میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نئی وفاقی حکومت کے قیام سے پہلے ہی ناکامی کا تاثر

نئی وفاقی حکومت کے قیام سے پہلے ہی ناکامی کا تاثر

جرات ڈیسک
جمعرات, ۲۹ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

پاکستان کے حالیہ عام انتخابات جمہوری روایات کی عدم موجودگی کی وجہ سے رسوائی اور جگ ہنسائی کا نشانہ بنے۔ تاہم انتخابات کے بعد بار بار برسراقتدار رہنے والی جماعتیں عوام کی خواہشات کے برعکس ایک دفعہ پھر کرسی سنبھالنے کیلئے روایتی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں اورایسا معلوم ہوتاہے کہ ملک میں عوام کی نمائندگی کا مینڈیٹ رکھنے والے کسی سیاسی جماعت کے رہنما کو ملک و قوم کی کوئی فکراورانتخابات کے بعد پیداہونے والی موجودہ تشویشناک صورتحال پر کوئی پریشانی اور تشویش نہیں ہے۔ ان کی ایک ہی کوشش ہے کہ کسی طرح اقتدار کی بندر بانٹ میں انھیں ان کے جثے سے زیادہ حصہ مل جائے،ملک کی نازک صورت حال سے قطع نظر سیاسی رہنماؤں کوبظاہر اپنے مفادات سے آگے کچھ نظر نہیں آرہا ہے،سیاستدانوں کی اس روش کے سبب ایسا محسوس ہونے لگاہے کہ انتخابات ایک مشق رائیگاں کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اِن انتخابات میں رائے دہندگان کی جوق در جوق شرکت اور غیر معمولی دلچسپی نے ایک ریکارڈ قائم کردیا ہے جو مستقبل کے لیے ایک نیک شگون ہے۔امید کی جاتی ہے کہ اِس سے محض انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی بلکہ رائے دہندگان کی بلوغت میں مدد ملے گی۔فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ ماضی میں بار بار اقتدار میں رہنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں بظاہر ایک بار پھر شراکت اقتدار کے معاملات طے ہوگئے ہیں،اب صرف اقتدار واختیارات کے معاملات طے کئے جارہے ہیں جس کے بعد پرانے چہروں والے نئے حکمران پھر اقتدار میں آجائیں گے۔وفاق، پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیوں میں نئے چہرے زیادہ نظر آئیں گے جبکہ پنجاب میں حزب اختلاف کے بائیکاٹ کے سبب مریم صفدر صوبے کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل کرچکی ہیں، ان کے والد اور چچا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سربراہ رہے ہیں،باپ اور چچا کیلئے انتخابی مہم کے دوران وہ عام جلسوں میں خوب گرجتی برستی رہی ہیں،لیکن اب تک انھیں کسی منتخب ہونے کا موقع نہیں ملاتھا مگر اس بار پہلی دفعہ انھیں براہ راست وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کا موقع ملا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ انھوں نے اپنوں کا انداز حکمرانی قریب سے دیکھا ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کا اقتدار اب ان کے ہاتھ میں ہے اور وفاق میں ان کے وہی چچا برسر اقتدار ہوں گے جو پنجاب کے متعدد بار وزیر اعلیٰ رہے اور خود کو خادم اعلیٰ قرار دیتے تھے۔13 پارٹیوں کی اتحادی حکومت میں وزیر اعظم بھی رہے اور اب ان کے کچھ گزشتہ اتحادیوں نے وزیر اعظم بنوایا ہے۔پنجاب کے برعکس16 ماہ وفاق میں اپنے اقتدار میں کوئی اچھی مثال قائم نہ کرنے والے اتحادی وزیر اعظم کو بھی پہلے جیسا خوشگوار ماحول میسرآتا نظر نہیں آتا، اسی قومی اسمبلی میں جہاں وہ پی ٹی آئی وزیر اعظم کو سلیکٹڈ قرار دیتے تھے، اب انھیں میں فرینڈلی اپوزیشن نہیں بلکہ ایک حقیقی اپوزیشن بلکہ سیاسی دشمنوں جیسی ایک سخت اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا جو انھیں انتہائی ٹف ٹائم دے گی اور اپوزیشن کی پوری کوشش ہوگی کہ ان کی اتحادی حکومت نہ چلنے دی جائے،اس طرح موجودہ سابق اپوزیشن سے قطعی مختلف ہوگی۔اس بار جے یو آئی کے سربراہ خود اور ان کے3 ارکان بھی اس اتحادی حکومت میں شامل نہیں ہوں گے بلکہ پی ٹی آئی کے ساتھ اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔16 ماہ کی اتحادی حکومت میں شامل رہنے والی چند نشستوں والے سابق اتحادی بھی اپنی کم نشستوں کے باعث حکومتی ضرورت تو ہوں گے مگر وہ بھی اب اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کریں گے کیونکہ پہلے زائد نشستوں کے باوجود ان کی اتحادی حکومت میں وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکے تھے اور اب وہ بھی اپنی سابق اتحادی حکومت پر تنقید کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے ووٹوں سے ہی برسراقتدار آنے والے (ن) لیگی وزیراعظم کو اپنے بعض سخت فیصلوں کے باعث ایوان میں اپنی ہی حلیف پیپلز پارٹی کی سخت تنقید کابھی سامنا ہوگا کیونکہ مسلم لیگ (ن) اپنے منشور پر اور پیپلز پارٹی اپنے منشور پر عمل کرانے کی کوشش کریں گی۔دونوں بڑی اتحادی پارٹیوں کی اپنی پالیسی اور اپنے نظریات ہیں جنھیں حالات کے جبر نے ایک بار پھر مل کر اتحادی حکومت بنانے پرمجبور کر دیا ہے، اب 2008 کے حالات نہیں جب ججز بحالی کے مسئلے پر (ن) لیگ پی پی حکومت سے الگ ہوگئی تھی مگر پی پی حکومت برقرار رہی تھی اور صدر آصف زرداری نے ایم کیو ایم اور (ق) لیگ کو ساتھ ملا کر حکومتی مدت پوری کرلی تھی اور پی پی کا وزیر اعظم اکثریت سے برسر اقتدار رہا۔اب آصف زرداری صدر مملکت تو ہوں گے مگر وزیر اعظم مسلم لیگ (ن) کے شہبازشریف ہوں گے جنھیں 16 ماہ تک پی پی کو ساتھ لے کر چلنے کا تجربہ ہو چکا ہے اوروہ یہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنا کتنا مشکل کام ہے، کہا جاتا ہے کہ اب نئی اتحادی حکومت کو بالاتروں کی حمایت بھی حاصل ہوگی نہیں ہوگی، اس طرح یہ حکومت بجاطورپر ایسی کمزور حکومت ہوگی جس کی اتحادی کوئی چھوٹی سے پارٹی بھی گراسکے گی۔ اسی لئے یہ ایک کمزور حکومت کہلائے گی اور (ن) لیگ کو ہر حال میں پی پی اور صدر مملکت کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا جس کی توقع کم ہے کیونکہ آصف زرداری اپنی شرائط پر ہی (ن) لیگ سے ساتھ نبھائیں گے اور وزارتیں لینے پر آمادہ ہوں گے اور پھر بھی پلڑا پی پی کا بھاری رہے گا۔آصف زرداری کی صدارت میں سندھ و بلوچستان میں ان کے اپنے وزیر اعلیٰ ہوں گے مگر پنجاب میں اب مریم صفدر وزیر اعلیٰ تو ہوں گی لیکن چچا کی بھرپور حمایت کے باوجود مضبوط نہیں ہوں گی۔ دونوں بڑی پارٹیوں کے قائدین نے گزشتہ دنوں رات گئے جس پریس کانفرنس میں مل کر حکومت بنانے کا اعلان کیا تھا اس میں شرکت اقتدار کا فارمولا تو طے ہو گیا تھا لیکن عوام کے مسائل کے حل کے لیے نہ تو کوئی یقین دہانی کرائی گئی نہ کو ئی خواب دکھایا گیا۔ممکن ہے اقتدار سنبھالتے ہی اتحادی وزیر اعظم کوئی یقین دہانی کرائیں مگر کہا یہی جائے گا کہ ملک کے معاشی حالات عوام کو کوئی ریلیف دینے کی اجازت نہیں دیتے اس لیے عوام کو 2-3 سال انتظار کرنا ہی پڑے گا۔ مریم صفدر نے اپنے وعدوں کی تکمیل کے لیے 5 سال کی مدت دی ہے شاید ان کو اندازہ ہوگیاہے کہ ان کی حکومت 5 سال نہیں چل سکے گی اور انتہائی بھولپن کے ساتھ یہ کہہ سکیں گی کہ انھیں کا م کا موقع ہی نہیں دیاگیا ورنہ وہ عوام سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرنے کا پورا عزم رکھتی تھیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اب عوام مزید ایک دو سال بھی مزید مہنگائی، بے روزگاری اور بجلی و گیس کے مہنگے نرخ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔نگراں حکومت اپنے عوام دشمن فیصلوں سے عوام کو عذاب میں مبتلا کر چکی ہے جبکہ زمینی حقائق انتہائی بھیانک تصویر پیش کررہے ہیں اور ماہرین معاشیات اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کے دگرگوں معاشی مسائل کے سبب عوام کو کسی طرح کا ریلیف دینا ممکن نہیں ہے اور عوام کو ریلیف لینے کیلئے2-3 سال انتظار کرنا ہوگا،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف کی زیر قیادت سابقہ اتحادی حکومت اور اس کے بعد موجود ہ نگراں حکومت نے عوام کو جس عذاب میں پھنسایاہے، اس سے عوام سخت مشکل میں ہیں اور انھیں فوری ریلیف درکار ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ انتخابی مرحلے کے بعد جہاں سیاست دان ملک کے طول و عرض میں اگلی حکومت سازی کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں، وہیں معاشی ماہرین اس بات کیلئے فکر مند ہیں کہ نئی حکومت معاشی چیلنجز سے کس طرح نبردآزما ہوگی۔ معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ جان لیوا قسم کے معاشی ومالی مسائل کو حل کرنے کیلئے نئی حکومت کو سخت اقدامات تو کرنا پڑیں گے لیکن اس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑے گا، جسے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ 1980 کے بعد سے اب تک غریب عوام کو دی جانے والی کئی بنیادی سبسڈیز کو ختم کیا جاچکاہے، جس کی وجہ سے مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ ملکی قرضے جو 70کی دہائی میں 10ارب ڈالرز بھی نہیں تھے، وہ اب 130ارب ڈالرز سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔قرضوں کی ادائیگی، خسارے میں چلنے والے قومی ادارے اورآئی پی پیز کو پیسوں کی ادائیگی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ ہیں۔ معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومت کیلئے سب سے بڑا امتحان مالی نظم و ضبط پیدا کرنا ہوگا۔ اخرجات اور آمدن میں 5 ٹریلین روپے کا فرق ہے۔نئی حکومت کو یہ فرق دور کرنے کا چیلنج در پیش ہو گا۔ پاکستان ہی نہیں دنیا کا ہر شہری یہ اچھی طرح جانتاہے کہ پاکستان میں قرضوں کا حجم ہر سال بڑھتا ہی جا رہا ہے۔برسوں پہلے سرکاری اداروں کو بیچ کر قرض ادا کرنے کی پالیسی بنائی گئی تھی اور یہ کہا گیا تھاکہ اداروں پر خرچ ہونے والے پیسے کو عوامی فلاح پر لگایا جائے گا لیکن نجکاری کے اس عمل کے باوجود آج بھی ملک کی بیشتر آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، ڈھائی کروڑ کے قریب بچے اسسکول سے باہر ہیں،اور 6 کروڑ سے زیادہ افراد یعنی ملک کا کم وبیش ہر چوتھا شخص سطح غربت پر زندگی بسر کر ر ہاہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت قرضوں کی ادائیگی اور دوسرے اخراجات کے بعد حکومت کے پاس عوامی فلاح کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ عالمی مالیاتی اداروں سے معاہدے کے نتیجے میں اب حکومت کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔جس کا اثر عام آدمی پر پڑرہا ہے۔بجلی اور گیس کی قیمتیں آسمان سے بھی آگے نکلتی جا رہی ہیں،ابھی موسم سرد ہے لیکن موسم گرما نے پاؤں جمانا شروع کردیے ہیں،موسم گرما میں بجلی کے بلز سے عوام میں غیض و غضب کا ایک نیا لاوا پھٹ سکتا ہے،جسے شاید نیا حکومتی نظام نہ سنبھال سکے۔اسی طرح ماہرین کایہ بھی کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ کو روکنے کیلئے انڈر انوائسنگ کو روکنا حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا جس سے خزانے کو بہت نقصان ہوتا ہے۔ٹیکس نیٹ بڑھانا بھی نئی حکومت کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔ سرکاری ادارے خود ایسے مواقع فراہم کرتے ہیں کہ ٹیکس چوری کیا جائے،اس صورت حال میں نئی حکومت کے لیے چیلنج ہوگا کہ کس طرح وہ ایف بی آر میں اصلاحات کرتی ہے اور ٹیکس نیٹ بڑھاتی ہے۔آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا بھی ایک کڑا چیلنج ہوہے۔اگر حکومت آئی ایم ایف کی شرائط جیسے کہ توانانی کی قیمتیں بڑھانے پر عمل نہیں کرے گی، تو آئی ایم ایف سے اگلی قسط ملنا مشکل ہو گا۔ آئی ایم ایف کا جائزہ مشن رواں ماہ کے آخر تک اسلام آباد کا دورہ کر سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کا آئندہ مشن 3 ارب ڈالرز کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی تکمیل کے لیے کافی اہم سمجھا جارہا ہے جو 12 اپریل 2024کو ختم ہونے والا ہے۔ دوسری طرف جنوری میں 26 فیصد اضافے کے باوجود رواں مالی سال کے ابتدائی 7 ماہ کے دوران پاکستان کو موصول ترسیلات زر 3فیصد تنزلی کے بعد 15 ارب 83 کروڑ 23 لاکھ ڈالرز ریکارڈ کی گئیں۔اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے اسی مہینے میں ایک ارب 90 کروڑ ڈالرز رہی تھیں۔ اس لئے معاشی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بھی حکومت برسر اقتدار آئے اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ ترسیل میں اضافے کیلئے کس طرح کے اقدامات کرتی ہے۔آنے والی حکومت کو ایک ایسے وزیر خزانہ کی ضرورت ہو گی جو معیشت کی سوجھ بوجھ رکھتا ہواور اصلاحات کر سکے۔اس کیلئے نئی اتحادی حکومت کو اپنے ماضی کے برعکس اپنا انداز حکمرانی بدلنا ہوگا اور سادگی اختیار کرنا ہوگی اور عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنے حکومتی اخراجات فوراً کم کرکے عوام کو فوری ریلیف ہر حال میں دینا ہوگا۔ورنہ مضبوط اپوزیشن عوام کو سڑکوں پر لانے میں دیر نہیں کرے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نئی حکومت کو ایوان میں اپنی عددی اکثریت برقرار رکھنے کیلئے چھوٹی چھوٹی اتحادی جماعتوں کے بھی بہت سے فضول مطالبات کو بھی تسلیم کرکے ان پر عملدرآمد کرنا پڑے گا۔نئی وفاقی حکومت کویہ اور ایسے بہت سے چیلنجز درپیش ہیں جن سے نمٹنے کی صلاحیت اور اعتماد دونوں ہی اس کے پاس نہیں۔ لہذا وفاقی حکومت قائم ہونے سے پہلے ہی اس کی ناکامی کا یقین تمام حلقوں میں موجود ابھی سے پیدا ہو چکا ہے۔ درحقیقت پاکستان کو مسائل کے حقیقی حل کے لیے ایک حقیقی نمائندہ حکومت چاہئے جو مینڈیٹ چوری کے ذریعے قائم ہونا مشکل بنادیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ نئی حکومت غیر نمائندہ ہونے کی حیثیت میں سخت اپوزیشن اور عدم پزیرائی کے باعث خود بھگتے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں