میگزین

Magazine
تازہ ترین : عمران خان کی حکومت ہٹانے سے متعلق سائفر امریکی میڈیا میں ہی افشا ہو گیا سیاسی مذاکرات ، وزیراعظم کی تحریک انصاف کو پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش پیکا ترمیمی بل، زرداری نے کہاتھا حکومت سے تجاویز تسلیم کرنے کا کہوں گا، مولانا فضل الرحمان جمہوریت کی خاطر سندھ میں متعصب حکومت کو برداشت کیا، چیئرمین ایم کیوایم ایم کیو ایم رہنمائوں کی پریس کانفرنس جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے ،ترجمان بلاول بھٹو حکومت سنجیدہ ہوتی تو اب تک کمیٹی بن چکی ہوتی، پی ٹی آئی کا وزیراعظم کی پیشکش پر ردِ عمل موجودہ حکومت الیکشن فراڈ ، دھاندلی سے وجود میں آئی، عمران خان کا چیف جسٹس کو خط 190ملین پاؤنڈ اسکینڈل ، ملک ریاض کے خلاف کارروائی مہران ، کامرہ حملوں میں طیارے تباہ ہوئے ، کیا 9مئی کا جرم زیادہ سنگین ہے ؟سپریم کورٹ وفاقی کابینہ ،یورپی یونین سے ٹیرف ریٹس کوٹہ تقسیم معاہدے کی منظوری چیف جسٹس نہ ہونے پر کسی سے شکوہ نہیں،بطور سینئر جج خوش ہوں،جسٹس منصور

ای پیج

e-Paper
پکتیا میں مبینہ بمباری پرپاکستان کو افغان حکومت کی دھمکی

پکتیا میں مبینہ بمباری پرپاکستان کو افغان حکومت کی دھمکی

جرات ڈیسک
هفته, ۲۸ دسمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

افغان وزارت دفاع نے الزام لگایا ہے پاکستان کے فوجی طیاروں نے پکتیکا کے ضلع برمل میں ‘فضائی حدود’ کی خلاف ورزی کرکے پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی، جس سے متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ فضائی حملوں میں 4 مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ 3حملوں کا نشانہ ٹی ٹی پی میڈیا سیل کے سربراہ منیب جٹ، عمر میڈیا، ان کے نائب، ابو حمزہ اور اپنے ہی دھڑے کے کمانڈر اختر محمد خلیل تھے۔حملوں کے وقت ٹی ٹی پی برمل میں بڑا اجتماع کر رہی تھی۔افغانستان کی وزارت دفاع کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ سے اس مبینہ حملے سے متعلق 3 ٹوئٹس کی گئیں جنھیں ترجمان عنایت اللہ خوارزمی اورذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے ری ٹوئٹ کیا گیا۔ٹوئٹس میں کہاگیا ہے کہ افغانستان اس حملے کی مذمت کرتا ہے اور اسے جارحیت اورعالمی اصولوں کے منافی سمجھتا ہے، پاکستان کو یاد رکھنا چاہیے ایسااقدام مسئلے کا حل نہیں۔ افغانستان اپنی سرزمین کے دفاع کو ناقابل تنسیخ حق سمجھتا ہے اور اس کارروائی کا جواب دیا جائے گا۔افغان وزارت خارجہ نے ایکس پر بیان میں کہا ایسے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے یقیناً نتائج برآمد ہوں گے۔ا فغانستان میں فضائی حملوں کے حوالے سے افغانستان کے الزامات پر ردعمل میں دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے لوگوں کی سیکورٹی کے لیے پُرعزم ہے، بارڈر کے علاقوں میں سیکیورٹی فورسز آپریشن کرتی ہیں، بارڈر ایریا میں آپریشن کا مقصد پاکستانی شہریوں کو ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گردوں سے بچانا ہے اور یہ آپریشن انٹیلی جنس بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ پاکستان افغانستان کی خودمختاری کی عزت کرتا ہے، ہم نے ہمیشہ بات چیت اور سفارت کار پر توجہ دی ہے، پاکستان افغانستان کے ساتھ گزشتہ دنوں سے ہی رابطے میں ہے ،پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان صادق خان اس وقت کابل میں موجود ہیں، صادق خان نے افغان وزیر داخلہ، وزیر خارجہ، نائب وزیر اعظم اور دیگر لوگوں سے ملاقات کی ہے، ملاقاتوں میں سیکورٹی کی صورتحال، بارڈر مینجمنٹ اور تجارت پر بات چیت کی گئی ہے۔ااطلاعات کے مطابق حملوں کے ان الزامات کے بعد سے دونوں ممالک میں پہلے سے موجود تناؤ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ افغانستان نے اس مبینہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کو صریحاً جارحیت اور بین الاقوامی اصولوں کے منافی قرار دیاہے اور دھمکی دی ہے کہ پاکستان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح کے اقدام مسئلے کا حل نہیں۔افغان وزارت دفاع نے کہا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کے دفاع کو ناقابل تنسیخ حق سمجھتا ہے اور اس بزدلانہ کارروائی کا جواب دیا جائے گا۔جبکہ بدھ کی سہ پہر افغان وزارت خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے پاکستانی سفارتخانے کے ناظم الامور کو طلب کیا اور افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں مبینہ پاکستانی فوجی طیاروں کی مبینہ بمباری پر اپنا شدید احتجاجی مراسلہ ان کے حوالے کیا۔افغان وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ اس طرح کے ‘غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے یقیناً نتائج برآمد ہوں گے۔
پکتیکا پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی ڈیورنڈ لائن کے ساتھ افغانستان کا مشرقی صوبہ ہے جو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے 3 اضلاع سے متصل ہے۔ان میں صوبہ بلوچستان کا ضلع ژوب جبکہ صوبہ خیبرپختونخوا کے2 اضلاع جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان شامل ہیں.;جنوبی وزیرستان ہی وہ ضلع ہے جہاں رواں ماہ 21 دسمبر کو ایک فوجی چوکی پر حملہ ہوا تھا جس میں 16 سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستان نے اس حملے کا الزام سرحد پار سے آنے والے شدت پسندوں پر عائد کیا تھا۔فغان وزارتِ دفاع نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان ان حملوں کا بدلہ لینے کا حق رکھتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب افغانستان کی جانب سے پاکستان پر سرحدی حدود میں ‘دراندازی’ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔رواں برس مارچ میں افغان طالبان نے کہا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی جس کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے بتایا کہ اس آپریشن میں حافظ گُل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد ہدف تھے۔اس حملے کے بعد افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے فضائی حملے میں 5 خواتین اور 3بچے ہلاک ہوئے ہیں۔اس ضمن میں پاکستان کا مؤقف انتہائی واضح ہے کہ شدت پسندی کی لہر میں اضافے کی وجہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کا استعمال ہے جسے روکنے میں افغان حکومت ناکام رہی ہے اور سرحد پار سے شدت پسند پاکستان کی سیکورٹی فورسز، چینی اور پاکستانی شہریوں کے خلاف حملے کرتے ہیں۔پاکستانی حکام کے مطابق انھوں نے بارہا افغانستان کو ثبوت دیے مگر طالبان حکومت پاکستان کے تحفظات دور نہیں کر سکی ، نتیجتاً یہ گروہ زیادہ آزادی سے افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔جون 2024 میں ایک انٹرویو میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کہہ چکے ہیں کہ ‘پاکستان افغانستان میں طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر مستقبل میں ‘آپریشن عزمِ استحکام کے تحت ضرورت محسوس ہوئی تو افغانستان میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
اب افغان وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان میں پاکستان کو جواب دینے’ کی بات کی گئی ہے جس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان پاکستان کے خلاف کیا جوابی کارروائی کر سکتا ہے ؟ یہ بات بہت واضح ہے کہ پاکستان آخری آپشن کے طور پر افغان سرزمین پر کارروائی کرتا ہے۔پاکستان کی حکومت اس سے پہلے بار بار افغان حکومت کو شواہد کے ساتھ یہ بتاتے رہے ہیں کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔پاکستان نے ہر بار ثبوت دیئے اور افغانستان کو ہمارے وزیر دفاع نے بھی کہا کہ ماضی کے تعاون کی بنیاد پر وہ ٹی ٹی پی کو ان کے ہاتھ باندھنے کی اجازت نہ دیں۔‘لیکن ایسا لگتا ہے کہ افغان طالبان کے بس میں نہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کو روک سکیں۔تاہم انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ‘وجہ کوئی بھی ہو، پاکستان یہ برداشت نہیں کرے گا کہ وہاں سے دہشتگرد آئیں اور ہمارے فوجی جوانوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنائیں۔فغانستان میں طالبان کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔پاکستان کی توقعات کے برعکس، کابل میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان سینٹر فار کانفلیکٹ اور سیکورٹی کے مطابق رواں برس اب تک سب سے زیادہ حملے نومبر میں ہوئے ہیں جن میں 240 افراد ہلاک ہوئے جن میں تقریباً 70 سیکورٹی اہلکار شامل ہیں۔یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ کیا افغانستان پاکستان کی مبینہ ‘دراندازی’ کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ؟ افغانستان کی مسلح افواج سے متعلق آزاد معلومات تو میسر نہیں تاہم گذشتہ برس ستمبر میں افغان وزارتِ دفاع کے انسپیکٹر جنرل لطیف اللہ حکیمی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ افغان بری اور فضائی فوجی دستوں میں ایک لاکھ70ہزار فوجی شامل ہیں۔اس سے پہلے فروی2022 میں انھوں نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان افغانستان کے لیے ایک ‘گرینڈ آرمی’ تشکیل دے رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ طالبان ان 81 ہیلی کاپٹروں اور طیاروں میں سے نصف کی مرمت کر چکے ہیں ہے جنھیں امریکی افواج 2021 میں انخلا کے دوران ناقابلِ استعمال حالت میں چھوڑ گئے تھے۔ان کے مطابق امریکی انخلا کے بعد افغان طالبان نے 3 لاکھ سے زائد ہلکے ہتھیار، 26 ہزار بھاری ہتھیار اور تقریباً 61 ہزار فوجی گاڑیوں کا کنٹرول حاصل کیا، تاہم ان دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے اچانک انخلا کے بعد ان فورسز کے زیرِ استعمال اسلحے کی ایک بڑی مقدار پیچھے رہ گئی تھی۔ متعدد بین الاقوامی جریدوں کے مطابق یہ عسکری سازو سامان طالبان جنگجوؤں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ان میں جدید رائفلز سے لے کر متعدد ‘ہم ویز’ اور چند ہیلی کاپٹرز تک شامل تھے۔ اس کے علاوہ باڈی آرمر سوٹ، کمیونکیشن کا سامان، شولڈرماونٹڈ گرینیڈ لانچرز اور رات کے وقت دیکھنے والے آلات بھی شامل تھے۔تاہم اس سب کے باوجود پاکستان میں تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ کابل میں افغان حکومت پاکستان کے خلاف باقاعدہ کارروائی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔حقیقت یہ کہ 2021 کے بعد سے افغانستان کی حکومت کے 2 طرح کے موقف سامنے آ رہے ہیں. ‘ایک تو وہ اس بات سے ہی انکاری ہیں کہ ٹی ٹی پی ان کی سرزمین استعمال کر رہی ہے، حالانکہ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کے دور میں جب پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیے تو وہ مذاکرات کابل میں ہی ہوئے تھے ۔
‘ایک طرف تو یہ بیانیہ ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں رہا لیکن نجی ملاقاتوں میں یہی افغان طالبان کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی ان کے لیے بھی خطرہ ہے اور ان کے خلاف وہ کچھ نہیں کر سکتے۔افغانستان کے معاملات سے واقفیت رکھنے والے صحافی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ افغان حکومت کے پاس اس وقت اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ پاکستان کے اندر کوئی فوجی کارروائی کرے جس سے سرحد پر کشیدہ یا جنگی صورتحال پیدا ہو۔ان کا کہنا ہے کہ ہیں کہ دوسرا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو مزید، خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کے ذریعے مضبوط کریں۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے اورایسا اسی وقت ممکن ہو گا جب طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے ساتھ کھڑی ہو جائے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ طالبان حکومت کا حقانی نیٹ ورک ٹی ٹی پی کو ایک پراکسی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں ملکوں میں مذاکراتی عمل کا بھی آغاز ہوا ہے اور امکان ہے کہ آئندہ ایک دو روز میں سرحد پار اس کشیدگی پر بات چیت ہو گی جس کے بعد ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغان حکومت آخر کن آپشنز پر غور کر رہی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں