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے ہیں اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے پاناما کیس کے فیصلے میں ان کے خلاف آبزرویشن دی ہے اس لیے چیئرمین نیب کو نا اہل قرار دیا جائے۔ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ ’ایسے کردار کا حامل شخص کس طرح کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے ، اس لیے نیب کے چیئرمین کو کام کرنے سے روکا جائے ورنہ عدالتی فیصلے کی تضحیک ہوگی‘۔ نیب کے چیئرمین کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کا ریفرنس کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ نیب کے چیئر مین اپنے عہدے اور منصب سے انصاف کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں، یہاں تک سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کو ان کے خلاف ریمارکس دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ چیئرمین نیب پاکستان میں احتساب کے نظام کو نافذ کرنے کے ذمہ دار تھے لیکن وہ نہ صرف یہ کہ اپنی بنیادی ذمہ داری پوری کرنے میں بری طرح ناکام رہے بلکہ ان کے اس طرز عمل کی وجہ سے نیب کو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ قرار دیاجانے لگا ،نیب کے چیئرمین کی ناقص کارکردگی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ پاناما کیس کا فیصلہ سنانے والے سپریم کورٹ کے بینچ نے’نیب کے چیئرمین کے خلاف ریمارکس دیے، اورجسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر 20 کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں اس شخص کو چیئرمین نیب بنانا ہے تو کرپشن کو جائز کردیں‘۔ پاناما کیس کے فیصلے میں بھی تمام ججز نے یہ کہا کہ چیئرمین نیب کے ہوتے ہوئے ادارہ غیر فعال ہے لہٰذا پاناما کیس کی مشترکہ تحقیقات کے لیے متبادل میکنزم بنایا گیا ہے۔نیب کے چیئرمین کے بارے میں سپریم کورٹ کی اس آبزرویشن اور ریمارکس کے بعد چیئرمین نیب کو از خود کام بند کرکے خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑدیناچاہیے تھا لیکن چونکہ وزیر اعظم نواز شریف کی طرح وہ بھی اپنے اس عہدے کو چھوڑنا نہیں چاہتے اس لیے ان کو اس عہدے سے ہٹا کر اس پر کسی غیر جانبدار ،ایماندار اور جرا¿ت مند افسرکا تقرر ضروری ہوگیا ہے کیونکہ جب تک کوئی ایسا افسر نیب کا سربراہ بنا رہے گا جس کی وفاداریاں اور کارکردگی مشکوک ہو ،جے آئی ٹی کا مکمل طورپرآزادی اور غیر جانبداری کے ساتھ کام کرنا ممکن نہیں ہوگا۔اس اعتبار سے تحریک انصاف کا یہ مطالبہ اپنی جگہ بالکل درست اور حق بجانب ہے کہ پاناما کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف تحقیقات کو شفاف بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ا نہیں عہدے سے ہٹایا جائے اور اس سے قبل انہیں کام کرنے سے روک دیا جائے، اب جبکہ پی ٹی آئی اس معاملے کو عدالت میں لے جاچکی ہے اس لیے اس پر مزید تبصرہ مناسب نہیں ہے لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے اس معاملے کو عدالت میں لے جائے جانے کی وجہ سے جے آئی ٹی کی تشکیل کی راہ میں رکاوٹ پڑنے کا خدشہ ہے کیونکہ عدالت سے اس حوالے سے پی ٹی آئی کے دائر کردہ ریفرنس کے فیصلے تک نیب کی جے آئی ٹی میں شمولیت مشکوک ہوگی اور اگر ریفرنس کے فیصلے کاانتظار کیے بغیر نیب کے موجودہ چیئرمین کو جے آئی ٹی میں شامل کرلیاگیا تو ان کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں جے آئی ٹی کی اس وقت تک کی پوری کارروائی مشکوک ہوجائے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں