میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مریم اور مراد علی شاہ کی کامیابی، چیلنج بہت بڑے ہیں!!

مریم اور مراد علی شاہ کی کامیابی، چیلنج بہت بڑے ہیں!!

جرات ڈیسک
بدھ, ۲۸ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

مریم صفدر پنجاب اور مراد علی شاہ کثرت رائے سے بالترتیب پنجاب اور سندھ کے وزاعلیٰ منتخب کرلئے گئے ہیں،پنجاب میں عمران خا ن کے حامی ارکان کے بائیکاٹ کی وجہ سے مریم صفدر کو کسی مقابلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا،جبکہ مراد علی شاہ کا مقابلہ متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار سے تھا لیکن یہ ایک نمائشی مقابلے سے زیادہ نہیں تھا، مریم صفدر نے یہ نشست جیت کر12کروڑ افراد کے صوبے پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلی بننے کا بہت بڑا اعزاز اپنے نام کیا ہے۔ پنجاب مسلم لیگ کے پارلیمانی اجلاس سے خطاب میں نامزد وزیراعلی مریم صفدرنے اپنی حکومت کی ترجیحات سے اراکین اسمبلی اور عوامی وسیاسی حلقوں کو آگاہی دی۔انھوں نے صوبے میں پہلی ائیر ایمبولینس کا اجرا کرنے کا اعلان کر کے دنیا بھر کے سیاسی اور عوامی حلقوں کو سرپرائز دیا۔خدمت کے اس نئے انداز کو ان کے حامی صوبے کی بہتری سے تعبیر کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھنے لگا ہے کہ اس وقت جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں لوگوں کو بخار اور سردرد کی گولیاں بھی دستیاب نہیں ہیں، ایئرایمبولنس چلانے والے پائلٹس اس کے فیول اور دیکھ بھال کا بھاری خرچ کون اٹھائے گا اور اس کیلئے پیسہ کہاں سے آئے گا اور اگر اس کا خرچ بھی حکومت کی جانب سے عوام کو علاج معالجے کیلئے فراہم کئے جانے والے معمولی فنڈ سے کی جائے گی تو عملے کی تنخواہیں اور ہسپتالوں کی دیکھ بھال کا خرچ کہاں سے پورا کیاجائے گا۔5 انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شاہکار سٹی’ ری ڈیزائن ہیلتھ کارڈ’ یوتھ کے لیے بلا سود قرضے’ ماڈل ویمن پولیس اسٹیشن ‘ سیف سٹی’ میرج اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ گھر کی دہیلز پر ‘ کڈنی ‘ لیوراور امراض قلب کے علاج کے ہسپتال قائم کئے جائیں گے ہارٹ،انھوں نے اپنی پہلی تقریر میں سرکاری تعلیمی اداروں کی پبلک’ پرائیویٹ پارٹنر شپ اور دیہات میں سیوریج سٹم کی درستگی اور صاف پانی کی فراہمی کونئی حکومت کی ترجیحات قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب اچھے منصوبے ہیں اور ان پر عملدرآمد کردیاجائے تو کم از کم پنجاب کے 12کروڑ افراد کے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے اورماں،باپ،یابیوی بچوں کیلئے دواؤں کیلئے رقم نہ ہونے کی بنا پرکوئی نوجوان اپنا گردہ بیچنے یا خودکشی کرنے پر مجبور نہیں ہوگا،لیکن نواز شریف اور شہباز شریف نے پنجاب پر اپنے طویل اقتدار کے دوران کوئی ایسا سسٹم تیار نہیں کیا جس کے تحت علاج معالجے کیلئے مختص رقم علاج معالجے پر ہی خرچ کی جاسکے اور جان بچانے والی دوائیں ہسپتالوں کے باہر میڈیکل اسٹورز پر فروخت نہ ہوسکیں،ملک میں فی الوقت جو نظام کام کررہاہے اس کے پیش نظر اپوزیشن رہنماؤں کے اس خدشے کو بے بنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ہسپتالوں میں مریضوں کی جان بچانے کیلئے انھیں فوری ہسپتال پہنچانے کیلئے رکھے جانے والے ہیلی کاپٹرز پر ہسپتال کے انچارج صاحبان یا وزیر صحت کے اہل خانہ کیلئے شاپنگ کیلئے استعمال کیاجاتا رہے گا اور ہنگامی صورت حال میں فیول نہ ہونے یا کوئی پرزہ خراب ہونے کی بنا پر ان ہیلی کاپٹرز کو ناقابل استعمال قرار دے کر متعلقہ حکام خود کو بری الذمہ قرار دیدیں گے۔ مریم صفدر نوجوانوں کو بلا سود قرضے دینے کا سلسلہ فوری شروع کرنا چاہتی ہیں یہ بھی ایک خوش آئندہ فیصلہ ہے۔ اس سے 90 لاکھ بیروزگار گریجویٹس کو عملی زندگی شروع کرنے میں مدد ملے گی اور انھیں ملازمت کیلئے صنعت کاروں یا تاجروں کے رحم وکرم پر نہیں پڑے گا۔ تاہم زیادہتر ہوگا کہ وہ بلا سود قرضے کی بجائے یوتھ کے لیے فراہمی روزگار کے دروازے کھولیں جب تک روزگار کے مواقع نہیں ملیں گے صوبے کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔
مریم اپنی جارحانہ انداز کی وجہ سے منفردپہچان رکھتی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائدوسابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم صفدر، 28/ اکتوبر 1973 کو پیدا ہوئیں، انہوں نے انگریزی ادب میں جامعہ پنجاب سے ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ان کوعام انتخابات 2013کے دوران ن لیگ کی جانب سے ضلع لاہور کی انتخابی مہم کا منتظم مقرر کیا گیا۔ 22 /نومبر 2013 کو وزیراعظم یوتھ پروگرام کاچیئرپرسن تعینات کیا گیا تاہم مریم صفدر نے مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کے بعد استعفیٰ دے دیا۔ 6 /جولائی 2018 کو عدالت نے نواز شریف کے ساتھ انہیں بھی 7 سال قید اور 2 ملین پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی اور وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پابند سلاسل رہیں۔ وزارت اعلی کا منصب ان کا پہلا سیاسی امتحان ہے اور انہیں اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور خراب معیشت سب سے بڑا چیلنج بن کر ان کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ پنجاب ملک کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے چنانچہ اسی تناظر میں اس کے مسائل بھی پیچیدہ اور گنجلک ہیں لیکن یہ بات بھی خاصے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مریم اگر وزرا کی ایک اچھی ٹیم بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں اور سول سروس میں اچھے بیوروکریٹس کو آگے لاتی اور اہم عہدوں پر متعین کر دیتی ہیں کام کے حوالے سے ان کے ساتھ اچھے تعلقات بناتی ہیں تو ان کے لیے صوبے کے معاملات کو چلانا چنداں مشکل نہیں رہے گا۔ ان کو ایسے لوگوں کو اپنی کابینہ میں شامل کرنا چاہئے جو ایماندار اور سلجھے ہوئے ہوں جن کی شہرت اچھی ہو اور جن پر لوگوں کو اعتبار ہو جو پیسہ بنانے کے بجائے عوام کی خدمت پر یقین رکھتے ہوں۔ بیوروکریسی میں انہیں ایسے لوگوں کو سامنے لانا چاہیے جن کی شہرت غیر جانب داری کی ہو، جن کا کیریئر بے داغ ہو اور جن پر کسی گروپ کا افسر ہونے کی چھاپ نہ لگی ہو، اس مقصد کے لیے انہیں ایک خاص گروپ سے جو ان کے والد محترم اور چچا سے قربت کی بنیاد پر اپنی جگہ بنانا چاہتاہے باہر نکلنے کی ضرورت ہو گی۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں نون لیگ کی ایک چین آف بیوروکریسی ہے مریم صفدر کو اب اپنے نام کے ساتھ اپنے والد کا نام ہٹا کر اپنے شوہر کا نام لگاکر اس متھ (Myth) کو توڑنا ہو گا۔ انہیں گو گیٹر (Go Getter)قسم کے افسروں کو سامنے لانا ہوگا،پنجاب حکومت کو وفاق سے سالانہ 1100ارب روپے ملتے ہیں۔ مریم صفدر کواگر چہ وفاق میں اپنے چچا وزیراعظم میاں شہباز شریف کی بے پناہ سرپرستی میسر ہو گی۔مگر دوسری جانب انھیں اس کا اسی قدر نقصان بھی اٹھانا پڑے گا۔ 18ویں ترمیم کے بعد ملک بھر میں بجلی،سوئی گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین وفاق کرتا ہے۔لہٰذا جب بھی مہنگائی آئے گی،لوڈشیڈنگ ہوگی یا بجلی بلوں میں اضافے کے ساتھ پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ تب تب اس کا نزلہ پنجاب حکومت پر بھی گرے گا۔لہٰذا مریم کے لیے پنجاب کی وزار ت اعلیٰ پھولوں کی بجائے کانٹوں کی سیج ثابت ہو سکتی ہے۔انھیں گڈ گورننس کا مقصد حاصل کرنے کیلئے ایک سیکریٹری کو محکمے میں کم از کم 3برس کا ٹائم دینا چاہیے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکے۔ہم نامزد وزیر اعلیٰ پنجاب سے گزارش ہی کرسکتے ہیں کہ اکھاڑ پچھاڑ نہ کریں اور اپنے پیشرو کی ٹیم کو برقرار رکھیں تو یقینی طور پر یہ ٹیم انھیں اچھے اور حوصلہ افزا نتائج دے سکتی ہے اب زمام حکومت مریم کے ہاتھ میں ہے انھیں چاہئے کہ پنجاب میں فلاحی و عوامی بہبود کے لئے انقلابی اقدامات اٹھائیں اور صوبے کو صحیح معنوں میں اسلامی ریاست مدینہ کا ایسا رول ماڈل بنائیں کہ یہاں کسی کو آٹے کے حصول کے لئے خوار نہ ہونا پڑے۔ خواتین کے تحفظ،ان کے معاشی اور سماجی مقام کی بہتری کے لئے بھی ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔موجودہ حالات میں سب سے اہم ضرورت اِس بات کی ہے کہ ملک میں مفاہمت کی ہوائیں چلیں۔اسمبلیوں میں اگر ہنگامہ آرائی رہی،انتشار نے ہماری جان نہ چھوڑی،سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ جاری رہا،احتجاج کو روکنے کے لئے ریاستی طاقت کا استعمال ایک بنیادی تقاضے کے طور پر استعمال کیا گیا تو پھر اس نظام کا چلنا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔یاد رکھنے کی بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے حالات کے پیش ِ نظر ایک مستحکم نظام کی ضرورت ہے۔ایسا نظام جو یکسوئی کے ساتھ ملکی مفاد میں فیصلے کر سکے۔ معیشت کی بہتری پہلی ترجیح ہونی چاہئے اور معیشت اُس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی جب تک غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آتی،نہ صرف غیر ملکی،بلکہ ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال نہیں ہوتا۔پچھلے تقریباً ڈھائی برس سے ملک میں ایک بے یقینی موجود ہے۔پہلے پی ڈی ایم کی شارٹ ٹرم حکومت اور اُس کے بعد نگران حکومت کا دور اس بے یقینی کی وجہ رہے۔اب اگر انتخابات کے بعد نئی حکومتوں کے قیام سے بھی استحکام نہیں آتا، تو یہ بڑی بدقسمتی ہو گی اس کے لئے سب سے پہلے اُن جماعتوں کو اپنی سوچ بدلنی ہو گی،جو اقتدار میں آ رہی ہیں۔اُن کی سوچ کا محور ملک میں سیاسی استحکام لانے کے لئے مفاہمت کی فضاکو فروغ دینا ہوا تو حالات یقینا بہتری کی طرف جائیں گے۔ مفاہمت کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ ہے اُن سیاسی جماعتوں کی جو اِس وقت احتجاج کر رہی ہیں بات سنی جائے،انہیں مذاکرات کے ذریعے قریب لایا جائے۔
بیروزگاری اور مہنگائی نے ہر خاندان میں مشکلات کی فصل بو دی ہے۔مہنگائی اور مسلسل بے روزگاری کی وجہ سے ہمارے یہاں جرائم کی شرح بڑھ گئی۔ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں سب سے زیادہ فریق نوجوان نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی یوتھ کو قومی تعمیر سے منسلک کرنا بہت ضروری ہے۔ حکومت کی طرف سے قرضوں کا اجرا بہتر قدم ہے تاہم اس سے بھی بڑا فیصلہ فراہمی روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ نئی حکومت سرکاری ا سکولوں کو پبلک اور پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے چلانے کی خواہش مند ہے۔ یوتھ کمیونٹی کو قومی خدمت میں ساتھ رکھنا بہترین فیصلہ ہے یہ بھی ضروری ہے کہ ہے کہ حکومت تعلیمی شعبے کی ترقی کے لیے پبلک و پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک کو ہر سطح پر اہمیت دے،اگر ایسا ہو جائے تو وطن عزیز کے ڈھائی کروڑ بچوں کو سکول ایجوکیشن سے منسلک کرنے میں مدد ملے گی ہمارے یہاں اسکول،کالج اور جامعات کو بے جا ٹیکسوں نے جکڑا ہوا ہے۔وفاقی اورصوبائی حکومتیں ٹیکس شرح میں کمی کرکے علم دوستی کا خواب پورا کرسکتی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک نئی حکومت نئے چیلنجز کا اچھے انداز سے سامنا کرے۔ صوبائی حکومت کے لیے پہلا چیلنج ماہ صیام میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنے کاہے، مریم کو اپنے اس پہلے امتحان میں کامیاب ہونا ہے۔ اگر محترمہ نے مارکیٹ مافیا سے بچتے ہوئے رمضان المبارک کے مہینے میں مصنوعی مہنگائی کو کنٹرول کر لیا تو عوام سمجھیں گے کہ انھوں نے بطور وزیر اعلیٰ اپنی کامیابی کی بنیاد رکھ دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں